اپریل فول کچھ اچھی رسم نہیں، جس نے ایجاد کی ستم ہی ڈھایا۔ مغربی ملکوں میں پھر بھی حدود کا خیال رکھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں تو ہر شے ہی حد سے نکل جاتی ہے۔ ایسے ایسے بے رحم مذاق کئے جاتے ہیں کہ بس اوپر والے ہی کی پناہ۔ گزشتہ روز کا ماجرا دیکھئے، اپریل فول کی سہ پہر وزیر خزانہ اسد عمر اخبار نویسوں کے سامنے نمودار ہوئے اور فرمایا مہنگائی 2008 ء اور 2013ء کے مقابلے میں کم ہے۔ بظاہر وہ سنجیدہ تھے لیکن نفس مضمون بتا رہا تھا کہ وزیر موصوف نے اپریل فول منانے کا شوق پورا کیا ہے۔ ان کے قائد محترم تو یہ شوق دو اڑھائی ہفتے پہلے ہی پورا کر چکے تھے جب انہوں نے فرمایا کہ تیل نکلنے کی بہت بڑی خوشخبری ملنے والی ہے۔ یہ خوشخبری 31 مارچ کی رات آخر مل گئی۔ عوام کا تیل نکلتا ہے تو کوئی نہ کوئی ایسا ہے جو خوش ہوتا ہے۔ چنانچہ پیشگی اپریل فول میں بتائی گئی اطلاع سچ نکلی۔ عوام کا تیل نکل آیا لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ ساتھ ہی بخارات کا بھی زور ہوا۔ اب دیکھئے، حکومت ان بخارات سے خود کو کیسے بچا پاتی ہے۔ اپریل فولز ڈے کا دوسرا اہم وقوعہ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی اچانک پریس کانفرنس تھی۔ آپ ڈی فیکٹو ڈپٹی پرائم منسٹر جہانگیر ترین پر برس پڑے۔ کہا کہ ایوان انصاف انہیں نااہل قرار دے چکا ہے، پھر وہ کیوں کابینہ اور پارٹی کے اجلاسوں میں بیٹھتے ہیں اور پارٹی کی جگ ہنسائی کا موجب بنتے ہیں۔ برسبیل تذکرہ، یہ جگ ہنسائی والی بات سامان تفتیش کے سوا کچھ نہیں۔ جگ ہنسائی تو جہانگیر ترین کے بغیر بھی ہورہی ہے اور بہت زیادہ ہورہی ہے۔ قائد محترم کے ایک سخت گیر شیدائی گزشتہ روز فرما رہے تھے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کا حال پیپلزپارٹی سے بھی برا ہونے والا ہے۔ پیپلزپارٹی سے بھی برے کا درجہ کیا مانا جائے۔ اسے پنجاب سے دو سیٹیں قومی اسمبلی کی ملی ہیں، کیا پی ٹی آئی کو اگلے الیکشن میں ایک سیٹ ملے گی؟ مزید برسبیل تذکرہ یہ کہ ایک اور صاحب اس خیال سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگلے الیکشن میں پی ٹی آئی ملکی سیاست کو پر نہ ہو سکنے والا خلا چھوڑ کر داغ مفارقت دے جائے گی، واللہ اعلم۔ ٭٭٭٭٭ شاہ محمود قریشی کی پریس کانفرنس میں بالواسطہ قائد پی ٹی آئی بھی آ گئے۔ اس طرح کہ جہانگیر بدر کو ہر اجلاس میں بٹھانے والے وہی تو ہیں۔ دوسرے یہ کہ قریشی صاحب نے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا نام بدلنے کو سیاسی حماقت قرار دیا۔ وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس کی جو ویڈیو سامنے آئی ہے، اس میں اس سیاسی جماعت کا مشورہ نما مطالبہ جی ڈی اے نے کیا تھا جس پر وزیراعظم نے فوراً ہی صاد کیا۔ بظاہر یہ سیاسی حماقت فوری طور پر منظور کرلی گئی۔عوام الناس کا ردعمل یہ تھا کہ ایک رات پہلے جو پٹرول بم پھینکا گیا ہے، اس پر سے توجہ ہٹانے کے لیے ڈرامہ کھیلا گیا۔ لیکن لگتا نہیں ہے کہ ایسے ہے۔ لگتا تو اور ہی کچھ ہے۔ قریشی صاحب کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ جو بھی بولتے ہیں، گھر سے اچھی طرح تول کر لائے ہیں۔ بحر کی تہہ میں کچھ ہے ضرور، ابھی اچھلے یا کچھ توقف کرلے، یہ پتہ نہیں۔ ٭٭٭٭٭ اتفاق دیکھئے، قریشی صاحب کی پریس کانفرنس سے کچھ گھنٹے قبل سندھ کے وزیر خوابیات (ڈریم منسٹر) نے اپنا تازہ خواب سنایا۔ انہوں نے خواب میں دیکھا کہ شاہ محمود قریشی وزیراعظم ہیں۔ ہو سکتا ہے ان کی یہ خواب خوانی بھی اپریل فول ڈے کا حصہ ہو۔ لیکن اتفاق ایسا بھی ہے کہ وزیر موصوف کے کئی خواب ماضی میں سچ ہوچکے ہیں۔ لگتا ہے ان کے گھر میں بھی کوئی ایسا ہے جس کا علم حضرت ابن عربی سے ’’کہیں زیادہ‘‘ اور مولانا روم سے کہیں سے بھی زیادہ ہے۔ وسان صاحب نے کبھی ایسا دعویٰ تو نہیں کیا نہ ہی اس کا کوئی اشارہ دیا لیکن خیال یہی گزرتا ہے کہ کوئی نہ کوئی مرشدانی ان کی بھی ہم سفر ہے۔ بہرحال، یہ اندازہ ہے، غلط بھی ہوسکتا ہے اور اصل میں شاید یہ ہو کہ ان کے مراسم ’’ہوائی چیزوں‘‘ سے براہ راست ہوں اور یہ کوئی ایسی انہونی بھی نہیں ہے۔ ہمارے ٹی وی چینلز کے دس بارہ بلکہ اس سے بھی زیادہ اینکر پرسن ایسے ہیں جن کے ڈائریکٹ رابطے ہوائی چیزوں سے ہیں۔ بعض کے تو پورے کے پورے پروگرام ہی یہ ہوائی چیزیں مرتب کرتی ہیں۔ ٭٭٭٭٭ ہو سکتا ہے، جلد ہی جنگ بندی اور صلح ہو جائے۔ بظاہر اس لڑائی میں جہانگیر ترین کا پلڑا بھاری لگتا ہے۔ نہ صرف ترین صاحب پیاجی کے من بھاوت ہیں بلکہ پارٹی کی اکثریت بھی ان کے ساتھ ہے۔ ترین صاحب بذات خود پاکستان کی معاشی تاریخ کا سنہرا باب ہیں۔ پرویز مشرف کے ابتدائی دور میں آپ ’’عام‘‘ آدمیوں میں شمار ہوتے تھے۔ پھر ان کی ’’نیکیاں‘‘ کام آئیں، مشرف کی نظر کرم پڑی۔ خدا کا فضل بے حساب برسا۔ کروڑ پتی ہوئے، پھر ارب پتی اور اب ایسے پتی کہ اپنی پتا ورتی کا خود آپ کو بھی نہیں پتہ۔ عام آدمی سے شوگر پرنس ہوئے، پھر شوگر کنگ۔ مشرف کے دور میں معیشت نے نیا رنگ روپ نکالا۔ اپر مڈل کلاس کا ایک طبقہ ترقی کر کے ایلیٹ اور سپر ایلیٹ کلاس بنایا گیا۔ پھر پرانی اشرافیہ اور اپر مڈل کلاس سے جنم لینے والی نئی اشرافیہ کا اتحاد ہوا اور اسے تحریک انصاف کا نام دیا گیا۔ مشرف کے دور میں معیشت کو تختہ بند کر کے درمیان قصر دریا میں ڈالنے کا کام اکیلے مشرف اور شوکت عزیز نے انجام نہیں دیا تھا، اس نیک کام میں ان کے دست و بازو جہانگیر ترین تھے اور ایک اور صاحب کہ جنہیں دنیا ’’ہیئر سٹائل کنگ‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔ موصوف کا علم معیشت اتنا ہی ہے جتنا تمغہ امتیاز پانے والی مہوش حیات کانظریہ پاکستان کے بارے میں ہے۔ یہ ہیئر سٹائل کنگ آج کل عمرانی ٹیم کا حصہ ہیں۔ شوکت عزیز نہیں رہے، ان کی جگہ ایوبی اشرافیہ کے رزاق دائود ہیں اور ڈاکٹر عشرت حسین۔ مشرف نے اپنے ساتھیوں سمیت معیشت کی جو تباہ کاری کی۔ اسے بعد میں نوازشریف نے سنبھالا (بقول پی ٹی ٹی آئی، مصنوعی طور پر سنبھالا) اب جو تباہی مچی ہے، وہ مشرف دور سے دس گنا سوا ہے، اسے سنبھالنے کے لیے کون آئے گا؟ خواجہ خضر؟