ٹیکس دینا کسے اچھا لگتا ہے۔آپ کی آمدنی کا اچھا بھلا حصہ حکومت لے جاتی ہے۔ ایک ملازم پیشہ شخص کواس کی ٹیکس کے قابل تنخواہ عموما ٹیکس منہا ہوکر ہی ملتی ہے ۔ ایسا نہ بھی ہو تب بھی حکومت کو اس کا علم ہوتا ہے اور بادل نخواستہ ہی سہی اسے ٹیکس دینا پڑتا ہے۔لیکن رکیے۔ یوں بھی ممکن ہے کہ ادارہ آپ کے مشاہرے میں سے ٹیکس کی رقم منہا کرکے خود رکھ لے اور بقایا آپ کو کیش کی صورت میں ادا کردے ۔اس طرح آپ بھی خوش کہ آپ کو ٹیکس ادا کرنے کے بعد جو رقم ملتی تھی اتنی ہی مل رہی ہے اور ادارہ بھی کہ اسے آپ کو اتنی ہی رقم ادا کرنی ہے جتنی آپ کی تنخواہ ہے ،وہ بھی نقد۔نقصان میں حکومت رہے گی جسے علم ہی نہیں کہ آپ اپنی تنخواہ بغیر ٹیکس کے ڈکار گئے ہیں۔کمپنی آپ کی تنخواہ کو اپنے اخراجات میں ظاہر ہی نہیں کررہی۔ اس لئے اسے اپنی کل آمدنی پہ ٹیکس زیادہ دینا پڑے گا لیکن وہ آپ کی تنخواہ میں سے ا س ادا کردہ ٹیکس کی دگنی یا جتنی وہ چاہے بچت کرلے گی۔ ادا کردہ ٹیکس اور بچائی گئی رقم کا فرق کمپنی کا منافع ہے جسے آڈٹ کی زبان میں پوزیٹیو کیش فلو کہتے ہیں۔اب ہوتا یہ ہے کہ حکومت ٹیکس کی ادائیگی کے لئے ایمپلائیر کو پکڑتی ہے یعنی وہ اپنے ملازمین کا ٹیکس حکومت کو اکٹھا کرکے ادا کرے۔ اگر ایمپلائیر ایسا نہیں کرے گا تو حکومت امپلائی کو گردن سے دبوچنے کا قانونی حق رکھتی ہے کیونکہ ٹیکس ادا کرنا اس کی ذمہ داری ہے، امپلائر کی نہیں کیونکہ وہ تو اپنی کل آمدن پہ پہلے ہی ٹیکس ادا کررہا ہے ۔یہ اسی وقت ممکن ہے جب امپلائی ،کمپنی کے اخراجات کا ایک حصہ یعنی اس کے پے رول پہ ہو۔ اگر ایسا نہیں ہے اور ایمپلائی اپنی تنخواہ رشوت کی طرح وصول کرکے چپ چاپ گھر چلا جاتا ہے کیونکہ اسے غرض ہی نہیں کہ اس کا ٹیکس حکومت کی جیب میں جاتا ہے یا کمپنی کی اور اس لین دین کا کوئی کھاتہ ہی نہیں تو یقین کیجیے حکومت کا باپ بھی دونوں کو نہیں پکڑ سکتا۔یہ ٹیکس چوری کی ایک ادنی سی صورت ہے ۔اصل ٹیکس ، ٹیکس قوانین کے سقم سے فائدہ اٹھا کر بچایا جاتا ہے اور کمپنیاں اسی کے لئے بھار ی مشاہرہ ادا کرتی ہیں۔ یہ طے ہے کہ سب سے زیادہ ٹیکس تنخواہ دار طبقہ ادا کرتا ہے کیونکہ وہ ڈاکومینٹڈ اکانومی کا حصہ ہوتا ہے لیکن اس کا حجم بہت کم ہوتا ہے ۔ گرہ کا پورا تاجرجو ایمپلائر ہوتا ہے ٹیکس میں ڈنڈی مارتا ہے جبکہ اسکا ملازم کم کما کر بھی ٹیکس دینے پہ مجبور ہوتا ہے۔تاجر حضرات ہی ٹیکس چوری کرسکتے ہیں کیونکہ وہ اپنی آمدنی تنخواہ دار طبقے کے مقابلے میں آسانی کے ساتھ چھپا سکتے ہیں۔اس کے بے شمار طریقے ہیں۔ان میں ایک انڈر انوائسنگ بھی ہے۔یعنی خرید شدہ مال کی قیمت کاغذات پہ کم دکھانا چاہے وہ امپورٹ کی صورت میں کیوں نہ ہو تاکہ امپورٹ ڈیوٹی بچائی جاسکے۔یہ مشق بڑی سہولت کے ساتھ سالوں سے ملک میں جاری تھی۔پاکستانی صنعتوں میں خام مال کا بڑا حصہ چین سے درآمد ہوتا ہے۔اس کے علاوہ بھی چین سے سستی اشیا ساری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی درآمد کی جاتی اور منافع پہ مارکیٹوں میں فروخت کی جاتی ہیں۔چین کے ساتھ اس لین دین میں ہمارے درامد اور برآمد کنندگان نے انڈر انوایسنگ اور مس ٹریڈنگ کے ذریعے پاکستانی حکومت کو پانچ ارب ڈالر کا نقصان پہنچایا۔اس کا علم دونوں طرف کے کسٹم حکام کے ظاہر کردہ اعداد و شمار میں فرق سے ہوا۔مثلا 2014 میں پاکستان کسٹم کے مطابق چین سے نو ارب ڈالر کی مصنوعات درامد کی گئیں جبکہ چین کسٹم کے مطابق چین سے کی گئی برامدات کا حجم تیرہ ارب ڈالر تھا۔اس خسارے سے بچنے کے لئے 2018 میں دونوں حکومتوں نے قانون بنایا کہ دونوں طرف کے کسٹم حکام قیمتوں کی اصل لسٹ کا تبادلہ کریں گے۔اس کے باوجود یہ سلسلہ جاری رہا جس کی تصدیق شبر زیدی نے کی۔سوچنے والی بات یہ ہے کہ قانون کی موجودگی میں ایسا کیوں ہورہا تھا۔یہ بالکل ایسے ہی ہورہا تھا جیسے واجب الادا ٹیکس پچیس کروڑ ہو لیکن ایف بی آر کے تین ا ہلکاروں میں صرف پانچ کروڑ تقسیم کرکے بیس کروڑ بچا لئے جائیں۔اور یہی ہوتا رہا ہے۔ اگر بڑے صنعت کاروں نے پورا ٹیکس دیا ہوتا اور ایف بی آر نے اسی دیانت داری سے لیا ہوتا تو آج ملک کا یہ حال کیوں ہوتا ۔ یہ اعتراف تو کراچی کے ایک بڑے صنعتکار نے کیا کہ صنعتوں سے حاصل شدہ اسی فیصد ٹیکس صرف چار فیصد صنعت کارادا کرتے ہیں۔ان کا کیا قصور ہے کہ وہ سب کا بوجھ اٹھائیں اور انارکلی بازار میں بیس ہزار تاجروں میں سے صرف چھ سو فائلر ہوں؟ ابتدا میں مثال سے میں نے یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ آمدنی ہر اس صورت میں بچائی جاسکتی ہے جب وہ دستاویزی معیشت کا حصہ نہ ہو۔حکومت چاہتی ہے کہ تاجر چاہے وہ چھوٹا ہو یا بڑا دستاویزی معیشت کا حصہ بنے اور یہی سارے ہنگامے کی وجہ ہے۔تاجروں نے جن مطالبات پہ ہڑتال کر رکھی ہے وہ کسی مہذب ملک میں جرم سمجھے جاتے ہیں۔سیلز انوائس پہ شناختی کارڈ نمبر کی شرط ختم کی جائے کیونکہ شناختی کارڈ درج ہو گا تو حکومت اس کی بنیاد پہ اصل فروخت معلوم کر لے گی جس کی وجہ سے سیلز ٹیکس پورا جمع کروانا پڑے گا ۔ٹرن اوور ٹیکس اس لیے نہ لگایا جائے کیونکہ تاجر جب ریٹرن فائل کرتے تھے تونقصان دکھا دیتے تھے ۔ اب کیونکہ سیل چھپانا ممکن نہیںر ہے گا اور ٹیکس لازمی دینا پڑے گا۔اگراصل سیل ظاہر ہوجائے گی تو ٹرن اوور بھی اتنا ہی دینا ہوگا۔ اس کی شرح ڈیڑھ کی بجائے ایک فیصد کی جاسکتی ہے۔چھوٹے پرچون فروشوں کے لیے فکسڈ نظام کا مطالبہ مناسب ہے ۔ اسی طرح مینوفیکچرر بھی اپنی اصل سیل دکھائے ۔تین سال میں ایک دفعہ آڈٹ کی شرط دو سال میں ٹیکس چوری کو اگلے سال میں فکس کرنے کے لئے ہے۔۔ ٹیکس گوشوارے بھرنے میں غلطی ہو جائے تو ریوائزر ریٹرن کے ذریعے درست کرنے کا آپشن موجود ہے ۔اس لئے غلط گوشوارے بھرنے پہ مقدمہ بننا چاہئے۔12 لاکھ سالانہ آمدن پہ استثنی کا مطالبہ بالکل غلط ہے ۔ پھر ہر کوئی اپنی انکم 12 لاکھ کے لگ بھگ ہی دکھائے گا۔ تاجروں کو ملک کی خاطر سوچنا ہوگا ۔ آخر یہی تاجر کراچی میں تیس سال خاموشی سے بھتہ دیتے رہے ہیں۔بلدیہ فیکٹری بھتہ نہ دینے پہ ہی جلائی گئی تھی۔پنجاب میں نون لیگ اسی روایت پہ عمل پیرا رہی ہے۔خادم اعلی نے ایک ٹیم بنا رکھی تھی جو تاجروں سے ٹیکس وصول کرتی تھی۔نون لیگ کے ایم پی اے بھتہ خوری میںملوث رہے ہیں۔تاجر اپنی جان و مال کے تحفظ کی خاطر ہنسی خوشی بھتہ دیتے رہے۔حکومت ان کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ داری لے اور تاجر ٹیکس ادا کریں۔ آخر وہ کسی بھی تنخواہ دار شخص سے زیادہ کماتے ہیں جس کا ٹیکس اس کی تنخواہ جیب میں آنے سے پہلے کاٹ لیا جاتا ہے۔