تاریخ برصغیر اور تاریخ عہد مغلیہ کابالخصوص مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطنتِ مغلیہ جہاں اندرونی شورشوں اور بغاوتوں کا شکار تھی، وہیں اسلامی اقدار سے ناواقف بادشاہوں کے ہاتھو ں زوال پذیر ہوتی رہی جس میں جلال الدین اکبرایک بڑی مثال ہے جس کے خود ساختہ نئے دین ’ دین اکبری‘ نے اسلامی شناخت کو مٹانے کی کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ اس کے برعکس نظامِ اسلامی کے نفاذ کے لئے جدوجہد کرنے والے مجد د، علما، صوفیاء اور امراء و سلاطین کی صف میں ایک نمایاں نام ابوالمظفر، محی الدین،غازی اورنگ زیب عالمگیر کا ہے جو عہد مغلیہ کے چھٹے بادشاہ تھے ۔ جن کو علامہ اقبال نے اس خطے میں دینِ حق کا مُحافظ اور اسلام کی ترکش کا آخری تیر قرار دیا۔جنہوں نے تقریبا 49 سال تک کم وبیش 15کروڑ افراد پر حکومت کی۔ ان کے دور میں سلطنت مغلیہ اتنی وسیع ہوئی کہ پہلی بار انھوں نے تقریبا پورے برصغیر کو اپنی سلطنت کا حصہ بنا لیا۔ ذیل میں ان کے مختصر احوا ل پیش کئے جاتے ہیں۔ بادشاہ شاہجہاں کے بیٹے ابو المظفر محی الدین محمد اورنگ زیب عالمگیراپنے دادا شہنشاہ جہانگیر کے عہد حکومت میں 3 نومبر 1618ء بمطابق 1027ھ گجرات کے ایک مقام مالوہ کی سرحد پر دوران سفر پیدا ہوئے ۔ان کے دادا نے ان کا نام اورنگ زیب رکھا۔ ان کی والدہ کا نام ارجمند بانو تھا جو ممتاز محل کے نام سے مشہور ہوئیں۔جن کے نام پر تاج محل بنایاگیا۔ دادا نے اپنے نومولود پوتے کی خوشی میں اپنے خدام ، امرا ور فوج میں انعامات تقسیم کئے ۔ اصل تعلیم و تربیت کا آغاز اس وقت ہواجب داداجہانگیر نے بھاِئیوں کے ہمراہ انہیں 8 سال کی عمر میں لاہو ر بلا لیا۔ اورنگ زیب کو پڑھانیوالے بزرگ علماء میں سعدا للہ خان، ملا صالح محمد، ہاشم گیلانی، مولوی عبدالطیف سلطان پوری، ملا محی الدین، سید محمد قنوجی اور مشہور ملا جیون زیادہ ممتاز ہیں اورنگ زیب کی زندگی پر سب سے زیادہ اثر ان کے استاد میر محمد ہاشم نے ڈالااورنگ زیب کے اندر مذہبیت اور نیکی کی رغبت اور میلان کا سرچشمہ یہی استاد تھے ,حدیث، تفسیر اور فقہ اسلامی سے محبت بھی انہیں کی بدولت ملی۔ بادشاہوں میں اورنگزیب عالمگیر پہلے بادشاہ ہیں جنہوں نے قرآن مجید حفظ کیا۔کتاب مآثر جہانگیری کی روایت کے مطابق اورنگ زیب کو تخت نشینی سے پہلے قرآن کا ایک حصہ حفظ تھا پورا قرآن بادشاہ بننے کے بعد حفظ کیا۔ فنون لطیفہ، فنون خطاطی کے ساتھ ساتھ گھڑ سواری، تیراندازی اور فنون سپاہ گری میں کمال حاصل کیا۔ انہو ں نے علوم دینیہ تفسیر،حدیث اور فقہ پر بہترین عبور حاصل کیا۔قرآن پاک بڑی خوبصورتی سے اپنے ہاتھ سے لکھ کر مزین کرکے حرمین شریفین بھی بھیجا۔ اورنگزیب کے لکھے ہوئے قرآن پاک کے نسخوں میں ایک بادشاہی مسجد لاہور میں موجود ہے ۔ بچپن سے جوانمردی وبہادری ان کی طبیعت کا خاصہ تھی ،صرف چودہ برس کی عمر میں مست ہاتھیوں کی لڑائی میں اورنگ زیب نے دلیری سے مقابلہ کرکے خود کو محفوظ رکھا تب شاہ جہاں نے کہا،ایسی جگہ ڈٹ نہیں جاتے بلکہ ہٹ جاتے ہیں تو اس وقت بیٹا اپنے باپ سے یوں عرض گزار ہوا کہ’’غلام کواللہ تعالیٰ نے پیچھے ہٹنے کے لیے پیدا نہیں فرمایا ‘‘۔ صرف 17برس کی عمر میں دکن کے صوبیدار مقرر ہوے اور اس دوران نہ صرف کئی بغاوتوں کچلا بلکہ چند نئے علاقے بھی فتح کیے ۔اورنگ زیب بڑے متقی، پرہیز گار،مدبر اور اعلیٰ درجے کے منتظم تھے ۔ خزانے سے ذاتی خرچ کے لیے ایک پائی بھی نہ لیتے ۔ قرآن مجید لکھ کراور ٹوپیاں سی کر گزارا کرتے ۔ خود ایک بہترین سلجھے ہوئے ادیب تھے ان کے مختلف امراء و عاملین کو بھیجے گئے حکمنامے اور خطوط ’’رقعات عالمگیر‘‘کے نام سے مرتب ہوئے ۔ انہوں نے اپنے عہد حکومت میں مدرسین کے وظائف مقرر کئے ۔ اسی طرح آج مدارس دینیہ میں رائج تعلیم کو "درسِ نظامی" کہا جاتا ہے یہ اورنگزیب کے دور کے جید عالمِ دین شیخ نظام الدین کا مرتب کردہ نصاب ہے جسے انہوں نے اورنگزیب کی تجویز پہ مرتب کیا تھا، اِسی نسبت سے اس کو ’’درس نظامی‘‘ کہتے ہیں۔ اورنگ زیب خوداسلامی فقہ کے ماہر تھے انہوں نے نظام سلطنت چلانے کے لئے فقہ کی تمام کتابوں سے انتخاب کر کے ممتاز علماء کے ذریعے ایک جامع مجموعہ فتاوی مرتب کروایا۔ جسے تاریخ میں ’’فتاوی عالمگیری‘‘کے نام سے یادکیا جاتا ہے ۔ فتاویٰ عالمگیری فقہ حنفی میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے اورنگزیب عالمگیر فقہ حنفی کے پیروکار باعمل مسلمان حکمران تھے ، صوم و صلوٰۃ پر سختی سے کاربند رہتے ۔ ہمیشہ باجماعت نماز ادا کرتے ، رمضان میں تراویح کا خاص اہتمام کرتے اور رمضان کے آخری عشرہ میں معتکف ہوتے ۔ اسی طرح ہفتہ میں تین دن پیر،جمعرات اور جمعہ کو روزہ رکھتے ۔ چونکہ اپنا پیشہ انہوں نے کتابت قرآن اختیار کیا ہوا تھا اس لئے ہمیشہ باوضو رہتے ۔ اس کے علاوہ مختلف ذکر و ماثورہ کو پڑھنا،خاص اور متبرک راتوں میں قیام، اللہ اور اہل اللہ سے صحبت اختیار کرنا اور خاص مواقع جیسے میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، عاشورہ، عیدین وغیرہ پر عبادات و صدقات وخیرات کرنا ان کے معمولات میں شامل تھا۔ اسلام سے رغبت کی بدولت اورنگ زیب کے عہد حکومت میں قمری سال اور عربی مہینے نافذ العمل تھے ۔ جوئے اور شراب خانوں کو بند کروادیا گیا تھا۔ انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کی فضول رسمیں ختم کیں اور فحاشی کا انسداد کیا۔ درباری قوال، نجومی اور شاعر معطل کردیئے ۔ بادشاہ کو سلام کرنے کا اسلامی طریقہ رائج کیا۔موسیقی ناچ گانوں پر پابندی عائد کی گئی۔ موسیقی پر پابندی کے بعد متعلقہ اہل فن نے موسیقی کا ایک علامتی جنازہ نکالا، اورنگ زیب کو معلوم ہوا تو انہوں نے کہا کہ آلات کو اس طرح زمین میں گہرا دفن کیا کہ ان کی آواز دوبارہ نکلنے نہ پائے ۔ انصاف کی تیز اور بروقت ترسیل کے لئے قاضیوں کو مکمل اختیار دیئے گئے حتیٰ کہ کوئی بھی شہری بادشاہ کے خلاف بھی مفت سرکاری وکیل کے ذریعہ مقدمہ دائر کرسکتا تھااورنگ زیب اولیاء اللہ سے محبت و عقیدت رکھتے تھے اسی وجہ سے انہوں نے خواجہ معین الدین، سید محمد گیسو دراز اور شیخ محمد وارث کے ہاں شرف زیارت و ملاقات بھی حاصل کیا اورنگ زیب عالمگیر کے شریعت اسلامیہ سے محبت کی بدولت ان کے ہمعصر سلطان العارفین سخی سلطان باھُو علیہ الرحمۃ نے انہیں اپنی تصنیف ’’امیر الکونین‘‘ میں سیدنا رسول عربی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا با اخلاص و صاحب یقین غلام لکھا۔ اسی طرح اپنی تحریروں میں متعدد مقامات پر اورنگ زیب کا تذکرہ خوبصورت الفاظ میں کیا۔ اپنی ایک کتاب کو ان سے منسوب کرکے نام بھی ’’اورنگ شاہی‘‘ رکھا۔اسی طرح علامہ محمد اقبال نے بھی اورنگ زیب کو اس خطہ میں دین اسلام کو محافظ و مجاہد قراردیا۔ علامہ اقبال کے بقول اس خطے میں اسلام کی وجہ اورنگ زیب ہیں اللہ تعالیٰ نے ہندوستان میں سے عالمگیر کو چن لیا وہ عالمگیر جو درویش بھی تھا اور بے پناہ قوت دار شمشیر کا مالک بھی اورنگ زیب عالمگیر پر متعصب ہندوؤں اور دور جدید کے کئی لکھاریوں نے اعتراض اٹھائے ۔انہیں مذہبی شدت پسند اور متعصب سخت گیر حکمران قراردیاجس نے ہندوؤں کے مندروں کو مسمار کیا ۔بھارت کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے اپنی کتاب ’ڈسکوری آف انڈیا‘ میں اورنگزیب کو ایک مذہبی اور قدامت پسند شخص کے طور پر پیش کیا ہے ۔ کئی مسلمان تاریخ دانوں نے ان الزامات سے بری قرار دیا۔جیسے مولانا شبلی نعمانی، رشید اختر ندوی اور حال ہی میں بی بی سی اردو نے مشہور امریکی تاریخ دان آڈرے ٹرسچکی کا تجزیہ پیش کیا جس میں ان تمام الزامات سے بری قرار دیا ہے ۔ امریکی تاریخ داں آڈرے ٹرسچکی نے اپنی کتاب ’اورنگزیب، دا مین اینڈ دا متھ‘۔ میں لکھتی ہیں کہ اورنگزیب کی اس شبیہ کے لیے انگریزوں کے زمانے کے مؤرخ ذمہ دار ہیں جو انگریزوں کی’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی کے تحت ہندو مسلم مخاصمت کو فروغ دیتے تھے ۔ اسی طرح یہ بھی غلط ہے کہ خیال غلط ہے کہ اورنگزیب نے مندروں کو اس لیے مسمار کروایا کیونکہ وہ ہندوؤں سے نفرت کرتا تھا۔جبکہ رشید اختر ندوی اپنی کتاب ’’اورنگ زیب‘‘ میں ان کا دفاع یوں کرتے ہیں کہ اس نے یقیناً بوڑھے اور بیکار باپ سے تاج چھینا،اس نے یقیناً باپ کو نظر بند کیا، اور بھائی سے جنگ مول لی لیکن کب؟ صرف اس وقت جب وہ اس کے نیک ارادوں کی تکمیل میں رکاوٹ بنے اورنگ زیب عالمگیر جیسے عظیم، نیک، انصاف پسند بادشاہ نے 90سال کی عمر میں کم وبیش49 سال حکومت کرنے کے بعد بروز جمعۃ المبارک 1707ء بمطابق 28 ذیقعد 1118ھ میں احمدآباد میں وفات پائی اور وصیت کے مطابق خلد آباد میں تدفین کی گئی۔ آپ کا دورحکومت 1658ء سے 1707 ء تک محیط ہے ۔ ان کے وصال کے بعد ان کے بیٹے محمد معظم سلطنت کے تخت مغلیہ کے وارث بنے ۔ آپ کے بیٹوں اور بیٹیوں میں سے حافظ، محدث اور مفسر بنے ،مشہور شاعرہ زیب النسا ء ان کی دختر تھی۔ اسلام سے محبت اور عملی نفاذ کی وجہ سے بعض علماء نے ان کواپنے دور کا مجدد قرار دیا۔اللہ تعالی کی ان پر رحمتیں ہوں۔ آمین (مصادرومآخذ:اورنگ زیب عالمگیر،اورنگ زیب،مسلمان حکمران، محمد بن قاسم سے اورنگ زیب تک)