لیاقت بلوچ نے پی ایس ایل کے کے کامیاب انعقاد پر مبارکبادی پیغام میں کہا ہے کہ باقی سب تو ٹھیک لیکن اختتامی تقریب میں جو خرافات کی گئیں، وہ نہ ہوتیں تو اچھا تھا۔ یہ ریاست مدینہ کے دعوئوں سے لگا نہیں کھاتیں۔ خرافات بشمول نچ پنجابن اور ازقسم ڈسکو دیوانے۔ کراچی کے ایک اخبار کی مرکزی سرخی بھی اسی قسم کے اختلافی نوٹ کا اظہار تھی، یہ کہ ’’شہدا کے سوئم پر ڈسکو دیوانے کا راج‘‘ خبر کے متن میں بہت کچھ ناقابل اشاعت بھی چھپ گیا ہے۔ پتہ نہیں کیسے قابل اشاعت ہو گیا۔ بہرحال یہ سب تشریح اور تعبیر کے اختلاف کا معاملہ ہے۔ ایک تشریح وہ ہے جو آپ حضرات یعنی دینی حلقے کرتے ہیں اور اس کے لیے کتب سیر سے سند لاتے ہیں۔ لیکن یہ نیا پاکستان ہے۔ یہاں تشریح جدید ہوتی ہے، وہ جو خان صاحب کرتے ہیں، ان کے اصحاب قرب ابرارالحق، امین گنڈاپور، فیصل واوڈا، فواد چودھری اور زلفی بخاری کرتے ہیں۔ نئے پاکستان میں یہی تشریح مستند اور معتبر ہے، آپ کی تشریح و تعبیر اب ماضی کا حصہ ہوئی، ماضی جو پرانے پاکستان کے ساتھ ہی قصہ پارینہ ہوگیا۔ اب اس قصہ پارینہ کی بازخوانی خواہ مخواہ کی مشقت۔ ٭٭٭٭٭ کشمیر پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے بلوچ صاحب نے کہا کہ کشمیر کے لوگ تھکے ہیں نہ فلسطین کے۔ دیگر مقررین نے بھی اسی قسم کے انکشافا ت کئے۔ فرمایا کہ کشمیر کی آزادی کا سورج طلوع ہو چکا وہاں گورنر راج کا نفاذ اس کا ثبوت ہے۔ کسی کی جان گئی، آپ حضرات کی ادا ٹھہری۔ ظالموں نے کشمیریوں اور فلسطینیوں کی ایک پوری نسل برباد کردی، آپ فرماتے ہیں وہ تھکے نہیں۔ یعنی اسی طرح مرتے رہیں، یہاں چمکتے دمکتے سیمینار اسی طرح ہوتے رہیں۔ گورنر راج آزادی کا سورج ہے تو یہ سورج 1987ء میں جگ موہن کی صورت ایک بار پہلے بھی طلوع ہو چکا ہے۔ کشمیر پر ہماری سوچ ایسی مقدس ہے کہ حرف تنقید غداری کے مترادف ہو جاتا ہے۔ چلئے، کچھ زیادہ کھل کر بات نہیں کرنی چاہیے تو اتنا کہہ دینے کی جرأت تو کم از کم ہونی چاہیے کہ امریکہ نے جو ’’جہاد‘‘ ہم سے شروع کروایا تھا، اس کے مقاصد پورے ہو چکے۔ اب پیچھے نسل کشی بچی ہے اور کچھ نہیں۔ کارگل ایڈونچر پر جیسے ہی کسی نے کہا کہ یہ راستہ کشمیر کی آزادی کی طرف نہیں جاتا تو ہر طرف سے غدار کے نعرے گونجے۔ کئی برس گئے اس بات کو سمجھتے سمجھتے کہ کارگل کی جنگ کا موقع کشمیری جدوجہد کا راستہ کھوٹا کرنے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ راستہ بھی کھوٹا ہوا اور دنیا نے بھی ہمارا ساتھ چھوڑ دیا۔ اب بلاشبہ ’’عظیم الشان سفارتی کامیابیوں‘‘ کا اندرون ملک شہرہ ہے فکر باہر؟ کریدتے ہو جواب راکھ، جستجو کیا ہے۔ یعنی اب ہمارے پاس دھرا کیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ پنجاب اسمبلی نے قرارداد پاس کر کے اپنی تنخواہیں چار سو فیصد بڑھوالیں۔ خان صاحب نے نوٹس لیا لیکن یہ نوٹس محض اور محض برائے اشاعت کے سوا کچھ نہیں تھا۔ حکمران جماعت کے ہمدرد قلمکار اور صدا کار بڑے خلوص سے قوم کو بتا رہے ہیں کہ خان صاحب کو اطلاع ہی نہیں دی گئی تھی ورنہ وہ یہ بل منظور ہی نہ ہونے دیتے۔ یعنی ماجرا اس عالم وارفتگی کا ہے جس میں رہنے والے کو کچھ خبر ہی نہیں ہوتی ع ہم وہاںہیں جہاں سے ہم کو بھی ‘کچھ ہماری خبر نہیں آتی شاید ایسا ہی ہوگا۔ بل کی منظوری سے ٹھیک چار روز پہلے اخبارات میں اس کی خبر آ گئی تھی۔ رات کو سبھی چینلز نے بھی نشر کی۔ خان صاحب کو ان کے عالم وارفتگی یا بھولپن کی وجہ سے علم نہ ہو سکا۔ اگلے روز خبر آئی کہ بل کل پیش ہوگا۔ اخبارات نے یہ خبر چھاپی رات کو ٹی وی پر بھی چلی۔ تیسرے روز پرنٹ میڈیا نے چھاپا کہ بل آج پیش ہوگیا۔ چوتھے روز بل پیش ہوا اور پاس ہوا۔ ٹی وی پر سارا دن خبر چلی۔ اگلے روز اخبارات کی مرکزی شہ سرخی یہی خبر تھی، بعض نے دوسری پوزیشن پر یہ خبر چھاپی۔ خان صاحب نے چوتھے روز کی سہ پہر خبر کا نوٹس لیا۔ بیچ کے تین دن ان کی لاعلمی کے ذمہ دار، مخلص بہی خواہوں کے بقول کچھ اور لوگ تھے۔ واللہ عجیب لاعلمی ہے اور عجیب تر ہیں وہ لوگ جو علم ہونے ہی نہیں دیتے۔ بہرحال، اب تو تنخواہیں بڑھ چکیں، جو ہو چکا، اس پر مٹی پانے کے سوا چارہ ہی کیا ہے۔ ٭٭٭٭٭ یہ عالم وارفتگی یا بھولپن کا پہلا ماجرا تو نہیں ہے۔ گیس کے زائد بلوں والا کھیل بھی یاد ہی ہوگا۔ خان صاحب کی ہدایت پر ان کی زیرقیادت ہونے والے اجلاس نے نئے نرخ منظور اور نافذ کئے۔ لوگوں کی چیخیں نکلیں۔ تب بھی یہی خبر آئی تھی کہ خان صاحب نے نوٹس لے لیا ہے اور پوچھا ہے کہ یہ کس نے کیا؟ اس ’’بھولپن‘‘ پہ کون نہ مر جائے اے خدا اور وہ ڈالر کی قیمت بڑھانے کا معاملہ بھی کوئی بھولی بسری کہانی نہیں ہے۔ سٹیٹ بینک نے جب بتایا کہ کوئی لاعلم نہیں تھا، سب کے علم میں تھا، تب جا کر خاموشی طاری ہوئی ورنہ خان صاحب تو عذر معقول پیش کر ہی چکے تھے کہ مجھے بتائے بغیر ڈالر مہنگا کردیا گیا۔ ورنہ کبھی مہنگا نہ ہونے دیتا۔ ٭٭٭٭٭ خبر ہے کہ آٹھ ماہ کے دوران وصولیاتِ محصولیات میں 233.2 ارب کا خسارہ ہوا ہے جو تاریخ کا سب سے عظیم الشان خسارہ ہے جون تک محض دو اڑھائی مہینے بعد یہ خسارہ بڑھ کر 465.9 ارب ہونے کا امکان ہے۔ ساتھ ہی بجٹ خسارہ بھی بڑھ کر جی ڈی پی کے سات فیصد تک ہو جائے گا۔ یہ سب خسارہ سینکڑوں ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کے عائد کئے جانے کے باوجود ہوا ہے۔ اسی محیرالعقول ’’کامیابی‘‘ پر مبارکباد دینے کے لیے الفاظ کا انتخاب کس لغت سے کیا جائے؟ کوئی بات نہیں۔ خان صاحب نے وعدہ کیا تھا کہ وہ برسراقتدار آنے کے فوراً بعد محصولیات میں آٹھ ہزار ارب روپے کا اضافہ کردیں گے۔ فوراً کا مقام ابھی نہیں آیا۔ جونہی آیا، یہ 465 ارب روپے منہا کرلیں گے، پھر بھی سات ہزار پانچ سو پندرہ ارب کے محصولات فاضل ہوں گے۔ ’’فوراً‘‘ آنے کا انتظار فرمائیے۔