فکر نہ کیجئے میں سیاست پر ہی بات کروں گا۔ انداز یا آغاز مختلف ہو تو اس لیے گھبرائیے نہیں۔ آج اس کے سوا چارہ ہی نہیں کوئی اور ڈھنگ کی بات کرنا تو مشکل ہو گیا ہے۔ اصل میں مجھے ایک چینی ادیب کی ایک بات یاد آ گئی ہے جسے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اس نے کمیونسٹ چائنا میں اپنی زندگی گزار دی۔ ثقافتی انقلاب کے دوران ذہنی تطہیر کے لیے اسے ایک تربیتی کیمپ کی سختیوں سے بھی گزرنا پڑا۔ بعد میں وہ پیرس جا کر وہیں سیاسی پناہ لے کر بس گیا۔ اس کو جب نوبل انعام دیا گیا تو اس وقت اس نے جو خطبہ دیا‘ اس کے آغاز ہی میں اس نے ایک بہت اہم بات کہی تھی۔اس نے کہا خدا ہے کہ نہیں‘ اس بات کو الگ رکھتے ہیں۔ میں بے دین ہوں اور میں نے ہمیشہ ایک ایسے وجود کا احترام کیا ہے جو ناقابل تعارف ہے۔ پھر اس نے جو بات کہی‘ وہ بہت غور طلب ہے اس نے کہا‘ کوئی فرد خدا نہیں ہو سکتا۔ سبحان اللہ ‘ یعنی خدا ہے کہ نہیں اس بحث کو جانے دیجیے مگر کوئی انسان‘خدا نہیں بن سکتا۔ اگر کوئی شخص خدا کی جگہ لینا چاہے گا اور سپر مین بن کر دنیا پر حکومت کرنا چاہے گا تو وہ مزید افراتفری پھیلائے گا اور دنیا کو ایک بڑی گندگی میں تبدیل کردے گا۔ پھر اس نے قوم کے ان سربراہوں اور اپنے معاشروں کے سربراہوں کا حوالہ دیا کہ انہوں نے کس طرح سپرمین بننے کے شوق میں وہ رویہ اختیار کیا جس نے جرائم کو فروغ دیا۔ یہ بات میں نے اس لیے عرض کی کہ ایک ایسے شخص کا قول ہے جو مذہبی معنوں میں شاید خدا کا قائل نہیں ہے۔ وہ کہتا ہے کہ خدا جو کچھ بھی ہے‘ کم ازکم انسان خدا نہیں بن سکتا اور کسی قوم کے رہنما اورسردار کے لیے ایسا بننا تو دنیا میں خرابیاں پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ ہمارے شاعر نے اسے ایک اور انداز میں بیان کیا تھا: خدا بنے تھے یگانہ مگر بنانہ گیا انجام اس کا کیا ہوتا ہے‘ وہ بھی اسی شاعر نے بتا دیا ہے: دیوتا بننے کی حسرت میں معلق ہو گئے ہمارے ہاں ایک قول کئی زعما سے منسوب ہے۔معلوم نہیں سب سے پہلے کس نے کہا تھا۔ استاد نے اپنے شاگرد کو وقت رخصت نصیحت کی کہ دیکھو‘ دو باتیں نہ کرنا‘ ایک خدا نہ بننا‘‘ اور دوسرا یہ کہ رسول نہ بننا۔ سبحان اللہ‘ اس بات کی وضاحت میں ہمارے ہاں بہت تفصیل بیان کی گئی ہے۔ یہاں صرف یہ سمجھ لیجیے کہ خدا بنو گے تو یہ سمجھو گے کہ آپ کا کہا حرف آخر ہے اور اس کے سوا کوئی سچ نہیں ہے اور رسول بنو گے تو یہ سمجھو گے جو تمہیں نہیں مانتا وہ گمراہ ہے۔ سچا صرف وہ ہے جو تمہارا پیرو کار ہے۔ کیا اب مزید وضاحت کی ضرورت ہے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں۔ اس وقت ہمارا طرزسیاست یہ ہو گیا ہے کہ ہمارے سب بڑے لیڈر یہ سمجھتے ہیں کہ صرف وہ سچے ہیںاور صرف وہ سپر مین ہیں۔ ہمارے ہاں تو مرد کامل کا تصور ہوا کرتا تھا یہ سپرمین کا تصور تو مغرب سے آیا ہے۔ جرمنی کے فلسفی نطشے نے جہاں ’خدا کی موت‘ کا اعلان کیا وہاں سپر مین کا تصور بھی پیش کر دیا ۔اس تصور نے دنیا میں وہ تباہی مچائی کہ خدا کی پناہ۔ ہٹلر سے لے کر کتنے آمر گزرے ہیں جو خدا بن کر بولتے رہے اور سپر مین بن کر حکومت کرتے رہے۔ انجام سب کے سامنے ہے۔ ان کا بھی اور ان قوتوں کا بھی جنہیں ایسے لیڈر میسر آئے۔میں ایک بات عرض کیا کرتا ہوں کہ کِبر‘کفر ہے خاص کر علم کا کِبراور پارسائی کا کبر تو بڑی ابلیسیت ہے۔ ابلیس نے اور کیا کہا تھا کہ میں زیادہ بہتر جانتا ہوں کہ یہ انسان فتنہ فساد کرے گا اور یہ کہ میری زندگی تو بندگی میں گزری ہے۔ میں اسے سجدہ کیوں کروں۔یہ پارسائی کا کِبرجدید نفسیات میں ایک بیماری ہے۔ Psychosis of self rightousness اس عارضے میں مبتلا شخص کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ جھوٹ بھی بولتا ہے تو یہ سمجھنا ہے کہ وہ سچ بول رہا ہے۔ ایسا وہ دل سے سمجھتا ہے۔ مجھے ان لیڈروں سے بہت ڈر لگتا جو سمجھتے ہیں کہ وہ عقل کل ہیں‘ سب کچھ کرنے پر قادر ہیں اور اکیلے ہی دنیا بدل سکتے ہیں۔ نہیں ‘ حضور‘یہ قوم ایسی قیادت کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ میں نے اوپر عرض کیا کہ ہماری بڑی پارٹیوں کے قائدین خود کو اس مقام پر فائز سمجھتے ہیں جہاں اس بات کا احتمال ہو سکتا ہے کہ وہ کہیں خود کو عقل کل نہ سمجھ لیں ‘کسی کو یہ بھی نہ سمجھنا چاہیے کہ جو ان کی بات نہیں مانتا یا سمجھتا وہ گویا دائرہ ایمان سے خارج ہے۔ صرف ایک اصول جو میں نے عرض کیا کہ خود کو خدا نہ سمجھو‘ رسول نہ سمجھو‘ وہ تمام اصولوں کی کلید ہے۔ ہماری قیادت کو بہت انکسار سے کام لینا ہو گا اور بہت جھک کر آگے بڑھنا ہو گا۔یہ میں کسی اخلاقیات کا پرچار نہیں کر رہا‘ بلکہ یہ بتانا چاہتا ہوں کہ قیادت کی یہ بہت بڑی غلامی ہو گی اگر وہ حد سے بڑھے ہوئے اعتماد کے شکار ہو جائے۔ یہ حد سے بڑھا اعتماد بہت سے دریچے بند کر دیتا ہے۔ مجھے ڈر ہے یہ ہونے والا ہے اور مجھے گمان ہے یہ ہوا ہے ۔ہماری انتخابی مہم میں بھی یہ نفسیات کسی نہ کسی درجے پر کارفرما رہی ہے۔ ہر کوئی سمجھتا رہا کہ معاملات ان کے بغیر چل ہی نہیں سکتے۔ خاص کر حکمران جماعت پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ سب باتیں چھوڑیں ‘قیادت کو حد سے بڑھی خود اعتمادی کے حصار سے باہر نکلنا ہو گا۔ شاید روشنی کی کوئی کرن نظر آ جائے۔ نواز شریف اپنی حکمرانی کے زمانے میں یہ رویہ نہیں رکھتے تھے۔ اقتدار چھوڑنے کے بعد ان کے رویوں میں سختی پیدا ہوئی۔ زرداری مل کر چلنے کے قابل دکھائی دیتے ہیں۔ مگر الیکشن کے دنوںمیں ان کا رویہ بھی ایسا تھا کہ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں اور میں نے جو چاہا وہ کیا ہے۔ عمران خان کبھی اقتدار میں نہیں آئے اس لیے ان کے صرف جدوجہد کے رویے ہی کو دیکھا جا سکتا ہے۔ توقع کرنی چاہیے کہ اقتدار کا بوجھ جب کندھوں پر پڑے گا تو وہ سیدھے ہو جائیں گے۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ نے جب حضرت عمر فاروقؓ کو خلیفہ مقرر کیا تو لوگوں نے کہا کہ آپ ایک سخت گیر شخص کو ہم پر مسلط کر کے جا رہے ہیں‘ اللہ کو کیا جواب دیں گے۔ اس رفیق رسالت مآبؐ نے فرمایا کہ فکر نہ کرو‘ اقتدار کا بوجھ انہیں سیدھا کر دے گا۔ مگر یاد رہے کہ اقتدار کا بوجھ صرف اسے سیدھا کرتا ہے جس میں فاروق اعظمؓ جیسا خوف خدا ہو۔ وہ تو صرف سختی کی بات تھی‘ یہاں جو معاملہ ہے وہ مختلف ہے۔ اس کی مثال بھی یہاں نہیں آنی چاہیے تھی۔ یہ معاملہ خود کو سپر مین سمجھنے کا ہے۔ میں کبھی اسلامی اصطلاحوں کو آج کی دنیاوی فلسفیانہ اصلاحوں کے درمیان رکھ کر پرکھا کرتا ہوں۔ ایک بار ایک بحث کے دوران میں نے عرض کیا کہ میں انسانی حقوق کو تسلیم نہیں کرتا۔ سامنے بیٹھے ہوئے اس ملک کے ایک بہت بڑے فلسفی نے کہا‘ کیا کہہ رہے ہو ‘ یہ تو ایک آفاقی سچائی ہے‘ تم کس چیز کو مانتے ہو۔ میں نے عرض کیا کہ میں حقوق العباد کا قائل ہوں۔ یہ نزاع لفظی نہیں‘ وہ فلسفی فوراً سمجھ گئے۔ حقوق العباد کے تصور میں خدا کا تصور درمیان میں آتا ہے۔ انسانی حقوق کے تصور کی الگ تاریخ ہے ‘جو خدا کومائنس کرنے کے بعد بنی ہے۔ اس طرح جب انسان کامل کے تصور کو آج کے سپر مین کے تصور سے ملا کر سمجھنے کی کوشش کی گئی تو ہمارے بزرگوں نے فوراً پکڑ کی اور کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم دونوں تصورات کو نہیں سمجھتے ہو۔ اقبال جب مرد مومن کی بات کرتا ہے تو اس کا نطشے کے سپر مین سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ حکمرانوں سے گزارش ہے کہ وہ خود کو سپر مین سمجھنا چھوڑ دیں۔ یہ بھی بھول جائیں کہ خلق خدا ان کے حکم پر مرتی ہے۔ اس کو بھی نظر انداز کر دیں کہ جو ان کے ساتھ نہیں ہے آپ سے اختلاف کرتا ہے یا اس نے آپ کو ووٹ نہیں دیا تو وہ غلطی پر ہے۔ اس ملک کو چلانا ہے تو لیڈر شپ کو ان تمام تصورات سے چھٹکارا پانا ہو گا۔ یہ مرے بس میں نہیں کہ میں اپنے لیڈروں کو اس معاملے سے نکال سکوں۔ شاید کسی انسان کے بس میں نہیں۔ مگر انسانوں کے اس گروہ کے بس میں ہے جسے ملت کہتے ہیں ‘یا قوم کہتے ہیں کہ وہ اپنے قائدین پر نظر رکھے ان میں کوئی تگڑم خاں تو نہیں بن رہا۔ انا کی سولی پر لٹکنے والوں کو لٹکے رہنے دو۔ ان پر گرفت کرو جو اپنے سوا کسی کی نہ سنتے ہوں۔ آج کے جو مسائل ہیں وہ کسی انا پرست انسان کے بس میں نہیں۔ مجھے یہاں اس جہاندیدہ انگریز برناڈشا کا ایک قول یاد آتا ہے جو اس نے دنیا کے بگڑے ہوئے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا۔ اس بڈھے نے کیا عمدہ بات کی تھی۔ کہنے لگا کہ حالات سدھرنا مشکل ہے‘ صرف ایک طریقہ ہے کہ محمدؐ عربی تشریف لائیں اور انہیں معاملات سلجھانے کے لیے کلی اختیارات دے دیے جائیں۔ صرف وہ ایسی شخصیت ہیں جو چٹکی بجھاتے ہی آج کے مسائل حل کر سکتے ہیں یہ چٹکی بجانے کا ترجمہ میں نے فتح اللہ گولن سے لیا ہے۔ گولن نے تو اس طریق کار اور اسلوب کی وضاحت بھی کی ہے کہ اس بیانیہ سے برناڈ شا کیا کہنا چاہتا ہے۔ اب میں دوسری طرف نکل جائوں گا۔ خلاصہ اپنی گفتگو کا دوبارہ عرض کیے دیتا ہوں کہ ہمارے لیڈر صرف ایک بات پر عمل کریں کہ خود کوسپر مین سمجھنا چھوڑ دیں۔ اکڑفوںویسے بھی اچھی نہیں ہوتی۔ اللہ توفیق دے تو اسوۂ رسولؐ سے رہنمائی حاصل کریں‘ پاکستان کے سلگتے مسائل کا اس کے سوا اور کوئی حل نہیں ہے۔