بابر اعوان بری ہو گئے۔ غرورِ عشق کے جس بانکپن کے ساتھ منصب سے مستعفی ہو کر وہ کٹہرے میں آن کھڑے ہوئے تھے ، نکلے تو وہ بانکپن سلامت تھا۔ مقدمہ ایسا نہ تھا کہ دفاع نہ کیا جا سکتا، چاہتے تو منصب پر قائم رہتے ہوئے ایک مضمون سو سو رنگ سے باندھ دیتے،لیکن انہوں نے اپنے اخلاقی وجود کو مقدم جانا اور دامن جھاڑ کر کوچہ اقتدار سے الگ ہو گئے۔ورنہ یہاں تو لوگ پوری جرات سے دعوی کرتے ہیں بیرون ملک تو کیا میری اندرون ملک بھی کوئی جائیداد نہیں اور جب جائیدادوں کے دفتر برآمد ہو جاتے ہیں تو کوئی ازرہ مروت تھوڑا سا نادم بھی نہیں ہوتا۔ یہاں جلوہِ سخن اس کمال پر ہوتا ہے کہ بیانیہ اپنے سارے بھولپن کے ساتھ ارشاد فرماتا ہے میرے اثاثے میرے ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں تو کسی کو کیا تکلیف ہے۔ ہماری سیاست کبھی اپنے اخلاقی وجود کے بارے میں واقعی حساس ہو گئی تو بابر اعوان کے استعفے کا شمارتبدیلی کے اولین نقوش میں ہو گا۔ قبلہ آصف زرداری فرماتے ہیں:’’بابر اعوان بری نہیں ہوں گے تو اور کون ہو گا‘‘۔ یہ بابر اعوان کی بے گناہی پر کہا گیا مطلع ہو تو قابل فہم ہے لیکن یہ مطلع بادی النظر میں طنز کا ایک نشتر ہے کہ تحریک انصاف کا رہنما بری نہیں ہو گا تو کون ہو گا۔فریبِ سادہ دلی کے جلوہِ ناز کی خیر ، صاحب یہ بھول گئے کہ یہ آپ ہی کا مبارک عہد تھا جس میں واردات نے ظہور کیا۔بابر اعوان کے بری ہونے پر آپ کے اعتراض کا مطلب یہ ہے کہ آپ خود پر فردِ جرم عائد کر رہے ہیں۔ وزیر اعظم کوئی اور، پانی اور بجلی کی وزارت کا قلمدان کسی اور کے ہاتھ ، معاملات کسی اور کی جنبش ابرو کے محتاج ، تعزیر کا کوڑا بابر اعوان کی پشت پر کیسے برس جاتا؟ شاید یہی وجہ ہے کہ بابر اعوان شک کا فائدہ لے کر’’ باعزت‘‘ بری نہیں ہوئے ، بلکہ مقدمہ ابھی چل رہا ہے اور بابر اعوان کو مقدمے سے بری کر دیا گیا ہے۔مقدمے میں جب وزن ہی نہ ہو تو کیا برائے وزنِ بیت بابر اعوان کو سزا نا دی جاتی؟ بابر اعوان تو سر خرو ہو گئے ، پیمانہ مگر اب بہت سخت ہے۔ جس پر الزام ہو ، وہ منصب سے الگ ہو کر قانون کے کٹہرے میں کھڑا ہو جائے۔ قومی سیاست ہی میں نہیں،دیکھنا ہو گا خود تحریک انصاف میں کتنے ہیں جو اپنے اخلاقی وجود کے بارے میں ایسی ہی حساسیت کا مظاہرہ کر پاتے ہیں۔بابر اعوان کے خلاف تو سیاسی حریفوں نے آواز بلند کی تھی ، یہاں تو عالم یہ ہے کہ اپنی ہی جماعت کے اسد عمر چینی کی قیمتوں میں اضافے پر تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں اور ساتھ بیٹھی شیریں مزاری پرجوش انداز سے اس بات کی تائید کرتی ہیں۔تو کیا تحریک انصاف میں کوئی ہے جو اسد عمر کے سخن ہائے نا گفتہ کی معنویت سمجھ کر خود ہی سامنے آئے اور عمران خان سے کہے اسد عمر کا مطالبہ مان لیجیے ، میں خود کو تحقیقات کے لیے پیش کرتا ہوں؟ دھیرے دھیرے سے ہی مگر وقت کا موسم بدل رہا ہے ۔ نگاہ، شوق کبھی حسرت سے جنہیں تکتی تھی ، وہ روایات اب دہلیز پر کھڑی دستک دے رہی ہیں۔ دورازوں کو مقفل رکھنا اب ممکن نہیں۔عمران خان کے طرز حکومت میں بہت خرابیاں ہیں ایک خوبی مگر ایسی ہے کہ ابطال ممکن نہیں۔ ا س نے برفاب سماج میں شعور کی حدت بھر دی ہے۔ اس حدت سے اب بھلے اس کا اپنا دامن جھلس جائے لیکن اس انگار کو اب مصلحت کا برف زار نہیں بنایا جا سکتا۔ آج تک کب خلق خدا کو معلوم تھا کہ اسلام آباد میں ایک بستی ایسی بھی ہے جسے ایوان صدر کہتے ہیں ۔ یہ سوال تو اب اٹھے اور اہل اقتدار کے دامن سے لپٹ گئے کہ طوطوں کے لیے بیس لاکھ کے پنجرے کیوں؟ سوالات میں شعور کی تمازت اتنی زیادہ تھی کہ سارے ٹینڈر منسوخ کرنا پڑے۔ ورنہ کوئی زمانہ تو ہو گا جب یہ طوطے لائے گئے ہوں گے ، پنجرے بنے ہوں گے اور غلام گردشوں کو سجایا گیا ہو گا۔۔ تب کوئی آواز کیوں نہ اٹھی؟ جوشِ اضطراب میں بے خود ناقدین کی ترک تازیاں بجا لیکن جب عمران نہیں تھا تو یہ نومولود بطلان ِ حریت کیا گونگا شیطان بن کر جیے جانے کو ہی کمال آدمیت نہیں سمجھ بیٹھے تھے؟ ہمیں سمجھنا ہو گا ایک جمہوری سماج میں تبدیلی کس چیز کو کہتے ہیں؟ تبدیلی یہ نہیں ہوتی کہ راتوں رات دیوارِ چمن پر شگوفے گھل اٹھیں اور اہل اقتدار اللہ کے برگزیدہ بندے بن جائیں۔ تبدیلی یہ ہوتی ہے کہ سماج کے شعورِ اجتماعی کی قندیل بزم کو چراغاں کر دے۔یہ شعور اجتماعی اتنا طاقتور ہو جائے اور حکمرانوں کی ہر غلطی پر ایسی گرفت کرے کہ وہ چاہتے ہوئے بھی کسی غلط سمت میں سفر پر اصرار نہ کر سکیں۔اجتماعی شعور جتنا زیادہ ہو گا تبدیلی کے نقوش بھی اتنے ہی واضح ہوتے چلے جائیں گے۔ساری مایوسی کے باوجود یہ نقوش بہر حال واضح ہیں۔ روز یہ معاشرہ عمران خان کو کٹہرے میں کھڑا کر دیتا ہے تو یہ اسی شعور کا ایک نقش ہے ۔یہ شعور جوں جوں بڑھتا جائے گا تبدیلی کا سفر تیز ہوتا جائے گا۔اہل اقتدار میں اللہ کے ولی کم ہی ہوتے ہیں ، یہ اجتماعی شعور کا بانکپن ہوتا ہے جو انہیں سیدھے راستے پر رکھتا ہے۔ مسائل بہت سارے ہیں اور پریشان کر دینے والے۔ لیکن امید کی ایک کھڑکی بھی روشن ہے۔اس کھڑکی سے تازہ ہوا آرہی ہے۔روز جب آپ اور میں عمران خان پر تنقید کر کے اسے کٹہرے میں کھڑا کر کے پوچھتے ہیں تم نے وعدہ تو کچھ اور کیا تھا کر کچھ اور رہے ہو تو یہ رویہ اسی کھڑکی سے آتا ایک جھونکا محسوس ہوتا ہے۔جب بابر اعوان ایک الزام لگائے جانے پر ہاتھ سے استعفی لکھ کر عمران خان کو پکڑادیتے ہیں تو یہ اسی کھڑکی سے آتا ایک جھونکا ہوتا ہے۔ لیکن یاد رکھیے اس کھڑکی کے کھلا رہنے کی ضمانت صرف ہمارا شعور اجتماعی ہے۔حکمرانوں کو یہ کھڑکی کم ہی خوش آتی ہے۔ ٭٭٭٭٭