حضرت بابا فریدالدین مسعود گنج شکرؒ کے 779ویں،سالانہ عرس مبارک کی پندرہ روزہ تقریبات،انکی درگاہِ مقدسہ پاکپتن شریف میں ان دنوں جاری ہیں،جہاں کی خانقاہی رسومات از حد متنوع اور منفرد ہیں،دربارشریف کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ان عرس تقریبات کا آغاز و افتتاح صوبائی وزیر اوقاف پیر سیّد سعید الحسن شاہ اور سیکرٹری اوقاف نبیل جاوید نے کیا،جبکہ راقم کو بھی اس میں شمولیت کی سعادت میسر رہی،اس موقع پر پِسی ہوئی چینی،کوزہ ہائے گل پختہ میں نیاز شریف۔۔۔یعنی دو طباقوں میں مٹی کی چھوٹی چھوٹی پیالیاں شربت سے بھری ہوئی،جن میں نصف شکر اور نصف چینی کے شربت کی ہوتی ہیں،جن پر امامین کریمین و شہدائے کربلا اور خواجگانِ چشت کے ایصال ثواب کے لیے ختم شریف پڑھا جاتا ہے۔اسکے ساتھ ہی ایک بڑے طباق میں جلے و مشتری جو کہ میدے کی چھوٹی چھوٹی روٹیاں جن میں حلوہ رکھا ہوتا ہے،تقسیم کیا جاتا ہے۔جل ہندی زبان میں پانی کو کہتے ہیں،پانی کی مخلوق کو’’جلہوڑہ‘‘بولا جاتا ہے،جو مختصر ہو کر جلہ مشہور ہوگیا۔روایت ہے کہ اس آبی مخلوق کی طرف سے حضرت بابا صاحب کی خدمت میں یہ ہدیہ پیش ہوا تھا،جو آپ نے منظور فرمایا اور ختم شریف کے بعد تقسیم ہوا،یہ سب اس کا تسلسل ہے،عرس کے ان ایام میں پاکپتن جاتا ہوں،تو راستے میں تاریخ کے نقوش سے روشنی سمیٹتے ہوئے،آگے بڑھتا ہوں۔اجودھن حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کی پاکیزہ نسبت سے پاکپتن بنا،لیکن اس کی اہمیت کی دوسری اہم وجہ،اسکی دفاعی پوزیشن تھی، اجودھن ملتان سے دہلی جانے والی مرکزی شاہراہ پر واقع ہونے کے سبب،دارالسلطنت سے براہِ راست منسلک تھا۔اس عہد میں منگولوں اور تاتاریوں نے باربار ہندوستان پر حملے کیے،ان حملوں کا راستہ یہی تھا،لہٰذا تختِ دہلی کو منگولوں کی دست بُرد سے محفوظ رکھنے کیلیے،سلاطین دہلی نے ہمیشہ پاکپتن اور دیپالپور کی دفاعی لائن کو اہمیت دی،جس کے لیے غیاث الدین بلبن کی’’ڈیفنس پالیسی‘‘انتہائی اہمیت کی حامل ہے،جو دراصل اس خطّے کو منگولوں کی دست بُرد سے محفوظ رکھنے کیلیے بنائی گئی تھی،بلبن کا حقیقی کارنامہ بھی یہی تھا،کہ اُس نے تختِ دہلی کو منگولوں کی وحشت و بربریت سے بچایا۔درحقیقت تیرھویں صدی میں منگولوں نے بطورِ خاص اسلامی دنیا کو نہایت بُرے طریقے سے تباہ و برباد اور تاخت و تاراج کیا۔غزنہ،ایران،خراسان کی پائمالی کے بعد یہ وحشی قبائل ہلاکو خان کی سرکردگی میں،برصغیر پر قبضے کا منصوبہ بنا رہے تھے،جس کے تدارک کے لیے بلبن نے ’’شمال مغربی سرحدی پالیسی‘‘اختیار کی ، جس کی بناء پر منگولوں کو مغربی پنجاب سے ہی پسپا ہونا پڑا۔ بلبن نے شمال مغربی سرحد کیساتھ قلعہ بندی کی،تاکہ منگولوں کو بھرپور مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے،جس کیلیے اُس نے تین دفاعی لائنیں بنائیں،پہلی دفاعی لائن اوچ اور ملتان جبکہ دوسری اجودھن یعنی پاکپتن اوردیپالپور اور تیسری سامانہ اور ہانسی تھی۔جسکا بنیادی مقصدمنگولوں کو پایۂ تخت دہلی سے دور رکھنا تھا،جس کیلیے ایک کے بعد دوسری مزاحمت اور دفاعی حصار کا مستعد رکھا گیا۔ منگول اگرچہ بار بار ملتان پر حملہ کرتے جبکہ دوسری طرف لاہور بھی انکی دست بُرد سے محفوظ نہ رہ پاتا،لیکن دیپالپور اور پاکپتن کی مضبوط ڈیفنس لائن سلطنتِ دہلی کی بقا اور سلامتی کے ضامن کے طور پر معتبر رہی۔ہندوستانی سلاطین کے اس عہد میں،پنجاب۔۔۔سیاسی اور فوجی لحاظ سے سلطنتِ دہلی کا سب سے بڑا صوبہ تھا،پنجاب کا گورنر جس کا صدر مقام دیپال پور ہوتا،سیاسی لحاظ سے سلطان کے بعد، دوسری مقتدر حیثیت کا حامل تھا،چنانچہ ابتلائ،بحران اور انتشار کے ہر مرحلے اور ہر دور میں،دیپالپور کے گورنر نے ہی سلطنت دہلی کے استحکام کیلیے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے ،ہندوستان میں مسلم اقتدار کو محفوظ اور مستحکم رکھا۔ خلجی خاندان کے زوال کے وقت دیپالپور کا گورنر غازی ملک آگے بڑھا اور اُس نے دہلی کی عنان حکومت سنبھالی، اسی طرح تغلق خاندان کے رُو بہ زوال ہونے پر دیپالپور کے گورنر خضر خاں نے تختِ دہلی پر قبضہ کیا۔بہلول لودھی نے جب لودھی خاندان کے اقتدار کی بنیاد رکھی تو وہ بھی اس وقت دیپالپور ہی کا گورنر تھا،اور پھر اسی خاندان کے آخری تاجدار ابراہیم لودھی کے دور میں دیپالپور کے گورنر دولت خان لودھی ہی نے کابل کے حکمران ظہیر الدین بابر کو ہندوستان پر حملہ آور ہونے کی دعوت دی،جسکا سبب دولت خاں لودھی اور سلطان ابراہیم لودھی کے تعلقات کی کشیدگی تھی۔اس صوبے اور خطّے کی مرکزیت کا دراصل اہم سبب حضرت بابا فرید الدین ؒ کی شخصیت اور روحانی حیثیت تھی،جہاں سے یہ حکمران فیض پاتے،جیسا کہ سلطان ناصر الدین محمود،جو 1246ء میں ہندوستان کے تخت پر متمکن ہوا،کو حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ سے از حد عقیدت تھی،1275ء میںمنگولوں نے ملتان کے حاکم کشلوخاں سے ساز باز کر کے ملتان پر قبضہ کر کے دریائے ستلج کی طرف بڑھنے لگا،تو سلطان ناصر الدین ان حملوں کو روکنے کے لیے از خود،ایک عظیم لشکر لے کر ملتان کی طرف بڑھا۔ ناصر الدین جب اجودھن کے قریب پہنچا تو اس نے اپنے نائب السلطنت الغ خان یعنی غیاث الدین بلبن سے کہا کہ وہ اجودھن میں حضرت بابا فرید الدین ؒ کی زیارت کیلیے جانا چاہتا ہے،اس پر الغ خان نے مشورہ دیا کہ راستے میں پانی کی سخت قلت ہے،اتنے بڑے لشکر کے ساتھ،وہاں جانا تکلیف کا باعث ہو گا،آپ ملتان کی طرف پیش قدمی جاری رکھیں ، میں آپکی طرف سے کثیر رقم اور چار دیہاتوں کا فرمان لے کر حضرت بابا فرید الدین ؒ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں،کہا جاتا ہے،کہ بلبن،ناصر الدین کا یہ پیغام لے کر جب حضرت بابا فرید الدینؒ کی خدمت میں حاضر ہو رہا تھا، تو اسکے من میں ملک گیری اور جہانداری کی آرزو تھی، اور وہ ناصر الدین کے بعد ہندوستان کا فرمانروا بننے کا خواہش مند تھا،یہ سوچ لیکر وہ حضرت بابا فریدؒ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلطان کی طرف سے نقدی اور فرمان پیش کیا،اس پر حضرت بابا فریدؒ نے پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ الغ خاں نے جواب دیا:’’ایں سیم است و ایں مثال چہار دیہہ خاص برائے شما‘‘یہ روپیہ اور چار دیہات کا فرمان خاص آپ کیلیے ہے۔ یہ سن کر بابا فریدؒ مسکرائے اور فرمایا،یہ فرمان واپس لے جایئے،اسکے چاہنے والے اور بہت موجود ہیں ان کو دے دو البتہ زر نقد درویشوں اور حاجت مندوں میں تقسیم کی ہدایت کی۔اسکے بعد حضرت بابا فریدؒ نے الغ خاں کو مخاطب کر کے یہ قطعہ پڑھا: ’’فریدوں فرح فرشتہ نہ بود ز عود ز عنبر سرشتہ نہ بود ز داد و دہش یافت آن نکوئی تو داد و دہش کن فریدوں توئی‘‘ یعنی فریدوں بادشاہ کوئی فرشتہ نہ تھا اور عود وعنبر سے بھی اسکا کوئی تعلق نہ تھا،جو اسکے عدل و انصاف کی خوشبو سارے جہاں میں پھیلی،اس نے شہرت،وفاداری،داد و دہش کے ذریعے حاصل کی تھی۔ تو بھی خیرات کو سخاوت کر اور فریدوں ہو جا۔ خوشخبری سن کر’’الغ‘‘بہت خوش ہوا۔ جھک کر حضرت بابا فریدؒ کے قدم چومے اور ہاتھ جوڑ کر عرض کی۔’’میں آپ کا خادم ہوں اور دعا کا محتاج ہوں‘‘۔ آپ نے فرمایا’’فریدوں توئی‘‘ابھی چند ہی روز گزرے تھے کہ سلطان ناصر الدین محمود کا انتقال ہو گیا۔ الغ خاں وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز تھا۔لہٰذا سلطان کی وفات کے بعد الغ خاں، غیاث الدین بلبن کے نام سے تخت دہلی پر متمکن ہوا۔