بھٹو خاندان کی آخری چشم و چراغ محترمہ صنم بھٹوکی گاہے بہ گاہے آمد ہوتی رہی مگر یہ ہمیشہ ان کی ذاتی مصروفیات تک محدود ہوتی ہے۔ مگر ایک ایسے وقت میں جب ان کی بڑی بہن وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے شوہر محترم آصف علی زرداری کی خبریں زوروں پر ہیں۔ اس بار ان کی لندن سے آمد کو پارٹی کی قیادت سیاسی اہمیت کی حامل بتا رہی ہے۔غالباً بلکہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان کی جو تصاویر اخباروں کی زینت بنیں اس میں وہ بھانجے، پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری ، پنجاب کے صدر محترم قمر زمان کائرہ کے ساتھ کھڑی نظرآئیں۔ پارٹی کی قیادت یہ عندیہ بھی دے رہی ہے کہ محترم آصف زرداری کی گرفتاری کی صورت میں محترمہ صنم بھٹو کومتبادل قائد کی صورت میں لایا جائے گا۔ اگر اپنی بہن کی شہادت کی گیارہویں برسی کے موقع پر 27 دسمبر کو وہ گڑھی خدا بخش میں ہونے والے جلسے میں بھی اسٹیج پر تقریرکرتی نظر آتی ہیں… تو یقینا یہ ایک تاریخی واقعہ ہوگا۔کہ گزشتہ چار دہائی میں پیپلز پارٹی میں اور ان کے خاندان پر بڑے بڑے سانحات ٹوٹے مگر صنم بھٹو نے خود کو عملی سیاست سے دور ہی رکھا۔ برسہا برس سے میرے حافظے میں بھٹو خاندان کی ایک ہی تصویر محفوظ ہے… جس میں بھٹو صاحب کا پورا خاندان پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد پہلی بار وادی کشمیر چھٹی گزارنے گیا تھا۔ تصویر میں ذوالفقار علی بھٹو، بیگم نصرت بھٹو، مرتضیٰ بھٹو،شاہنواز بھٹو، بے نظیر بھٹو اور صنم بھٹوکے چہروں پر ایک ہی بات مشترک ہے اور وہ ہے دھیمی دھیمی چھلکتی مسکراہٹ۔ وثوق سے کہہ سکتاہوں کہ اس کے بعد اس پورے خاندان کی کوئی دوسری ایسی خوش و خرم تصویر نظر سے نہیں گزری۔ اوراگر ہوگی بھی تو وہ بھٹو خاندان کے ذاتی ایلبم میں اور جو یقینا نوجوان بلاول کے پاس محفوظ ہوگا۔ بھٹو خاندان پر ابتلاکا دور تو 1966ء سے ہی شروع ہوگیا تھا۔جب انہوں نے ایوب خان سے بغاوت کر کے پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی۔ تین سال کی طویل جد وجہد کے بعد دسمبر1971ء میں وہ اقتدار میں آئے۔ سال دو سال اس اعتبار سے شاندار رہے کہ بھٹوصاحب نے جہاں اپنے چاروں بچوں کی تعلیم پربھرپور توجہ دی وہیں بیگم نصرت بھٹو نے اپنی سرکاری مصروفیات کے باوجود اپنے بچوں کی تربیت پرخصوصی توجہ دی۔ جولائی77ء میں بھٹوصاحب کی گرفتاری کے فوراً بعد ہی بینظیر بھٹو وطن واپس آگئیں اور اپنی والدہ بیگم نصرت بھٹو کے ساتھ انہوں نے پارٹی کمان سنبھال لی۔ جبکہ بھٹو صاحب کی ہدایت پر دونوں صاحبزادے لندن روانہ ہوگئے تاکہ اپنی تعلیم مکمل کرسکیں۔ اس وقت اور بعد کے برسوں بلکہ دہائیوں سے صنم بھٹو نے خود کو عملی سیاست سے دور رکھا۔ برسوں بعد بھی انکی شادی،علیحدگی اور بچے خبروں سے دور رہے۔ مگر محترمہ بے نظیربھٹو، میر مرتضیٰ بھٹو، میر شاہنواز بھٹو، بھٹوصاحب کی شہادت کے بعد ان کی سیاست کی وارث ٹھہرے اور اپنی زندگی کے نوخیز،پرشباب دنوں میں ہی ان کی زندگی ایک شدیدمصائب و آلام سے دوچار ہوئی۔بات صنم بھٹو کی اچانک پاکستان آمد اورمحترم آصف علی زرداری کی ممکنہ گرفتاری کی صورت میں پارٹی کی قیادت سنبھالنے سے شروع ہوئی تھی۔کم و بیش چار دہائی تک عملی سیاست سے قطعی طور پر علیحدہ بلکہ بیزاری کی حد تک دور رہنے والی صنم بھٹو کو ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کی قیادت سونپنا خوشگوار ہوا کا جھونکا کہاجائے گایا پیپلز پارٹی کی قیادت کا المیہ… یقینا یہ ایک ایساموضوع ہے جس سے غالباً امکان ہے کہ جو تعلق خاص بھٹو خاندان اور پارٹی کے دیگر قائدین سے ذاتی سطح پر بھی رہا ہے اس سے کہیں یہ انکی دل آزاری کا باعث نہ ہو۔ وراثت کی سیاست برصغیر پاک و ہند بلکہ ساری دنیا میں ایک موضوع رہا ہے۔ ہندوستان میں نہرو خاندان ، بنگلہ دیش میں شیخ مجیب الرحمان ، سری لنکا میں بندرا نائیکے خاندان جس سیاسی اتارچڑھائواور گرم و سرد سے گزرے اسے ابھی الگ اٹھائے رکھتا ہوں۔ مگر خود قیام پاکستان کے ساتھ ہی وطن عزیز میں وراثتی سیاست کی بنیاد رکھی جاچکی تھی۔ یہ درست ہے کہ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی خانگی زندگی جس المیے سے دوچار رہی اْس سے ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح جو بعد میں مادر ملت کہلائیں…ان کی ذاتی ہی نہیں عملی سیاست میں بھی ان کی دست راست بنی رہیں۔ مگر قائد اعظم محمد علی جناح کی اپنی زندگی میں اور پھر جب ان کی زندگی آخری دموں پر تھی کبھی یہ خواہش نہیں رہی کہ ان کی بہن ان کی جگہ سنبھالتیں۔ ایک اسٹیٹسمین، زیرک سیاستداں کی حیثیت سے وہ وراثتی سیاست کو کبھی پسند نہیں کرتے تھے۔ معذرت کے ساتھ، اچھا نہیں لگ رہا ، حوالہ دینے سے بھی گریز کروں نگا۔ مگر قائد اعظم کی زندگی میں ہی ان کے دست راست اور ان کے بعد جگہ لینے والے پہلے وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان کی بیگم رعنا لیاقت علی خان کی معمول سے زیادہ سیاسی اور سماجی سرگرمیوں کو بانی پاکستان کوئی بہت احسن نظروں سے نہیں دیکھتے تھے۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے بعد محترمہ فاطمہ جناح مکمل طور پر پس منظر میں چلی گئیں۔ قائد کے انتقال کے بعد ان کی برسی اور سالگرہ کے موقع پر ان کا ایک حب الوطنی پر مبنی قائد کے نظرئیے پرچلنے کے لیے ایک روایتی پیغام ضرور نشر ہوتاتھا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے مارشل لاء کے دور میں اکثر وبیشتر یہ سنسر شپ کی نذر ہوجاتا تھا۔ کہ برسہا برس سے ان کے پیغام میں جمہوریت اور بہت اچھی جمہوریت پر زور دیا جاتا تھا۔ 1964ء کے انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کا اپوزیشن کا متفقہ قائد بننا ایک تاریخی حادثہ تھا۔ 1964ء میں جنرل محمد ایوب خان ایک مقبول، طاقتور سیاسی رہنما تھے۔ ان کے مقابلے میں نہ صرف اپوزیشن منتشر تھی بلکہ ان کے پاس کوئی اتنا بڑا قد کاٹھ کا غیر متنازعہ رہنما نہ تھا جو ایوب خان کو شکست سے دوچار کرتا۔ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اپنی تمام تر مقبولیت کے باوجود اس الیکشن میں ہار گئیں۔ یا ہروا دی گئیں۔ جس کے بعد ایک بار پھر انہوں نے خود کو اپنی ذاتی رہائش گاہ موہٹہ پیلس تک محدود کرلیا۔ وطن عزیز میں وراثتی سیاست کی ایک طول طویل تاریخ ہے…خان عبد الغفار خان کے بعد خان عبد الولی خان اور پھر ان کے بعد آج کے اسفندیار ولی خان… خان عبدالصمد خان اچکزئی کے بعد محمود خان اچکزئی…اسی طرح میر غوث بخش بزنجو اور سردار عطااللہ مینگل کے بعد انکے صاحبزادگان سرداراختر مینگل اور میر حاصل خان بزنجو… ایئر مارشل اصغر خان کے صاحبزادے عمر اصغر خان مشرف حکومت کے دور میں ابھر کر عملی سیاست میں آئے… مگر ان کی ناگہانی موت نے خود ایئر مارشل کو توڑپھوڑ کر رکھ دیا۔ جنرل ضیاء الحق کے صاحبزادے اعجاز الحق بھی سیاست میں ہرچند کہ ہیں ، مگر نہیں ہیں۔ پنجاب ، سندھ ، بلوچستان اور کے پی میں ایک لمبی قطار ہے جسکی دوسری اور تیسری پیڑھی عملی سیاست میں ہے۔ مگر کسی کو بھی وہ اہمیت حاصل نہیں ہوسکی جو پانچ دہائیوں سے بھٹو خاندان کو حاصل ہے۔ اسی لیے محترمہ صنم بھٹو جیسی غیر سیاسی خاتون کی عملی سیاست میں ممکنہ آمد نے مجھے چونکا دیا جس پر تفصیل آئندہ…