گلگت بلتستان اسمبلی کے انتخابات کے نتائج 2009ء اور 2015ء کے انتخابات سے صرف اس قدر مختلف ہیں کہ ماضی میںجس جماعت کی مرکز میں حکومت تھی وہ پندرہ سولہ نشستیں جیتی یعنی دوتہائی اکثریت حاصل کی جبکہ اس بار تحریک انصاف کو تن تنہا سادہ اکثریت نہیں ملی وہ حکومت سازی کے لئے اپنی اتحادی مجلس وحدت المسلمین اور آزاد امیدواروں کی محتاج ہے دھاندلی کہاں‘ کیسے اور کس نے کی‘ مریم نواز شریف کبھی بتا پائیں گی نہ بلاول بھٹو زرداری جو دو تین ہفتے تک پہاڑی علاقوں میں سرگرداں دن میں حکومت بنانے کے خواب دیکھتے رہے۔ پاکستان کے جس ذی شعور اور دیانتدار اخبار نویس اور تجزیہ کار کی گلگت بلتستان تک رسائی ‘ سیاسی رجحانات سے آگاہی اور عوامی مزاج سے شناسائی تھی وہ ایسے ہی نتائج کی توقع کر رہا تھا‘ گیلپ اور پلس کی سروے رپورٹوں میں بھی تحریک انصاف کی کامیابی کا مژدہ سنایا گیا تھا اور زمینی حقائق کا بہتر ادراک رکھنے والے مختلف اخبارات و جرائد اور ٹی وی چینلز کے نمائندے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ تحریک انصاف کو پہلی‘ پیپلز پارٹی کو دوسری اور مسلم لیگ ن کو تیسری اپوزیشن حاصل کرتے دیکھ رہے تھے‘ شیخ رشید احمد کا دعویٰ جزوی طور پر درست نکلا کہ آزاد امیدواروں کی تعداد مسلم لیگ ن سے زیادہ ہو گی‘ وہ ظالم مگر پیپلز پارٹی کو بھی پیچھے چھوڑ گئے‘ ہفتہ کی شام 92نیوز پر اینکر اسداللہ خان نے مجھ سے سوال کیا تو اپنی معلومات کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے میں نے یہی کہا کہ تحریک انصاف اپنی اتحادی جماعت مجلس وحدت المسلمین کے ساتھ مل کر دس سے بارہ نشستیں حاصل کرے گی‘ پیپلز پارٹی کو پانچ سے سات نشستیں ملنے کی امید ہے اور مسلم لیگ (ن) دو سے تین۔ آزاد امیدواروں نے مگر پیپلز پارٹی کے بارے میں میرا اندازہ غلط ثابت کر دیا۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی فرمائش پر اس بار گلگت بلتستان کے انتخابات کی نگرانی کے لئے فوج کو طلب کیا گیا نہ نگران حکومت اور الیکشن کمشن کی تشکیل میں عمران خان اور موجودہ وفاقی حکومت کا عمل دخل تھا‘ یہاں 2009ء سے 2015ء تک پیپلز پارٹی اور 2015ء سے 2020ء تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی اور دونوں جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ مہدی شاہ اور حافظ حفیظ الرحمان نے گلگت بلتستان کے عوام کی بے مثل خدمت کی‘ ریکارڈ ترقیاتی منصوبے مکمل کئے اور پسماندہ علاقے کے عوام ذوالفقار علی بھٹو اور میاں نواز شریف کے دیوانے ہیں مگر انتخابات میں دونوں سابق وزراء اعلیٰ شکست کھا گئے‘ تیر چلا نہ تکا۔ تحریک انصاف کی کامیابی کسی سائنسی تکنیک کا نتیجہ ہے نہ ووٹوں میں ردوبدل اور کسی غیر مرئی طاقت کی دھونس کا شاخسانہ۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ووٹر ایسی سیاسی جماعت کو ووٹ دینا پسند کرتے ہیں جو اسلام آباد میں برسر اقتدار ہو اور ریاست کی ترقی و خوشحالی کے لئے فراخدلی سے فنڈز فراہم کر سکے‘ تحریک انصاف سے منحرف امیدواروں نے انتخابی مہم کے دوران مسلسل عوام کو یہ یقین دہانی کرائی کہ وہ جیت کر یہ نشستیں عمران خان کے قدموں میں ڈھیر کر دیں گے‘ کامیابی کا گُر جانتے تھے‘ مسلم لیگ (ن) سے تحریک انصاف کا رخ کرنے والے فصلی بٹیروں کو ہرانے میں کامیاب رہے‘ یہ بات مگر بلاول بھٹو کو کسی نے سمجھائی نہ مریم نواز کے پلّے پڑی۔ یہ دونوں وفاقی حکومت کی ناکامی اور فوج دشمنی کا چورن بیچتے رہے‘ تحریک انصاف کی برتری کی محض یہی ایک وجہ نہیں‘ گلگت بلتستان کے عوام بھارت دشمنی میں آزاد کشمیر اور پنجاب کے عوام سے چار قدم آگے ہیں۔ سکھا شاہی وہ بھگت چکے اور اپنی آزادی و خود مختاری کے حوالے سے غیر معمولی حساسیت کا شکار ہیں‘ سی پیک ان کے لئے نوید سحر ہے اور دیامیر بھاشا ڈیم کی تعمیر سے ترقی و خوشحالی کا خواب پورا ہونے کی امید۔ عمران خان نے عبوری صوبے کا وعدہ کر کے دیرینہ عوامی خواہش پوری کی اور تحریک انصاف کے مقامی و قومی رہنمائوں نے تعمیر و ترقی کے دعوے کئے‘ تاہم ٹکٹوں کی نامناسب تقسیم یا اپنے ہی دیرینہ کارکنوں کے ساتھ زیادتی اور فصلی بٹیروں کی بے جا پذیرائی سے اپنی نشستیں خود کم کر لیں ورنہ تحریک انصاف کی نشستیں بآسانی چودہ پندرہ ہو سکتی تھیں۔فصلی بٹیروں کو ٹکٹ دلانے ‘ دیرینہ کارکنوں کی حوصلہ شکنی کرنے والے ذہین ساتھیوں کی گوشمالی ضروری ہے ورنہ وہ آزاد کشمیر کے انتخاب میں بھی یہی گل کھلائیں گے۔ نئے لیڈروں کی تقریریں سننے والے جوانوں‘ بزرگوں اور خواتین کو مریم نواز اور بلاول بھٹو زرداری نے اپنا پرجوش ووٹر سمجھ لیا یا ذوالفقار علی بھٹو آصف علی زرداری کا جیالا اور میاں نواز شریف کا متوالا جانا قصور کسی اور کا نہیں عوام کی نبض شناسی کی دعویدار قیادت کا ہے۔ میاں نواز شریف اپنے بیانئے سے میاں شہباز شریف اور پارٹی کے کئی سرکردہ لیڈروں کو متاثر نہیں کر سکے‘ گلگت بلتستان کے عوام کو بھلا کیسے کر پاتے‘ جن کو اپنی آزادی اور عزت و وقار کے تحفظ کے لئے مسلسل اور متواتر پاک فوج کی کمک درکار ہے۔ سندھ کے سوا پاکستان کے دیگر علاقوں کی نوجوان نسل بھٹو‘ بھٹو کے نعروں سے متاثر ہوتی ہے نہ کراچی وسندھ کی تعمیر و ترقی سے ناواقف۔ کراچی میں محنت مزدوری کرنے والے گلگت بلتستان کے دیانتدار و فرض شناس شہری واپس آ کر اپنے اہل خانہ اور عزیز و اقارب کو ترقی یافتہ شہر کو کھنڈرات میںبدلنے والے حکمرانوں اور اندرون سندھ کے ظالم و سنگدل جاگیرداروں‘ وڈیروں کی اصلیت سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ شنیدہ کے بود مانند دیدہ۔ مسلم لیگ (ن) تو تمام نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑی نہ کر سکی اور کم و بیش ستر فیصد نشستوں پر چوتھی پوزیشن پر رہی‘ وہ بھی دھاندلی کا شور مچائے تو آدمی اس کے سوا کیا کہہ سکتا ہے ؎ سورج میں لگے دھبہ فطرت کے کرشمے ہیں بُت ہم کو کہیں کافر اللہ کی مرضی ہے بلاول بھٹو سب سے زیادہ دکھی ہیں‘ لیکن دونوں بلکہ تینوں جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ(ن) اور جمعیت علماء اسلام اور مریم نواز‘ بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن کے پاس دھاندلی کے فول پروف ثبوت ہیں تو عوام کے علاوہ گلگت بلتستان نگران حکومت ‘ الیکشن کمشن اور آزاد میڈیا کے حوالے کریں۔2018ء کے انتخابات کے بعد اسمبلیوں میں بیٹھنے کی جو غلطی اپوزیشن سے ہوئی اب نہ دھرائیں اور پاکستانی عوام کو قائل کریں کہ واقعی یہ الیکشن فراڈ تھے۔ مستند ثبوت لیکن اگر ہیںہی‘ نہیں‘ شکست فطری تھی اور شور شرابا محض کارکنوں کی اشک شوئی کے لئے ہے یا وفاقی حکومت کو دبائو میں لانے کی حکمت عملی تو لگے رہو منا بھائی۔ عوام کا اس سے کیا لینا دینا۔