مارچ کے وسط میں ہمارے ہاں وبا کا موسم اپنے پنجے گاڑ چکا تھا۔ دلوں سے لے کر شہر کی شاہراہوں تک، ایک خوف اور ہراس کا عالم تھا۔ انہی دنوں ہماری ایک عزیز فیملی کا طالب علم بیٹا لندن سے واپس گھر آیا تو حفظ ما تقدم کے طور پر اس کا ٹیسٹ کروا لیا گیا۔ اس میں بغیر علامتوں کے کورونا ٹیسٹ پازیٹو آیا۔ پڑھے لکھے اور با شعور لوگ ہیں، شہر کے پوش علاقے میں رہتے ہیں، سو اس وبا کے پھیلائو کی نوعیت کو مدنظر رکھتے ہوئے والدین نے اپنے لندن پلٹ صاحبزادے سے صرف دور سے ملاقات کی۔ ملاقات کیا تھی کہ دور سے دیکھا اور سماجی دوری کے تمام تقاضوں کو بروئے کار لاتے ہوئے، صاحبزادے کو گھر کے اوپری حصے کی رہائش گاہ میں بھیج دیا گیا وسیع اور کشادہ گھر میں سماجی دوری، فاصلہ برقرار رکھنے کا بھی مسئلہ نہ تھا۔ کورونا ٹیسٹ کروایا گیا تو وہ علامتوں کے بغیر پازیٹو آیا۔ جس پر ان کے بیٹے کو میو ہسپتال قرنطینہ میں بھیج دیا گیا حالانکہ انہوں نے سرکاری ٹیم سے منت سماجت بھی کی کہ وہ گھر کے ایک علیحدہ حصے میں ہیں اور بیٹے کی ڈائٹ کا وہ خود اچھی طرح خیال رکھ رہے ہیں۔ پانچ دن آئسولیشن میں ہو چکے ہیں۔ چند دن اور یہیں گزارنے دیں تو اس کا آئسولیشن پریڈ مکمل ہو جائے گا لیکن ان کی مانی نہیں گئی۔ یہاں تک تو خیر بات سمجھ میں آتی ہے کہ ٹیسٹ پازیٹو آیا تو قرنطینہ میں بھیج دیا گیا لیکن کہانی یہ نہیں ہے کہانی اس کے بعد شروع ہوتی ہے۔ غالباً ایک دو روز کے بعد ان کے گھر پر سرکار کی ایک ٹیم دھاوا بولتی ہے۔ انہیں کہا جاتا ہے کہ یہاں مشتبہ کورونا مریض ہیں۔ اس لیے آپ کو قرنطینہ بھیجنے کے لیے سرکار کی مستعد ٹیم آپ کے دروازے پر موجود ہے۔ دروازہ کھولیں۔ دروازہ نہ کھلا تو گیٹ پھلانگ کر دندناتے ہوئے اندر آئے، داخلی دروازہ کم و بیش توڑا گیا اور ’’گرفتاری‘‘ کے پروانے کے بغیر لندن پلٹ بیٹے کے والدین کو ایمبولینس میں ڈال دیا گیا۔ گھر کو سیل کر دیا گیا۔ گھر کے گیٹ پر کورونا ریڈزون سٹیکر چسپاں کر دیا گیا۔ یہ سب کچھ اتنی آسانی سے نہیں ہوا۔ ان کی طرف سے مزاحمت فطری تھی کیونکہ بغیر کسی ثبوت کے انہیں مریض بنایا جا رہا تھا۔ ان کا احتجاج کرنا بنتا تھا۔ اس بلائے ناگہانی سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے انہوں نے اپنا اثر رسوخ استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی مگر ہر بار جواب آتا کہ، جی یہ اوپر سے حکم ہے۔ پھر بتقضائے عمر، کئی قسم کی بیماریاں بھی انہیں لاحق تھیں، اس کا واسطہ الگ دیا، لیکن جناب اوپر کا حکم ایسا اٹل تھا کہ انہیں قرنطینہ کر دیا گیا۔ اپنی عمر گوناگوں بیماریوں اور کمزور قوت مدافعت کو مدنظر رکھتے ہوئے انہوں نے استدعا کی انہیں کسی سرکاری ہسپتال کے ’’عقوبت خانے‘‘ میں نہ ڈالیں کسی پرائیویٹ ہسپتال بھیج دیں۔ اوپر کا حکم یہاں پر یہ تھا کہ پھر آپ کو اپنے خرچے پر جانا ہو گا۔ خیر قصہ مختصر ناقابلِ بیان ذہنی اذیت سے گزرے اور ’’اوپر کے حکم‘‘ کا جبر سہتے ایک ہفتہ شہر کے ایک مہنگے ہسپتال میں انہوں نے گزارا۔ اس ایک ہفتے میں کوئی رپورٹ ان کو نہیں دکھائی گئی۔ حتیٰ کہ ڈیوٹی ڈاکٹرز بھی ان کا وزٹ نہیں کرتے تھے۔ وہاں کی ایک نیک دل ڈاکٹر کے منہ سے سچ یوں نکلا کہ آپ لوگوں کو ایسے ہی زبردستی اٹھا لائے ہیں آپ مریض ہیں ہی نہیں۔ چھ روز کے بعد ان کا ٹیسٹ کیا گیا جو کہ ظاہر ہے منفی تھا۔ ان کے ہاتھ میں سات لاکھ کا ہسپتال کا بل تھما دیا گیا۔ اوپر کے حکم کا خمیازہ، بدترین ذہنی اذیت، ہفتہ بھر کا قرنطینہ اور سات لاکھ کا بل! یہ ایک کہانی یا قصہ نہیں، ایک سانحہ ہے جس میں سرکاری مشینری کے ہاتھوں، بنیادی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزی کی گئی۔ مگر اب تو سارے شہر نے دستانوں کے ساتھ ساتھ ماسک بھی پہن رکھے ہیں سو حکومت سے عوام کے اعتماد کا جو لہو ہوا اس کے قاتل کیسے تلاش کریں؟ مذکورہ بالا واقعہ کے بنیادی کردار، صاحب اور بیگم صحت مند ہوتے ہوئے بھی اب سرکاری اعداد و شمار میں کورونا کے مریض ہیں، یہ فہرست میں نے اپنی گنہگار آنکھوںسے خود دیکھی۔ سرکار کا کورونا کے خلاف جہاد جاری ہے اور ایسے واقعات اب معمول کا حصہ ہیں۔ ایک صاحب کی پچاسی سالہ والدہ رات کے کسی پہر دل کے دورے کا شکار ہوئیں۔ انہیں بھاگم بھاگ سرکاری ہسپتال کی ایمرجنسی میں لایا گیا۔ شوگر اور بلڈ پریشر کی مریضہ تھیں دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا مگر ہسپتال انتظامیہ نے میت دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ آپ اسے ہاتھ بھی نہیں لگا سکتے یہ کورونا کی مریض تھیں۔ لواحقین اس کھلے جھوٹ اور جبر پر پٹ چکے لیکن میت ان کے حوالے نہ کی گئی۔ اس خاندان کے پانچ اور افراد کو سرکاری سرپرستی میں کورونا کا مریض بنا کر قرنطینہ کیا گیا۔ دائیں اور بائیں کے دو گھروں پر بھی یہی افتاد پڑی۔ گلی کو ریڈزون ڈکلیئر کر کے سیل کر دیا گیا۔ یوں کم و بیش اٹھارہ بیس صحت مند افراد کو کورونا کا مریض بنا کر سرکاری اعداد و شمار کا پیٹ بھرا گیا۔ ایک اور صاحب کے ساتھ یہ قصہ ہوا کہ ان کے والد صاحب اسی طرح ہارٹ اٹیک میں ہسپتال کی مین ایمرجنسی لائے گئے۔ عمر رسیدہ بزرگ تھے۔ دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوا اور انتقال ہو گیا۔ ہسپتال کی انتظامیہ نے میت دینے سے انکار کیا کہ یہ کورونا کے مریض ہیں۔ لواحقین پیسے والے تھے۔ اس سے پہلے کہ پورے خاندان کو کورونا کا مریض بنا کر قرنطینہ کرتے۔انہوں نے اچھی خاصی موٹی رقم دے کر اپنے والد کی میت وصول کی اور جان چھڑائی۔ صورت حال یہ ہے کہ کیا کورونا کے عہد میں، دوسری تمام بیماریوں سے مریضوں نے مرنا چھوڑ دیا ہے۔ مرنے کی وجوہات کچھ بھی ہوں خیر سگالی کے طور پر اس کا کریڈٹ کورونا کے نام لکھا جا رہا ہے۔ ٹیکنالوجی کا برا ہو کہ اب خبریں آپ کے انباکس تک خود پہنچ جاتی ہیں اور آپ اپنی گنہگاروں آنکھوں سے سرکاری قرنطینہ سنٹروں میں مریضوں کی دہائیاں سن لیتے ہیں۔ لوکل سیاست میں متحرک پی ٹی آئی کا ایک دیرینہ ورکر، رو رو کر دہائیاں ڈال رہا تھا کہ قرنطینہ میں ڈال کر میری شوگر کی دوائی زبردستی بند کر دی گئی ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا شہری روتے ہوئے دہائیاں دے رہا تھا کہ شوگر 500تک پہنچ گئی ہے مگر مجھے شوگر کی گولی نہیں دے رہے۔ میری جیب میں پیسے ہیں لیکن کوئی یہ پیسے لینے کو تیار نہیں ہوتا کیونکہ سب مجھے اچھوت سمجھتے ہیں۔ میں کورونا سے نہیں شوگر سے مر جائوں گا! یہ وہ حالات واقعات ہیں، جو سرکاری فلٹر کے دوسری طرف رہ جاتے ہیں اور مین سٹریم میڈیا میں خبروں کا حصہ نہیں بنتے۔ مجھے لارڈ نارتھ کلف، کا ایک فقرہ یاد آتا ہے۔ News is what some one wants to supress; all the rest is advertising.