جب ہارٹ ٹو ہارٹ باتیں ہوں تو دل کی بات زباں پر آ ہی جاتی ہے۔ دل سے لب تک آتے آتے بالعموم سونا پیتل میں بدل جاتا ہے۔ تبھی تو ڈاکٹر خورشید رضوی نے کہا ہے کہ لٹ گیا سو بار لب تک آتے آتے ہر سخن ورنہ جب دل سے چلا تھا اک عجب گنجینہ تھا میرا حسنِ ظن ہے کہ اس روز اسلام آباد میں شعروادب کا ذوق رکھنے والے اور شائستہ لب و لہجے اور شستہ اردو میں گفتگو کرنے والے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے صحافیوں کے ساتھ ایک بے تکلف تبادلۂ خیال کی نشست میں دل کی بات کو لٹنے سے بچا لیا اور کہا کہ تحریک انصاف کی حکومت ناکام ہوئی تو آگے کوئی راستہ نہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ملک چلانے کے لیے پیسہ ہے اور نہ کوئی قرض دینے کو تیار ہے۔ انہوں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ہم مے خانے میں پہلے مفت کی پیتے تھے، پھر سرکار کی پیتے رہے، پھر ادھار کی پیتے رہے اب بھیک میں بھی کوئی دینے کو تیار نہیں ہے۔ اس پس منظر کو ذہن میں رکھیے اور اب ضمنی انتخاب کے نتائج کا بغور جائزہ لیجیے۔ اگرچہ متن ایک ہے مگر ہر کسی نے اپنے اپنے زاویہ نگاہ کے مطابق سرخیاں جما ئی ہیں۔ ایک معاصر کی سرخی ہے ’’ضمنی نتائج پی ٹی آئی کے لیے بڑا اپ سیٹ‘‘ ایک اخبار کی سرخی ہے۔ ’’تحریک انصاف کو دھچکا‘‘ ایک انگریزی اخبار کی ہیڈ لائن ہے۔ مسلم لیگ(ن) نے اپنی کھوئی ہوئی سیٹیں دوبارہ واپس چھین لیں۔ جہاں تک قومی اسمبلی کا تعلق ہے تو اس میںتحریک انصاف کو 4،مسلم لیگ(ن) کو 4، مسلم لیگ(ق) کو 2اور ایم ایم اے کو ایک سیٹ ملی۔ ان نتائج سے تحریک انصاف کو عددی اعتبار سے تو کوئی بڑا اپ سیٹ نہیں ہوا۔ پہلے تحریک انصاف کے پاس قومی اسمبلی میں 151نشستیں تھیں جو اب 155ہو گئی ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کی پہلے 81سیٹیں تھیں اور اب ان کی سیٹیں 85ہو گئی ہیں۔ پی ٹی آئی خیبرپختونخوا میں صوبائی سیٹوں کی اکثریت پر کامیاب ٹھہری جبکہ پنجاب میں مسلم لیگ(ن) کو 6نشستیں اور پی ٹی آئی کو صرف 3سیٹیں ملیں۔ جب صورت حال ففٹی ففٹی کی ہے تو پھر اتنا بڑا اپ سیٹ کہاں سے ہو گیا؟البتہ لمحۂ فکریہ بہت بڑا ہے۔ لاہور کے حلقہ این اے 131سے عمران خان محض چند سو ووٹوں کی اکثریت سے جیتے تھے۔ ان کی اس جیت کے بارے میں ان کے مدمقابل خواجہ سعد رفیق اور ان کی پارٹی کو بہت تحفظات تھے۔ ضمنی الیکشن میں خواجہ صاحب کو اپنے مخالف امیدوار ہمایوں اختر پر دس ہزار ووٹوں کی واضح برتری حاصل ہوئی ہے۔ اسی طرح بنوں میں عمران خان کی چھوڑی ہوئی سیٹ پر زاہد اکرم درانی نے تحریک انصاف کے امیدوار کو شکست دی۔ اس طرح کل ملا کر قومی اسمبلی کی جیتی ہوئی تحریک انصاف کی تین سیٹیں واپس نہیں آ سکیں اور یہی وہ اپ سیٹ ہے جس کو میڈیا میں بہت نمایاں کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ ایسا کیوں ہوا ان کی تین اہم قومی اسمبلی کی سیٹیں ان سے کیوں چھن گئیں؟ اوپر جس ابتر معاشی صورتِ حال کی طرف شاہ محمود قریشی نے اشارہ کیا ہے اس سے کسی کو اختلاف نہیں۔ یہاں تک معیشت کو پہنچانے میں جانے والوں کا بہت بڑا ہاتھ بھی ہے اور حصہ بھی۔ مجھے کوئی ایک ایسی حکومت یاد نہیں کہ جس نے کبھی یہ کہا ہو کہ گزشتہ حکومت نے یہ یہ کام اچھے کیے اور یہ کام غلط کیے۔ ہم غلط کو درست کریں گے اور آگے چلیں گے۔ آنے والی ہر حکومت نے تمام محرومیوں کا الزام جانے والی حکومت کو دیا۔ ہر آنے والی حکومت نے ملکی خزانوں اور ان دفینوں کا ضرور ذکر کیا جو بیرونی بنکوں کے آہنی صندوقوں میں پڑے ہیں اور جنہیں واپس لائیں گے تو ہماری قسمت سنور جائے گی۔ شاہ محمود نے صحافیوں سے پوچھا کہ جب خزانہ ہی خالی ہے تو ہم معاملات ریاست کیسے چلائیں گے۔ ہمیں اندازہ ہے کہ ایسے فرنیک اعتراف پر شاہ محمود قریشی کی باز پرس پارٹی کے اندر اور خود چیئرمین عمران خان کریں گے مگر اب تحریک انصاف کو کیا کرنا چاہیے؟ تحریک انصاف کو یوں تو ہر شعبے میں وسیع تر ہوم ورک تیار رکھنا چاہیے تھا۔ بالخصوص اقتصادیات اور خارجہ تعلقات پر تو بہت ہی وسیع تر اور عمیق ہوم ورک ہونا چاہیے تھا۔ ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ ’’گنجل دار‘‘ خارجہ تعلقات کے معاملے میں بھی پاکستان نے ملنے والے کئی مثبت مواقع کو ہوشیاری اور دانش مندی سے استعمال نہیں کیا۔ ایک طرف تحریکِ انصاف کی حکومت نے سی پیک کو موضوع بحث بنا کر چین کو قدرے بدظن کر لیا۔ دوسری طرف سعودی عرب کے ساتھ بھی معاملات جس ڈائریکشن میں آگے بڑھنے چاہئیں تھے وہ بڑھ نہیں سکے۔ حکومت نے پہلے آئی ایم ایف کے پاس جانے کو نشانہ تنقید بنایا اور اب شیخ سر جھکا کے داخل مے خانہ ہو گیا۔ قوم کو اگر بروقت زمینی حقائق کی روشنی میں بتایا اور سمجھایا جاتا کہ ان کے پاس جانا ضروری ہے تو پھر وزیر خزانہ اسد عمر پر اتنی تنقید نہ ہوتی جتنی آج ہو رہی ہے۔ کسی زمانے میں پاکستان جیسی تیسری دنیا میں حکومتوں کو فوجی انقلابات سے خطرہ لاحق رہتا تھا، اب بالعموم ایسا نہیں۔ اب حکومتوں کو اصل خطرہ بیڈ گورننس سے ہے۔ بشمول میرے تحریک انصاف کے بہت سے حامی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ حکومت سنبھالنے اور عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد بھی خان صاحب اور تحریک انصاف نے ابھی تک ’’تصادم‘‘ کی پالیسی کیوں اپنا رکھی ہے۔ احتساب کا ادارہ یقینا ایک خود مختار ادارہ ہے۔ تبھی تو وہ آئے روز من مانی کرتا رہتا ہے۔ حکومت بھی یہی کہتی ہے تو پھر وزیر اعظم احتساب کو تیز تر کرنے اور زیادہ سے زیادہ لوگوں تک گرفت کا جال پھیلانے کے لیے دھواں دار تقاریر کیوں کرتے رہتے ہیں۔ حکومت کو ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ تاثر حقیقت سے زیادہ مضبوط ہوتا ہے۔ غریب آدمی توازنِ تجارت، بیرونی زرمبادلہ، آئی ایم ایف، ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر اور نازک خارجہ تعلقات کی نوعیت سمجھنے سے قاصر ہے۔ وہ تو یہ سمجھتا ہے کہ پہلے بیس پچیس ہزار حتیٰ کہ پندرہ بیس ہزار میں بھی کسی نہ کسی طرح گزارا ہو جاتا تھا مگر اب بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نبرد آزما ہونے کی اس میں سکت نہیں۔ اسے سود خوروں سے قرضہ لینا پڑ رہا ہے کیونکہ دکانداروں اور تاجروں نے ان اشیاء کی قیمتیں بھی بڑھا دی ہیں جن کا ڈالر کے اتار چڑھائو سے کوئی تعلق نہیں۔ میڈیا کی بعض خواتین و حضرات نے یہ کہہ کر کہ حکومت نے صارفین پر بجلی گرا دی ہے اور عمران خان کے دیئے ہوئے سارے خواب چکنا چور ہو گئے ہیں، مبالغے سے کام لیا ہے۔ ایسا بالکل نہیں نئی حکومت کو سنبھلنے، حالات کو اپنی گرفت میں لانے اور پیچیدہ قومی و بین الاقوامی معاملات سمجھنے میں وقت تو لگے گا۔ یہ وقت تو حکومت کو ملنا چاہیے کہ انصاف کا تقاضا یہی ہے، تا ہم حکومت کو شاہ محمود قریشی کی اسی بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ ہمارے سیاست دانوں نے کبھی خود کو سنبھالنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ یہی بات ایئرمارشل اصغر خان مرحوم نے بھی کہی تھی اور فکر مندی کا اظہار کرتے ہوئے نہایت دردمندی سے ایک کتاب بھی لکھی تھی کہ جس کا ٹائٹل تھا کہ ’’تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا‘‘۔ انہوں نے کتاب میں بڑی شرح و بسط کے ساتھ لکھا تھا کہ ہماری ہر حکومت وہی پرانی غلطیاں ہی دہراتی چلی جاتی ہے۔ حکومت ابتر اقتصادی صورت حال او رپیچیدہ خارجہ تعلقات کو قومی سطح کے چیلنج قرار دے کر ان پر پارلیمنٹ کے توسط سے ساری قوم کو یکجا کرے اور دنیا کو میسج دے کر یہ معاملات مشکل ضرور ہیں مگر نا ممکن نہیں۔ ساری قوم متحد اور متفق ہو کر ان چیلنجز سے نبرد آزما ہونے کے لیے مستعد ہو گی اور ہر کوئی اپنے حصے کی قربانی دے گا۔ ایک دوسرے پر الزامات عائد کرنے سے کچھ زیادہ فائدہ نہ ہو گا اور ہماری داخلی لڑائی دیکھ کر آتی ہوئی سرمایہ کاری بھی اپنا راستہ بدل لے گی۔ حکومت کسی کو این آر او دے اور نہ ہی کسی سے کوئی رو رعایت برتے۔ صرف اتنا کرے کہ نیب کو ہدایات جاری کرے کہ وہ لوگوں کی پگڑیاں اچھالنا بند کرے اور عدل و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق الزامات کا جائزہ لے۔ اگر ملک میں الزام در الزام کی سیاست جاری رہتی ہے تو اس کا نقصان نہ صرف معیشت اور خارجہ تعلقات کو ہو گا بلکہ عدم استحکام پی ٹی آئی کی حکومت کے لیے بہت بڑے نقصان کا باعث بھی ہو سکتا ہے۔ ضمنی انتخابات کے نتائج پی ٹی آئی کے لیے کوئی بڑا اپ سیٹ تو نہیں مگر بہت بڑا لمحۂ فکریہ ضرور ہے۔