کھانا آپ نے کرسی پر رکھ دیا اور خود میز پر بیٹھ گئے۔ حجام کے پاس جوتے مرمت کرانے چلے گئے۔ انگریزوں کے زمانے میں والیانِ ریاست اسی طرح کے کام کرتے تھے۔ چیف انجینئر رخصت پر گیا تو اس کی جگہ پر چیف میڈیکل افسر کو تعینات کر دیا۔ چیف انجینئر واپس آیا تو اسے قاضی القضاۃ لگا دیا۔ یہ سب کیا ہے؟ جہاں کوئی شے رکھنی ہے وہاں نہ رکھی۔ کسی اور جگہ رکھ دی جہاں کسی کو تعینات کرنا ہے‘ وہاں اسے تعینات نہ کیا۔ کسی نااہل کو کر دیا یہی ظلم ہے۔ ظلم کی تعریف ہی یہی ہے وَضعُ الشَیٔ فی غَیرِ محلّہِ کسی شے کو وہاں رکھنا جہاں اسے نہیں رکھنا چاہیے۔ پاکستان میں یہ ظلم دہائیوں سے ہو رہا ہے نہ جانے کب تک ہوتا رہے گا۔ ہر شاخ پر الو کو تعینات کیا جاتا رہا ہے۔ بدبختی سے یہ رویہ ہر حکومت میں یکساں ہی رہا۔ کسی حکومت کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ Right person for the right jobکے اصول پر کاربند ہو! آمریت کے زمانوں میں یہ ظلم انتہا پر پہنچ جاتا ہے۔ یادش بخیر‘ صدر پرویز مشرف نے وفاقی محکمہ تعلیم کا سربراہ ایک ایسے شخص کو بنا دیا جس کا وفاقی محکمہ تعلیم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ بس صدر صاحب سے مراسم تھے۔ اسے توسیع پر توسیع ملتی رہی۔ حق دار عدالتوں میں جوتے چٹخاتے ریٹائر ہوتے چلے گئے۔ کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ پھر ڈاک کے محکمے کا ایک ایسے صاحب کو سربراہ بنا دیا جو محکمے سے نہیں تھے۔ بددعائوں کا ایک اور دروازہ اپنے لئے کھول لیا۔ کسی کی حق تلفی کر کے کسی ایسے فرد کو کوئی منصب عطا کرنا جو اس کا حق دار نہیں۔ کوئی معمولی ظلم نہیں! بہت بڑا ظلم ہے۔ آخرت کا حساب تو ہونا ہی ہے دنیا میں بھی ایسے حکمرانوں کو عجیب عجیب انجام دیکھنے پڑتے ہیں۔ زندگی ہی میں نشان عبرت بن جاتے ہیں۔ کروڑوں اربوں کھربوں کے مالک ہونے کے باوجود زندگی ان کے لئے وبال جان بن جاتی ہے۔ دنیا کی نعمتوں سے حظ نہیں اٹھا سکتے۔ کھانا پینا چھوٹ جاتا ہے۔ بعض کو پراسرار امراض لاحق ہو جاتے ہیں۔ نااہل کو منصب پر بٹھانا قرآن کے حکم کی بھی نافرمانی ہے۔ تلقین کی گئی کہ اللہ ہمیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں صرف ان کو پہنچائو جو ان کے اہل اور مستحق ہیں!اس آیت کی تفسیر میں مفسرین نے حکومت کے عہدوں اور مناصب کا ذکر بطور خاص کیا ہے۔ حدیث میں ذات اقدسؐ کا فرمان ہے کہ جسے مسلمانوں کی کوئی ذمہ داری سونپی گئی۔ پھر اس نے کوئی عہدہ کسی شخص کو محض دوستی اور تعلق کی بنا پر اہلیت کے بغیر دے دیا اس پر اللہ کی لعنت ہے اس کا فرض مقبول ہے نہ نفل، یہاں تک کہ وہ جہنم میں داخل ہو جائے۔ صحیح بخاری سے مفسرین یہ بھی نقل کرتے ہیں کہ ارشاد ہوا جب دیکھو کہ کاموں کی ذمہ داری ایسے لوگوں کے سپرد کر دی گئی جو اس کام کے اہل اور قابل نہیں تو قیامت کا انتظار کرو! تازہ ترین مثال اس حوالے سے ریلوے کے محکمے کی ہے۔ ریلوے کا سربراہ ریلوے کے محکمے سے نہیں لیا جا رہا۔ ایک اور گروپ سے لیا جا رہا ہے۔ ریلوے کے وزیر صاحب نے خود بنفس نفیس یہ خوش خبری ریلوے کے افسران کو سنائی۔ یعنی جس وزیر کو اپنے محکمے کے افسروں کے حقوق کی حفاظت کرنا تھی۔ وہی یہ کہہ رہا ہے کہ سربراہی محکمے کسی افسر کو نہیں‘ بلکہ سول سروس کے فلاں گروپ کو دی جائے گی۔ کھیت کے اردگرد لگی باڑ کھیت ہی کو کھا رہی ہے۔ چرواہا خود بھیڑوں کو شکار کے لئے پیش کر رہا ہے! ریلوے کا شعبہ ایک الگ دنیا ہے ،یہ ایک سمندر ہے اس کے قوانین ‘ ضابطے رولز ‘ روایات‘ کلچر سب اس کے اپنے ہیں ان قوانین ان روایات اور اس کلچر کو وہی بخوبی سمجھ سکتا ہے جس نے اس شعبے میں ایک مدت گزاری ہو! اہم ترین پہلو اس معاملے میں افرادی قوت سے شناسائی کا ہے۔ اگر سربراہ ‘ شعبے ہی سے تعینات ہو تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ فلاں افسر کی شہرت اچھی ہے، فلاں کی بری‘ فلاں کام میں ڈھیلا ہے فلاں چست‘ فلاں دیانت دار ہے فلاں خائن! باہر سے آنے والا بہت جلد خوشامدیوں کے نرغے میں گرفتار ہو جاتا ہے۔ اس کے فرشتوں کو بھی خبر نہیں ہوتی کہ اہل افسر کونوں کھدروں میں بیٹھے‘ محروم توجہ ہیں‘ وہ بات بات پر ان شعبوں‘ ان محکموں کی مثالیں دے گا جہاں وہ رہا ہے مگر اسے یہ نہیں معلوم کہ وہ مثالیں اس شعبے کے لئے غیر متعلق ہیں۔ اکثر و بیشتر یہ حضرات اپنے معاونین بھی اپنے ساتھ لاتے ہیں۔ یوں ٹاپ پر مکمل اجنبیت حاوی ہو جاتی ہے۔ شعبے کے اندر عملاً ایک اور شعبہ کھل جاتا ہے۔ دوسری شدید ترین ضرب محکمے کے مورال پر پڑتی ہے۔ سینئر افسر نے چیئرمین بننا تھا۔ وہ بن جاتا تو ترقیوں کا ایک سلسلہ چلتا۔ حقداروں کو حق ملتا ۔ مورال بلند ہوتا۔ استعداد کار میں اضافہ ہوتا۔ مگر جب ترقیوں کا سلسلہ رک گیا‘ سربراہ درآمد شدہ لگایا گیا تو سب قلم رکھ کر بیٹھ جائیں گے۔ یہ انسان ہیں! فرشتے نہیں! انہیں حوصلہ افزائی چاہیے! ساڑھے تین عشرے کام کرنے کے بعد جب سربراہ بننے کی باری آئی۔ یا سکینڈ اِن کمانڈ بننے کا وقت آیا تو سب کچھ رُک گیا کچھ لوگ ایسے دل شکن مواقع پر دیانت داری کو بالائے طاق رکھ دیتے ہیں کہ ایسا تو پھر ایسا ہی سہی! کچھ ملازمت چھوڑنے کی منصوبہ بندی شروع کر دیتے ہیں۔ سروں پر مایوسی کی چادر تن جاتی ہے۔ دلوں پر ناامیدی چھا جاتی ہے۔ راستے بند ملتے ہیں۔ پورے شعبے کی کارکردگی دھڑام سے نیچے آ گرتی ہے! کچھ عدالتوں کا رُخ کرتے ہیں۔ وہاں سے حکم امتناعی جاری ہوتا ہے۔ پھر مقدمہ چلتا ہے۔ عملاً سربراہ کوئی بھی نہیں ہوتا۔ اس اثناء میں حقدار ریٹائر ہو جاتے ہیں۔ کچھ دفتر شکایت کھولے عالم بالا کو چلے جاتے ہیں اور معاملہ اس عدالت میں لے جاتے ہیں جہاں کوئی ناانصافی نہیں ہوتی۔ تو پھر کیا یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہے گا ؎ تو کیا ان اندھیرے مکانوں میں ہم یونہی دن گزارے چلے جائیں گے؟ کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ ہم اس ملک کو بادشاہت کی طرز پر چلانے کے بجائے ایک جدید ریاست کے طور پر چلائیں؟ضابطوں کی پابندی کریں اور ذاتی پسند ناپسند کو بالائے طاق رکھ دیں! ان ناانصافیوں کے سبب ہم پہلے نصف سے زیادہ پاکستان کھو چکے ہیں۔ اب تو ہمیں سنبھل جانا چاہئے کب تک ہم گروہوں کو اپنے اوپر مسلط کرتے رہیں گے؟ کبھی سول سروس کا ایک مخصوص گروہ کبھی کوئی اور گروہ! کبھی کوئی اور ٹولہ! کبھی کوئی جتھہ! کبھی کوئی قبیلہ! یہ ملک کسی کی جاگیر نہیں! یہ ملک ایک مزدور کا بھی اتنا ہی ہے جتنا کسی حکمران کا!پہلے ہی اس ریاست کے اکثر شعبے رُوبہ زوال ہیں۔ ریلوے کا موازنہ سرحد پار کی ریلوے سے کر دیکھیے‘ قومی ائر لائن‘ اب سری لنکا جیسے ملکوں کی ائر لائنوں سے بھی پیچھے رہ گئی ہے۔ خدا کے لئے حق تلفیوں سے باز آ جائیے! خلقِ خدا سے نہیں ڈرتے تو خدا کا تو خوف کیجیے! ظلم اور دھاندلی ختم کیجیے۔ لوگوں کو روشنیوں کی ضرورت ہے! افسوس! آپ اندھیرے بانٹ رہے ہیں!