اور پھر ایک اُستاد نے خود کشی کرلی۔ کیوں؟ جتنے منہ اتنی باتیں۔ لیکن اگر زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھیں تو اس میں قصور اس ماہر تعلیم کا ہے جسے یا جنہیں حکومت اس درویش نما کمیونٹی کے سر پر بطور منتظم نافذ کردیتی ہے۔ حضرت علیؓ کا فرمان بار بار یاد آتا ہے: ’’قوت اور دولت انسان کو بدلتے نہیں بے نقاب کردیتے ہیں‘‘۔ جو پرنسپل بنتے ہیں کالجوں کے یہ وہی پروفیسر ز ہوتے ہیں جو تمام زندگی ان تمام مراحل سے آہستہ آہستہ گزرتے ہیں جن سے تمام کالج اساتذہ گزرتے ہیں۔ مگر پرنسپل بنتے ہی … ان میں سے کچھ بے نقاب ہوجاتے ہیں۔ ایک کالج کے پروفیسر صاحب کی بطور ڈپٹی سیکرٹری محکمہ تعلیم پوسٹنگ ہوگئی۔ ایک دن چائے کے کپ پر گپ شپ لگی تو جو انہوں نے کہا وہ سارے ڈیپارٹمنٹ کا ہی نہیں پورے معاشرے کا بھی عکس تھا۔ کہنے لگے سول سیکرٹریٹ میں تین قسم کے افسران ہیں۔ برہن، ویش اور شودر۔ میں نے کہا آپ کھشتری کو بھول گئے۔ کہنے لگے آپ میری سنئے۔ برہمن وہ کلاس ہے جو سی ایس ایس کرکے ڈی ایم جی گروپ کی رو سے ہمارے افسران اعلیٰ ہوتے ہیں۔ اوکے! اور ویش؟ جی بتارہا ہوں۔ ویش وہ افسران ہوتے ہیں جو پی سی ایس کرکے آتے ہیں۔ یہ پراونشل کیڈر کے افسر ہوتے ہیں اور خود کو ہمیشہ برہمن افسروں کے دبائو میں محسوس کرتے ہیں۔ اور شودر؟ ایجوکیشنسٹ ڈپٹی سیکرٹری نے چائے کا کپ ہونٹوں سے الگ کرکے ٹیبل پر رکھا اور مسکراتے ہوئے خود کی طرف اشارہ کیا۔ جناب یہ ہم جو پروفیسر حضرات قوت اور اتھارٹی کے چند قطرے انجکشن کی تلاش میں یہ جو انتظامی عہدوں پر آجاتے ہیں۔ ہم اس انتظامی ڈھانچے کے شودر ہوتے ہیں۔ تو پھر آپ کیوں آتے ہیں؟ پروفیسر صاحب کی جھکی ہوئی گردن تن گئی۔ سینہ فخر سے پھیل گیا اور کندھے درست کرتے ہوئے کہنے لگے ہم ان کے تو شودر ہوتے ہیں مگر ہم پروفیسروں کے برہمن ہوتے ہیں۔ ان برہمنوں کا رویہ محکمہ تعلیم کے چند برہمنوں کا رویہ کبھی کبھی ناقابل برداشت ہوجاتا ہے اس کمیونٹی کے لیے جو پڑھاپڑھا کر پیسے اکٹھے کرتی ہے۔ جس کا نہ سٹیٹس بڑھتا ہے، نہ اس طرح تنخواہ جیسے قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی میں بڑھتی ہے۔ وفاقی اور صوبائی سیکرٹریٹ میں بڑھتی ہے یا اعلیٰ عدلیہ کی۔ ان درویشوں جیسے اساتذہ کو یہ پتا ہوتا ہے کہ مارکنگ کیسے ہوگی۔ کہاں ہوگی …نگران سپرنٹنڈنٹ کہاں لگنا ہے … ایکسٹرا ٹیچنگ کب، کیسے اور کہاں کرنی ہے۔ان کی اپنی ہی ایک دنیا ہوتی ہے۔ سوسائٹی کے برہمنوں کی دنیا سے ذرا الگ۔ اساتذہ کی دنیا میں نہ پی آر ہوتی ہے، نہ پاور پلے، نہ سیاسی جوڑ توڑ، نہ پرائز پوسٹنگ کی تلاش۔ کتابیں، لیکچرز اور طالب علم …یا پھر پرنسپل اور ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ۔ زیادہ سے زیادہ ڈائریکٹر کالجز …ڈی پی آئی۔ اس کے ٹاپ پر سیکرٹری ہائری ایجوکیشن اور منسٹر ہائر ایجوکیشن۔ اب ذرا سکرین اور کیمرے کو Micro سے Macro کرلیں ۔ سوسائٹی کا بہائو دیکھیں۔ اختیار اور دولت کی سمتوں کا تعین کریں۔ حکومت کی تعلیمی ترجیحات ملاحظہ کریں۔ تو استاد اس ساری چین آف کمانڈ کا آخری سرا یا پرزہ ہوتا ہے۔ پروفیسر محمد افضل بھی تمام کالج اساتذہ کی طرح اس سرکاری تعلیمی سسٹم کا حصہ تھا۔ اس پر ایک طالبہ نے ہراسمنٹ کا الزام عائد کردیا۔ یہ اپریل/ مئی کی بات ہے۔ کالج کی انتظامیہ نے یہ کیس ہراسمنٹ کمیٹی آف کالج کے سپرد کردیا۔ اس کمیٹی کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر عالیہ رحمن تھیں۔ اس کمیٹی نے اپنی انکوائری کے بعد مرحوم پروفیسر کو بری کردیا اور الزامات کو بے بنیاد قرار دے دیا۔ مگر پروفیسر افضل نے 9؍ اکتوبر کو خود کشی کرلی۔ اس آخری نوٹ کے ساتھ کہ ’’میں اپنا معاملہ اللہ کی عدالت پر چھوڑتا ہوں‘‘۔ بری ہونے کے باوجود قوم کے معمار نے خود کشی کیوں کی؟ تو اس کالج میں بھی ایک برہمن نافذ تھا۔نام تھا اس کا فرحان عبادت۔ اس کے رویے اور ذہنی حالت پر ایک پورا کالم الگ سے لکھا جاسکتا ہے۔ موصوف مسلسل انتظامی عہدوں پر فائز رہتے تھے۔ استاد کو انسان سمجھنا کسر شان سمجھتے تھے۔ ڈاکٹر عالیہ جب بھی اپنی رپورٹ لے کر جاتیں تو پرنسپل صاحب انہیں مزید انتظار کرنے کا کہتے۔ یہ جانتے بوجھتے کہ ایک ایک منٹ اس الزام شدہ پروفیسر پر صدیوں کی طرح گزر رہا ہے۔ اس کے کولیگ کیا باتیں کر رہے ہیں؟ اس کے طالب علم (نوجوان) اسے کس طرح دیکھ رہے ہیں۔ اس کے گھر میں اس سارے واقعے سے کیا زلزلہ اور طوفان آچکا ہے؟ اس کی اہلیہ اور بچوں نے کہیں اسے بالکل الگ تھلگ تو نہیں کردیا؟ کیا وہ بے چارہ اس دبائو کا مقابلہ کرپائے گا؟ پوری دنیا میں جہاں جہاں انسان انتظامی یا منفعت بخش عہدوں پر فائز ہوتے ہیں ان کی ایک خاص طرح کی گرومنگ ضروری ہوتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو پھر ہر ایک کی بساط اور اوقات کے مطابق اس کے ماتحت اسے برداشت کرتے ہیں۔ بعض کے ماتحت خوش ہوتے ہیں اور بعض کے پریشان بھی۔ کوئی انہیں کمفرٹیبل رکھتا ہے اور کوئی مشکل میں۔ اس کا تعلق باس/ افسر کے نفسیاتی پروفائل سے بھی ہے اورذہنی تربیت سے بھی۔ غور سے دیکھیں تو یہ معاملہ انتظامی سے زیادہ انفرادی ہے۔ کوئی ایک فرد اگر انتظامی طور پر کسی ذمہ دار عہدے پر ہو تو اس کا پروفائل، مزاج اور رویہ ٹاپ سے سفر کرتا ہوا باٹم تک اپنا رنگ اور اثر دکھاتا ہے۔ یہاں ایک اور پرنسپل صاحب یاد آرہے ہیں جو اپنے ماتحتوں کو آپ نہیں …تم نہیں … تو کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ موصوف سے کسی نے پوچھا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں تو کہنے لگے یہ عام پرنسپلز میری پی آر کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ وہ درست حلقوں میں درست اپروچ کے قائل ہیں اور پروفیسرز کو پی آر کا ٹول سمجھتے ہیں۔ بہرحال پروفیسر افضل کی خود کشی ان کمزوریوں اور خلائوں کی نشاندہی ہے جن کو استعمال کرتے ہوئے بعض افراد اتنی دور تک ایسے عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں جہاں سینکڑوں استاد ان کی جنبش ابرو کے منتظر رہتے ہیں۔ ضرورت ہے انتظامی عہدوں پر نافذ کرنے سے پہلے ڈیپارٹمنٹل گرومنگ کی کہ ٹیچنگ اور ایڈمنسٹریشن میں جو فرق ہے وہ ہر فرد کے نظام ہضم کے لیے یکساں نہیں ہوتا۔