اپوزیشن جماعتیں۔ ۔ ۔ جو مرکز اورصوبوں میں ایک سے کئی بار حکومتیں کر چکی ہیں۔ ۔ ۔ اور جنہوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں ، اپنے اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے تحت 1973ء کے آئین میں ایسی ایسی ترامیم کیں کہ قیام ِ پاکستان کے 26سال بعد تمام سیاسی جماعتوں نے جس آئین پر متفقہ طور پردستخط کئے۔ ۔ ۔ بازاری زبان میں اُس کا جلو س ہی نکل گیا۔ ہئے ،ہئے۔۔ ۔ ایک عرصے بعد یہ اصطلاح یا محاورہ زبان پر آیا ہے کہ جسے شاعر ِ عوام حبیب جالبؔ نے جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں اپنی نظم ’’داستانِ دل دونیم‘‘ میں اپنے مخصوص عوامی لہجے میں استعمال کیا تھا کہ۔ ۔ ۔ ایک نظر اپنی زندگی پہ ڈال ایک نظر اپنے اردلی پہ ڈال فاصلہ خود ہی کرذرا محسوس یوں نہ اسلام کا نکال جلوس کراچی پریس کلب میں کوئی چھتیس (36)سال پہلے جالب ؔ صاحب نے جب یہ مصرعہ پڑھا تو نعروں اور تالیوں سے شامیانوں کے تنبو اڑتے اڑتے رہ گئے۔۔ ۔ بڑی سخت دہشت کا سماں تھا۔جسے پڑھنے کے بعد اُسی رات وہ پھر دھر لئے گئے تھے۔ یہ جو میں نے 1973ء کے آئین کا جلوس نکالنے کا ذکر کیا تو بدقسمتی دیکھیںکہ اس کا آغاز خود اس آئین کے خالق ،بانی ِ پاکستان پیپلز پارٹی ،وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے اقتدار کا سال پورے ہونے سے پہلے ہی کردیا تھا۔ ۔ ۔ ۔آگے بڑھنے سے پہلے اپنے صحافتی مینٹور ممتاز صحافی اور سفارتکار محترم و مکرم واجد شمس الحسن سے معذرت کرتا چلوںکہ لندن میں کبھی کبھار اڑتے اڑتے ان تک میری کوئی ایسی تحریر پہنچ جاتی ہے، جس میں بھٹو صاحب اور ان کی صاحبزادی محترمہ بے نظیر بھٹو کو کسی تاریخی حوالے سے ہدف بنایا جاتا ہے تو۔ ۔ ۔ایسا سخت ای میل آتا ہے کہ باقاعدہ WhatsAppپر دونوں ہاتھ جوڑ کر یقین دلاتا ہوںکہ آئندہ ایسی غلطی نہ ہو گی ۔ ۔ ۔ مگر اس کمبخت تاریخ اور پھر ان مورخین کا کیا ،کیا جائے کہ جب 1973ء کے آئین میں ہونے والی ترمیم کی تاریخ میں جاتے ہیں۔ ۔ ۔ تو پھر پاکستان کی عدالتی تاریخ کے نامور جج جسٹس دوراب پٹیل کی کتاب The Rise and Fall of Judiciary اور پھر حال ہی میں شائع ہونے والی سپریم کورٹ کے سابق صدر اورممتاز قانون دان حامد خان کی کتاب Constitutional and Political History of Pakistan میں دئیے گئے وہ مستند حوالے یاد آجاتے ہیں کہ اول تو آزادی کے 26سال تک ہم اپنا آئین کیوں نہ تشکیل دے سکے۔ ۔ ۔ جو کسی ریاست کے مستقبل اور اُس میں جمہوری اداروں کے استحکام کی ضمانت بنتا ہے۔اور پھر جب ایک طویل جد و جہد اور قربا نیوں کے بعد یہ آئین 26سال بعد ہی سہی،بن گیا تو پھر ایک کے بعد دوسری ترمیم کر کے اس کی اصل ’’روح‘‘ کو ہی دفن کردیا گیا۔ زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ فوجی ڈکٹیٹر تو یوں بھی ہمیشہ آئین کو ایک ’’چیتھڑا ‘‘ ہی سمجھتے ہیں۔ ۔ ۔ اور اس کے ساتھ ایسا سلوک کرتے رہے ہیںمگر منتخب جمہوریت کے دعویدار حکمرانوں نے جب جب اپنے اقتدار کو بچانے کی کو کشش کی تو اس غریب 1973ء کے آئین کی ہی شامت آئی ۔ ۔ ۔ اور جیسا کہ میں اوپر تحریر کرچکا ہوں کہ اس کا آغاز خود اس کے خالق ۔ ۔ ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ہی کیا۔۔ ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے پہلے دورِ حکومت میں چھ بنیادی ترامیم کی گئیں۔پہلی آئینی ترمیم بجا طور پر درست اور جائز تھی۔اس کا تعلق سقوط ِ ڈھاکہ کے بعد بننے والے ہمارے اپنے مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش بننے والی ریاست کو تسلیم کرنے سے تھا۔بنگلہ دیش کے حکمراں، مورخ اور حامی مبالغہ آمیز اعداد و شمار دیتے ہوئے پاکستانی افواج پر الزام لگاتے ہیں کہ اُس نے 30لاکھ بنگالیوں کا خون کیا ۔ ۔ ۔ جبکہ بھارتی اور مکتی باہنی کے ہاتھوں جو غیر بنگالیوں ،معروف اصطلاح میں بہاریوں کو جو لاکھوں کی تعداد میں زندہ جلایا اور گاڑا گیا۔ ۔ ۔ اُس پر ان کی زبانیں اور تحریریں مجرمانہ خاموشی اختیار کر لیتی ہیں۔ بنگلہ دیش کو تسلیم کرنے کے خلاف ساری دائیں بازو کی مذہبی جماعتیں شامل تھیں۔ یہ’’ نامنظور بنگلہ دیش ‘‘ کی تحریک ہی تھی جس نے میرے قابل ِ احترام اُس وقت کی پنجاب یونیورسٹی کے صدر جاوید ہاشمی کوپاکستانی سیاست میں ہیرو بنا دیا تھا۔ ۔ ۔ مگر بھٹو صاحب کا یہ جرأت مندانہ فیصلہ تھا کہ ۔ ۔ پنجاب کے گڑھ لاہور کے لاکھوں کے جلسے میں بھٹوصاحب نے اس ’’ترمیم‘‘ کو پہلے عوامی پارلیمنٹ اور پھر منتخب پارلیمنٹ سے نامنظور کروایا۔ ۔ ۔ بنگلہ بندھو شیخ مجیب الرحمان کی موت کی کال کوٹھڑی سے رہائی ۔ ۔ ۔ اور پھر بنگلہ دیش کے صدر کی حیثیت سے اسلامی سربراہی کانفرنس میں شیخ مجیب الرحمان کو سلامی دینے جیسا فیصلہ صرف ’’بھٹو صاحب ‘‘ جیسا سحر انگیز ،جرأت مند سیاستداں ہی کرسکتاتھا۔ آئین میں دوسری ترمیم کا تعلق قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا تھا۔یہ ترمیم منظور کرانا بھی کوئی آسان نہ تھا کہ مغربی ممالک کی جانب سے اس کی بڑی مخالفت ہوئی۔ مگر عوامی اکثریت نے اس کی بھر پور حمایت اُس وقت کی تھی ۔یہ بھی ایک افسوس ناک امر ہے کہ جہاں بعد کے برسوں میں سینکڑوں کی تعداد میں قادیانی عقیدے کی بنیاد پر مغربی ممالک میں شہریت لی گئی تو آج تک ،کسی سے بحیثیت قادیانی کوئی ناروا اور امتیازی سلوک نہیں بھی ہورہا۔ ۔ ۔ جہاں تک بھٹو صاحب کی تیسری اور چوتھی ترمیم کا تعلق ہے تو حیرت ہوتی ہے کہ بھٹو صاحب جیسا سیاستداں جوخود ایک طویل جد و جہد ،گرفتاریوں اورجھوٹے مقدمات میں ملوث کئے جانے اور قاتلانہ حملوں کے بعد اقتدار میں آیاتھا،بعد میں تیسری اور چوتھی ترمیم کے ذریعے اپنے مخالف سیاستدانوں ،صحافیوں اور خاص طور پر عدلیہ پر ان دو ترامیم کے ذریعے قد غن لگائی کہ 73کے جمہوری آئین کے بنیادی انسانی حقوق کا جنازہ ہی اٹھ گیا۔ ۔ ۔ (جاری ہے)