اقوامِ متحد ہ کی کمیٹی برائے انسانی حقوق نے حضرت علی المرتضیٰؓ کے مکتوب بنام مالک بن اشتر کو تاریخ ِ عالم کا منصفانہ ترین خط قرار دیتے ہوئے ، دنیا کے تمام حکمرانوں کو ، اسے بطورِ مثال اپنانے کی تجویز پیش کی ہے ، کمیٹی نے اس خط کو ’’سماجی انصاف‘‘ اورامنِ عالم کا اعلیٰ ترین نمونہ اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد ، انسانی تاریخ کا عادل ترین حکمران قرار دیا ہے ، انہوں نے لکھا ہے: "The Caliph Ali Bin Abi Talib is considered the fairest governor who appeared during human history (After the Prophet Muhammad) " مشہور امریکی مصنف " Michael Hamilton"،جو انتظامی امور کا ماہر تصور کیا جاتا ہے ،نے کہا کہ حضرت علیؓ کا مالک بن اشتر کے نام لکھا گیا خط، جو اُسے 656ء میں مصر کا گورنر بناتے وقت، تحریر کیاگیا ، میں بطور خاص غیرمسلموں کے ساتھ حُسنِ سلوک کے حوالے سے کی گئی ہدایات ----حضرت علی ؓ کی انتظامی حکمت ودانش کابہترین نمونہ ہیں ،جس سے پوری انسانیت کو روشنی حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔اس نے لکھا ہے : ……..….. urging him to treat people, who were not muslims, with charity and beneficence confirming the necessity of equality among the jews and Christians with Muslims in rights and tasks, he showed his high admiration for his wise policy that made him enter the history of humanity from its broad doors. چند روز قبل وزیر اعظم پاکستان نے بھی ، سماجی رابطے کی، اپنی ویب سائٹ پر عدل اجتماعی اور سماجی انصاف کے حوالے سے’’ نہج البلاغہ‘‘ کے مکتوب کا حوالہ دیتے ہوئے ،ملک کو درپیش چیلنجز سے نکالنے اور بالخصوص حکمران طبقے کو ناجائز طریقے سے دولت اکٹھے کرنے کے مضمرات بیان کرتے ہوئے ،اُسے ملکی تباہی وبربادی کا موجب قرار دیا ہے ۔حضرت علی المرتضیٰ ؓ کے خطبات ، مکتوبات ورسائل اور حکیمانہ اقوال وامثال کا مجموعہ ’’ نہج البلاغہ‘‘ جس کو الشریف الرضی(359۔404ھ )نے جمع کیا اور جس پر پچاس سے زائد شروح لکھی جا چکی ہیں ،جس میں امام بیہقی ؒ،امام فخر الدین رازیؒ اورامام عز الدین بن ابی الحدیدالمدائنی کی شرحیں بھی شامل ہیں ، ان میں آخر الذکر، سب سے مفصل، جوکہ بیس جلدوں پر مشتمل ہے ۔ بلا شبہ تاریخ انسانیت میں حضرت علی ؓ کو استثنائی طو پر جو صلاحیتیں عطا شدہ اور انسانی نفوس اور زندگی کے سرد وگرم کے جو تجربات حاصل تھے ، اس کا اندازہ ان کے کلام ہی سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ان کے پُرحکمت کلمات ،خطبات اور ارشادات----ان کی صلابتِ فکر ،قوتِ مشاہدہ ،باریک بینی ،زندگی کے گہرے مطالعہ اور لوگوں کی فطرت شناسی کا اعلیٰ ترین نمونہ ہیں ۔ آپ ؓ نے مصر کے گورنر مالک بن اشتر نخعی کے نام جو گرامی نامہ تحریر کیا، وہ اس اعتبار سے ،نہایت وقیع اور جامع ہے ، اس میںریاست کے بنیادی ستون بالخصوص عدلیہ ، فوج اور ایگزیکٹو کے حوالے سے جو راہنما اصول بیان کئے ----چودہ صدیوں کا طویل فاصلہ بھی اُس کی افادیت کو کم نہیں کرسکا۔ آپ ؓ نے اپنے اس مکتوب میں ایک ایسی فوجی قیادت کی تشکیل کی ہدایت فرمائی ،جس کی اولین ترجیح ریاست کا دفاع ہو اور پھر آپؓ نے اس امر کی بھی تلقین فرمائی کہ ’’سامانِ جنگ‘‘ کی فراہمی اور فوج کے دیگر اخراجات بیت المال سے پورے کیے جائیں ۔فوجی افسروں کے انتخاب اور تقرر کی جو کڑی شرائط آپ نے مقرر فرمائیں ،اس میں نمایاںتر یہ ہے کہ فوج اور فوجی افسروں کی توجہ اور یکسوئی صرف اور صرف دشمن کی نقل وحرکت اورجذبۂ جہاد پہ ہونی چاہیے ۔ آپ ؓ نے اپنے اس مکتوب میں سرکاری افسروں ، عہدیداروں اور ملازمین کے انتخاب میں از حد احتیا ط کی ہدایت فرماتے ہوئے تحریر کیا کہ باصلاحیت اور اہلیت کے حامل سرکاری ملازمین ----حکومت کوترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کرنے میں مدد گار ہوتے ہیں ، آپؓ نے میرٹ اور شفافیت پر زور دیتے ہوئے فرمایا کہ :’’ان کو خوب آزمائش کے بعد منصب دینا اور پھر ان کی مانیٹرنگ بھی کرنا ، آپ ؓ نے فرمایا کہ محض قرابت اور سفارش کی بناء پر عہدیداروں اور سرکاری افسروں کا تقرر ناانصافی اور بددیانتی کا سرچشمہ ہے ، میرٹ پالیسی میں تجربہ ، خودداری اور وضعداری (یعنی امانت ،دیانت اور خاندانیت) کو ترجیح دینا اور فرمایا کہ ایسے اوصاف کے حامل افراد ۔۔۔۔بلند اخلاق ، عزت دار ،حرص وطمع سے عاری اورفیصلوں میں دوراندیش اور مستقل مزاج ہوتے ہیں ۔ اس کے ساتھ آپ نے یہ بھی تلقین فرمائی کہ ان کی تنخواہوں اور مشاہروں کے معیار کو بلند رکھنا تاکہ وہ اس مال سے بے نیاز رہیں ،جن کا انہیں امین بنایا گیا ہے ، اور اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے اُنہیں کسی اور طرف نہ دیکھنا پڑے ۔ ان کو اپنے ہاں عزت واعزاز دینا تاکہ اُنہیں تمہاری طرف سے یکسوئی اور تحفظ کا احساس رہے اور کوئی بے جا ان کے خلاف سازش نہ کرسکے۔عدالتی افسران یعنی ججزکے تقرر کے حوالے سے آپؓ نے فرمایاـ: ’’ لوگو ں کے فیصلہ کرنے کے لیے ایسے شخص کو منتخب کرنا ،جو تمہارے نزدیک تمہاری رعایا میں سب سے بہتر ہو، جو اُلجھے ہوئے معاملات کو سلجھانے کا سلیقہ اورحوصلہ رکھتا ہو، جو کسی کی تُندخوئی اور ناروا رویّے سے طیش میں نہ آئے ۔حق کو پہچان کر اسے اپنانے کی طلب و تڑپ اور معاملات کی چھان بین کے لیے اصل حقائق تک پہنچنے کا حوصلہ رکھتا ہو ۔شک وشبہ سے بچتا اوردلائل وحقائق کو اہمیت دیتا ہو، صبر وضبط اورحوصلہ کا مالک ہو ،حقائق آشکار ہوجانے پر، بلا خوف فیصلہ صادر کرنے کی ہمت رکھتا ہو۔ آپ نے قاضیوں اورججز کے انتخاب ---- ان کی حفاظت ، تقرری کی شرائط اور ا ن کی تنخواہوں کے حوالے سے بھی راہنمائی فرمائی ۔آپ نے وزراء کے انتخاب اورتقرر کے حوالے سے بھی حکومتی فرمان صادر کرتے ہوئے فرمایا کہ :تمہارے سب سے بُرے وزیر وہ ہیں ، جو تمہارے پیشر و حکمرانوں کے بھی بُرے وزیر اور اُن کے گناہوں میں شریک رہ چکے ہوں ۔ اگر تمہیں استعداد او ر صلاحیت میںان لوگوں کے ہم مثل دیگر لوگ میسر ہوں ، جو ان کی طرح گناہوں کے بوجھ تلے دَبے ہوئے نہ ہوں اورنہ ہی کسی پر انہوں نے ظلم وزیادتی کی ہو، تو ایسے لوگوں کو اپنا وزیر بنانازیادہ سود مند ہے ، یہ تمہارے بہترین معاون اورتمہاری طرف محبت سے جھکنے والے اور دوسرے لوگوں سے رابطہ رکھنے میں، تمہاری خواہش کے پابند ہوں گے ۔ مالک بن اُشتر ،حضرت علی المرتضیٰ ؓ کے قریبی ساتھیوں اورفوج کے اعلیٰ افسران میں سے تھے ،وہ علم وفضل اور تقویٰ کے ساتھ شجاعت وبسالت میں بھی یکتا تھے ۔حضرت علی المرتضی ؓ نے جنگ صفین کے موقع پر آپ کو سپہ سالار مقرر کرکے بھیجا اور ساتھ نصیحت کی کہ جب تک اہل شام خود جنگ کی ابتدأ نہ کریں ، تم پہل نہ کرنا اور ان کو بار بار بیعت کی ہدایت کرنا ----اگر بیعت نہ کریں، تب بھی جنگ کی ابتدأ نہ کرنا ۔ جو آمادئہ جنگ ہوں ، اس کے قریب نہ جانا تاہم اتنا دور بھی نہ رہنا ----جس قدر ایک سہما ہوا آدمی رہتا ہے ۔صبر و ضبط کا مظاہرہ کرنا اور نظم قائم رکھنا ----یہاںتک کہ میںخود آجائوں ۔ اس جنگ میں مالک بن اُشتر نے نہایت بسالت وبہادری کے جوہر دکھائے اور مخالف کیمپ کے آخری حصار تک پہنچ گئے ۔