اگلے دن محمد حسین آزادؔ کی شہرہ آفاق کتاب ’’ آبِ حیات ‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا ۔ سچ پوچھیں تو انتہائی شاندار اور اذیّت ناک تجربہ رہا ۔ ہمارا خیال ہے کہ ’’ آب ِ حیات ‘‘ لکھنے کے بعد جناب آزاد ؔ بھی اسے دوبارہ پڑھتے تو وہ شایداُردو لُغت کی مدد کے بغیر خود بھی نہ پڑھ سکتے ۔ ایسے میں دورانِ مطالعہ ہمارا حال کیا ہوا ہوگا مت پوچھیئے ۔ تقریباٍ ہر سطر میں دو تین بار لُغت کی مدد لینی پڑی۔ ہمیں دو مسئلے درپیش تھے ایک تو آدھے سے زیادہ الفاظ کے معانی ہمیں کسی بھی لُغت سے نہیں مل رہے تھے ۔لگ رہا تھا کہ شاید یہ الفاظ اردو لُغات کی ’’ ایجاد ‘‘ وغیرہ سے پہلے ہی پیدا ہوئے اور متروک بھی ہوگئے ۔ دوسرے اگر معنی کبھی ملے بھی تو بھی جُملے کا مفہوم بہرطور عنقا ہی رہا ۔ چنانچہ چند صفحات کے بعد ہم نے لُغت کا استعمال بوجوہ ترک کر دیا اور راست اقدام کرتے ہوئے بلاواسطہ ( یعنی انّھے واہ) مطالعہ شروع کر دیا ۔ اب ہمارا مقصد کسی تفہیم کے بغیر بس مطالعہ مکمل کرنا تھا ۔ہمارے اس اضطراری اقدام کی وجہ غالباًٍ مرشدی یوسفی ؔ صاحب کا وہ قول ہے جس میں وہ غالبؔ کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ،’’ غالب کے وہ اشعار زیادہ مزہ دیتے ہیں جو سمجھ نہیں آتے ۔ ‘‘ اور دوسری طرف مطالعہ ادب کے حوالے سے ایک ’’ سٹڈی ‘‘ بھی ہماری نظر سے گزری ہے جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ کسی بھی ادبی فن پارے سے حظ اُٹھانے کے لیے اُس کی تفہیم ہونا ضروری نہیں ہے ۔ مطلب یہ کہ کسی نظم یا نثر کے ٹکڑے سے اُسے سمجھے بغیر بھی آپ لُطف اندوز ہوسکتے ہیں ۔چنانچہ جب ہم نے یوسفی ؔ صاحب کے متذکرہ بالا قول اور اوپر بیان کی گئی ’’ سٹڈی ‘‘ کو ’’ آبِ حیات ‘‘ پر منطبق کر کے اس کا مطالعہ شروع کیا تو یقین جانیئے ہمیں ناصرف لُطف آنا شروع ہو گیا بلکہ جناب محمد حسین آزاد ؔ پر ہمارا غصّہ بھی کافی حد تک کم ہو گیا ۔اب چونکہ کتاب کی زبان سمجھ نہیں آرہی تھی چنانچہ اس کے بعد ہم نے پوری تسلّی سے اسے بالکل ایسے ہی پڑھا جیسے کوئی خاموش فلم دیکھی جاتی ہے اور اس نے بھی ہمیں اسی طرح محظوظ کیا جس طرح کوئی خاموش فلم کر سکتی ہے ۔ ’’ آب ِ حیات ‘‘ ہمیں ایک دوست نُما دشمن نے تجویز کی تھی ۔اور جب سے ہم نے اسے پڑھا ہے سوچ رہے ہیں کہ ہم اس دوست کے لیے کونسی کتاب تجویز کریں کہ ’’ حقِ دوستی ‘‘ ذرا اور بھی بہتر انداز میں ادا ہو سکے ۔ اُن صاحب کا یہ بھی کہنا تھا کہ اردو نثر میں ’’ آبِ حیات ‘‘ انیسویں صدی کی بہترین کتاب ہے ۔ہو سکتا ہے کہ یہ بات درست ہو لیکن جہاں تک ہمارے اس دوست کے اس تبصرے کا تعلق ہے تو اس سے ہم اس لیے اتفاق نہیں کرتے کہ اردو زبان میں وہ صاحب تو ہم سے بھی زیادہ ’’ پیدل ‘‘ ہیں ۔ سو جب یہ کتاب ہمارے سر کے اوپر سے گزر گئی ہے تو اُن صاحب کے تو گھر کے اوپر سے گزر گئی ہوگی ۔ البتہ بعض دیگر ذرائع سے بھی اس کتاب کی عظمت کی بابت ہم نے سُن رکھا تھا ۔چنانچہ مطالعے کے دوران اس کتاب کی عظمت ہمارے ذہن میں چھائی رہی اوریہ خیال ہی واحد محرک تھا جس نے یہ کتاب ہم سے پڑھوا دی ۔ جناب آزاد ؔ نے اسی کتاب میںاردو زبان کے پہلے شاعر ولیؔ دکنی کے حوالے سے لکھا ہے کہ اُن کی قدیم اور ناقابلِ فہم زبان کو آجکل لوگ پڑھتے ہیں اور اُس پر ہنستے ہیں ۔انہوںنے مزید لکھا کہ کل کو ایک زمانہ آئے گا کہ لوگ ہماری زبان کو اسی طرح دیکھیں گے اور اس پر ہنسیں گے ۔جناب آزادؔ کی یہ پیش گوئی حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی ہے ۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب انہیں اس بات کا احساس اور ادراک تھا تو انہوں نے آئندہ نسلوں کا خیال کرتے ہوئے’’ آبِ حیات‘‘ کی زبان تھوڑی سلیس اور عام فہم لکھنے کی کوشش کیوں نہیں کی ۔یقین جانیئے کہ آزاد ؔ کی نسبت تو ہمیں ولی ؔ دکنی کی زبان قدرے کم مشکل لگی ۔ ہم یہاں ’’ آبِ حیات ‘‘ کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا درج کر رہے ہیں جسے پڑھنے کے بعد ایک تو آپ کو اس کالم کی ’’شانِ نزول ‘‘ معلوم ہو سکے گی اور دوسرا آپ کے دل میں ہمارے لیے یقیناً ہمدردی کے جذبات بھی اُبھریں گے ۔تو جناب ِ آزاد ؔ لکھتے ہیں : ’’ سودا ؔ اور میرؔ وغیرہ بزرگانِ سلف کہ ان کے کلاموں کو ان کے حالات اور وقتوں کے واردات نے خلعت اور لباس بن کر جس طرح ہمارے سامنے جلوہ دیا ہے اس سے آجکل کے اربابِ زمانہ کے دیدہ و دل بے خبر ہیں اور حق پوچھو تو انہی اصناف سے سودا ، سودا اور میر ؔ تقی ، میرؔ صاحب ہیں۔ ورنہ جس کا جی چاہے یہی تخلُص رکھ دیکھے۔ خالی سودا ہے تو نِرا جنون ہے اور نِرا میر ہے تو گنجفے کا ایک پتہ۔ ‘‘ لو جی ! آ گئے تارے وغیرہ نظر ۔۔یہ دیگ کا ایک دانہ ہے اور ہم نے یہ’’ دیگ‘‘ آج ہی ختم کی ہے ۔ ’’ آبِ حیات ‘‘ کی تفہیم کے علاوہ مولانا محمد حسین آزادؔ کی ایک اور بات جو ہماری ناقص فہم میں نہیں آسکی وہ یہ ہے کہ مولانا نے شاعری میں مقام و مرتبے کے حوالے سے استاد ابرہیم ذوقؔ کو استاد غالب ؔ پر اولیّت دی ہے ۔ اگرچہ اس کا اظہار انہوں نے بہت کھُل کر تو نہیں کیا لیکن اُن کی تحریر کا خاموش سا پیغام یہی ہے ۔مثلاً استاد ذوق ؔ کی تعریف کرتے ہوئے وہ ایک جگہ لکھتے ہیں ، ’’ اب ہر گز اُمید نہیں کہ ایسا قادرالکلام شاعر پھر ہندوستان میں پیدا ہو ‘‘ ۔ ہماری رائے میں ( جو ضروری نہیں کہ ناقص ہی ہو ) استاد غالبؔ شاید اس جُملے کے زیادہ حقدار تھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قریب دو صدیاں گزرنے کے بعد مُلکِ سخن میں تاریخ نے جو مقام اسداللہ خان غالبؔ کا طے کیا ہے جناب ِ ذوق ؔ اُس مقام پے تو کیا کہیں آس پاس بھی نظر نہیں آتے ۔ ہم سوچتے ہیں کہ آزاد ؔ اتنے بڑے سخن شناس اور نقاد ہونے کے باوجودآنے والی اس تاریخی حقیقت کا ادراک کیوں نہیں کرسکے ۔اور انہوں نے اس مسندِ سخن پر اپنے والد گرامی کے دوست اور اپنے اُستاد ابراہیم ذوقؔ کو کیوں بٹھایا جس پر غالبؔ کو بٹھایا جانا زیادہ قرینِ انصاف ہوتا۔