کشمیر، ہندوستان سے الگ ایک خطہ وجدا ریاست ہے اور اسکی اپنی تمدنی و تہذیبی اور ثقافتی شناخت ہے جوہندوستانی سماج میں سما ہی نہیں سکتی۔علامہ اقبال نے کشمیر کی اس جداگانہ شناخت کو بحال رکھنے اور منوانے کے لیے، بذات خود پنجاب کے شہر لاہور میں تب کے کشمیریوں کی قائم کردہ '' انجمن کشمیری مسلمانان '' کے ابتدائی دنوں ہی میں شمولیت کی اور جلد ہی اْن کو انجمن کشمیری مسلمانان کا سیکریٹری جنرل بنادیا گیا۔ اپنے اس منصب کے حوالے سے اور جنت ارضی، جموںو کشمیر سے قلبی محبت کے ناطے ، اقبال نے کشمیر کے اندر اور پنجاب کے ساتھ ساتھ ہندوستان بھر میں کشمیریوں کی حالت زار بہتر بنانے اور انہیں آزاد شہریوں کے حقوق دلوانے کے لیے جدوجہد تیز کردی۔ اقبال کا مطالبہ تھا کہ زبر دستی بے وطن اور بے گھر کر دیئے گئے کشمیریوں کوریاست میں اپنے گھروں کو واپس جانے، وہاں آباد ہونے اور اپنی املاک کے خود مالک ہونے کا حق دیا جائے۔ 

اقبال ہی کی تحریک و ایما پر، انجمن کشمیری مسلمانان، نے جموں و کشمیر کے مہاراجہ پرتاپ سنگھ کو لاہور بلایا اور اْن سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیریوں پر اپنے فوجیوں کے ظلم و ستم رکوائیں اور کشمیریوں کو اپنی مذہبی و سماجی اور تمدنی و ثقافتی اقدارو رسومات پورا کرنے کی آزادی کی راہ میں روڑے نہ اٹکائیں۔ مہاراجہ پرتاپ سنگھ نے اس موقع پر اقبال کو یاد دلایا کہ کشمیر اقبال کا آبائی وطن ہے اور کہا کہ انہیں کشمیر کا دورہ کرنا چاہیے۔ اقبال نے برجستہ مہاراجہ کو جواب دیا '' ہم نے کشمیر کو فراموش ہی کب کیا ہے جو آپ ہمیں یاد دلاتے ہیں، ہم اس وقت آپ کے سامنے سرتاپا، کشمیرہی کشمیر ہیں''۔ اقبال بعد میں کشمیر گئے لیکن دعوت کے باوجود وہ مہاراجہ پرتاپ سنگھ کے مہمان نہیں تھے۔  اپنے سرکاری کام کاج سے فارغ ہو کراقبال کشمیر میں کچھ عرصے کے لیے ٹھہرے اور مختلف شہروں، قصبوں اور دیہاتوں میں بھی، وہاں کے قدرتی حسن کا ہی نہیں روزمرہ کی زندگی اور مسلمانان کشمیر کے شب و روز کی مصیبتوں کا خود جائزہ لیا۔ اور اس کے بعد تو پھر اقبال اور کشمیر کبھی آپس میں جدا ہی نہیں ہوئے۔ اقبال کہتے ہیںتنم گلے زخیابانِ جنت ِکشمیردلم ز خاکِ حجاز و نواز شیراز استیعنی کہ: میرا بدن، گلستان کشمیر کا ایک پھول ہے اور میرا دل ارض حجاز سے اورمیری صدا شیراز سے ہے۔

 اگر یہ کہا جائے توغلط نہ ہوگا کہ جموں و کشمیر کی آزادی کی تحریک در اصل انیس سو اکتیس ہی میں شروع ہو چکی تھی لیکن تاریخ کے اوراق گواہ ہیں کہ اقبالؒ کشمیر کے سیاسی جغرافیے کی بساط اْلٹ جانے کی پیش گوئی بہت پہلے کر چکے تھے۔ اور لاہور میں انہوں نے انجمن کشمیری مسلمانان کے ایک سالانہ اجلاس میں اپنے اس خواب کو یوں بیان کیا تھا '' ہم کشمیر میں سیاست کی میز اْلٹ جانے کو دیکھ رہے ہیں، میں دیکھ رہا ہوں کہ کشمیری جو روایتی طور پر محکوم اور مظلوم ہیں اور جن کے بت معبود تھے ان کے دلوں میں اب ایمان کے شرارے پھوٹ رہے ہیں۔ کشمیریوں کو یہ احساس ہونے لگا ہے کہ ان کے ہنر سے جو ریشم و کمخواب کے لباس بنتے ہیں ان کو پہنتا کون ہے اور ننگے بھوکے کو ن رہتے ہیں۔ 

علامہ اقبال کی فکر کشمیر کی آزادی اور پاکستان کے ساتھ مستحکم رشتہ کی ضمانت ہے۔اقبال کشمیر کے عظیم سپوت تھے جنہوں نے روح آزادی کو بیدار کیا۔ حکیم الامت علامہ اقبال ؒ کو کشمیر کے ساتھ بے پناہ جذباتی اورروحانی وابستگی تھی۔اس وابستگی کا اظہار علامہ اقبالؒ نے اپنے کلام ،خطوط اورخطبات میں جا بجا کیاہے۔ علامہ اقبال ؒ کے بزرگوں کا تعلق خطہ کشمیر سے تھا جس پر علامہ اقبال ؒ کو بہت ناز تھاجس کا اظہار انہوں نے ایک موقع اس طرح کیا کہ ان کی شیریانوں میں دوڑنے والا خون کشمیر کے شفق فام چناروں کی طرح سرخ ہے۔

اقبال بنیادی طور پر آزادی فکر کے شاعر ہیںجنہوں نے اپنی انقلابی شاعری کے ذریعے ظلم وجبر کا شکار انسانوں کے دلوں کے اندر آزادی وحریت کی شمع روشن کی۔اقبال کا نظریہ تھا کہ غلامی انسان کو اندر سے کھوکھلا کردیتی اوراس کی سوچ وفکر کو محدود کر دیتی ہے۔جس کے نتیجے میں گروہی، علاقائی اورلسانی تعصبات پیدا ہوتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے1932ء میں اپنے ایک مشہور خطبہ میں مسلمانا ن کشمیر کو ان قوتوں کی سازشوں سے خبردار کردیا تھا جو کشمیریوں کے اندر انتشار وافتراق پیداکرناچاہتے تھے۔ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے کشمیر کے لوگوں کو مختلف جماعتوں اورگروہوں میں تقسیم ہونے کے بجائے ایک جماعت کے پلیٹ فارم سے جدوجہد آزادی کو آگے بڑھانے کا مشورہ دیا تھا۔

علامہ محمد اقبالؒ جو بذات خود ایک کشمیری النسل تھے، خطبہ آلہ آباد 1930ء  سے قبل بھی وہ ہندوستان میں کشمیریوں کی تحریک حریت کے داعی و علمبردار رہے اور اولاً آل انڈیا کشمیر کمیٹی کے سیکرٹری اور بعد ازاں کشمیر کمیٹی کے صدر بھی رہے۔ علامہ اقبالؒ نے ہی 14 اگست1934 کو کشمیریوں کیسا تھ اظہار یکجہتی منانے کیلئے پورے مسلمانان ہند کو دعوت دی تھی۔ 1931ء  کے واقعات جن میں سری نگر میں 22افراد نے جام شہادت نوش کیا تھا اس واقعہ کے صدائے بازگشت کو ہندوستان تک پہنچانے میں علامہ اقبالؒ کا بہت بڑا کر دار تھا۔ حضرت علامہ محمد اقبال نے جب1930ء میں مسلمانان ہند کیلئے ایک الگ وطن کا مطالبہ پیش کیا تھا اسی دوران انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ معرض وجود میں آنے والی نئی مملکت اسلامیہ میں اگر کشمیر شامل نہ کیا گیا تو اس مملکت کو بنانے کا کوئی فائدہ نہ ہوگا۔

 کشمیر کے اسلامی تشخص کے تحفظ ،تحریک آزادی کشمیر کی کامیابی اورپاکستان کے ساتھ مذہبی اورسماجی رشتوں کو مستحکم کرنے کے لیے نوجوان نسل میں علامہ اقبالؒ کے نظریات اور فکر کو بیدا ر کیا جائے۔یہ کشمیریوں کی خوش قسمتی ہے کہ علامہ اقبالؒ کا تعلق اس سرزمین سے ہے۔کشمیری عوام آج بھی غلامی کی زنجیروں کو توڑنے کیلئے بے پناہ قربانیاں دے رہے ہیں۔حالات کے اس گرداب سے نکلنے کے لیے فکر اقبال ان کی رہنمائی کرسکتی ہے۔کشمیر میں جاری حریت آزادی کی تحریک کے قائدین اوربرسرپیکار نوجوانوں کو اپنی تحریک کی کامیابی اوردرست سمت کی تعین کے لیے علامہ اقبالؒ کے افکار وخیالات کو اپنانا ہوگا۔اقبال کی تعلیمات کو بنیاد بنا کر ہم مسلمانوں

 کی بکھری قوت کو یکجا کرسکتے ہیں۔

حضرت علامہ اقبال ؒ کا تعلق محض اس لیے کشمیر سے نہیں تھا کہ خطہ کشمیر، ارض خداوندی پر ایک جنت نظیر وادی ہے، بلکہ علامہ کے اجداد بذات کشمیری تھے اور یوں اْن کی رگوں میں رواں رہنے والا خون خالص کشمیری ہی تھا۔ کشمیر سے اپنے تعلق پر اقبالؒ ہمیشہ فخر کرتے اور کشمیرسے جدائی کا احساس رکھتے تھے ۔

علامہ اقبال صرف فلسفی شاعر ہی نہیں بلکہ انسانوں کے استحصال کے بھی خلاف تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ انسان رنگ ، نسل اور مذہب کی تمیز کے بغیر ایک دوسرے سے اچھے رویے سے پیش آئیں اور باہمی احترام کی فضا قائم کریں کہ یہی رب کائنات کی منشا ہے۔ پاکستان کی نئی نسل بھی اقبال کی احترامِ آدمیت کی سوچ کو سراہتی ہے۔