بلاول اور مراد علی شاہ کا سارامقدمہ ایک ہی نکتے پہ کھڑا ہے اور وہ یہ کہ پیپلز پارٹی تو سخت لاک ڈائون کی حامی تھی مگر وفاقی حکومت نے مخالفت کی اور اس کی کوششوں کوسبوتاژ کیا۔ وفاقی حکومت کی کمزوریاں اپنی جگہ لیکن پیپلز پارٹی اپنی نااہلی اور کمزوری سے دھیان بٹا کر مکمل ذمہ داری دوسروں پر کیسے ڈال سکتی ہے؟ درست ہے کہ عمران خان لاک ڈائون کا فیصلہ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار تھے مگر جب مکمل لاک ڈائون کا فیصلہ ہو گیا، ریل بند کر دی گئی، قومی شاہرائوں کا رابطہ سندھ سے کاٹ دیا گیااورہوائی جہاز کی خدمات معطل ہو گئیں ،ایسے میں لوکل ٹرانسمیشن کو روکنا ، لاک ڈائون پر عمل درآمد کروانااور ہر قسم کے اجتماعات پر پابندی کا اطلاق کروانا کس کی ذمہ داری تھی، کس کی ذمہ داری تھی کہ وہ پولیس کو پیسے لے کر لاک ڈائون کی خلاف ورزی کی اجازت دینے سے روکے، کون نہیں جانتا کہ سندھ پولیس نے رشوت کا بازار گرم کیا اور پیسے لے کر شادیاں منعقد کرنے کی اجازت دی۔کون ذمہ دار تھا کہ لاک ڈائون کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہاٹ سپاٹس کا تعین کرے ، ڈیڑھ مہینے سے زیادہ کے لاک ڈائون میں کورونا سے پاک اور کورونا سے متاثرہ علاقوں کے نقشے بنائے ، دونوں طرح کے علاقوں کے لیے الگ الگ حکمت عملی تیار کرے ۔ بد قسمتی سے سندھ کی صوبائی حکومت اس میں بری طرح ناکام رہی ہے۔ حکومت سندھ کا مسلسل اصرار طویل لاک ڈائون پہ رہا ہے مگر وہ بتائے کہ کیا ٹرانسپورٹ کھولنے کا فیصلہ کلیتہََ اس کا اپنا نہیں تھا۔ کیا سندھ حکومت نے کاروباری تنظیموں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے تھے اوروزیر اعلی ہائوس میں ہونے والی میٹنگز میں ایس او پیز کے ساتھ کاروبار کھولنے پر اتفاق نہیں کیا تھا؟ سندھ حکومت بتائے کہ کیا سندھ میں ایس او پیز پر عمل درآمد کروانا وفاق کی ذمہ داری تھی؟ سندھ حکومت اپنی کمزوری او ر نا اہلی کا ملبہ دوسروں پر کیسے ڈال سکتی ہے۔ لاک ڈائون کے دوران سندھ حکومت نے ضلع شرقی کی گیارہ یونین کونسلز کو سیل کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس اقدام کے ساتھ ہی سوال اٹھاکہ گیارہ یونین کونسلز کو سیل کرنے کے بعد ان علاقوں کے لے حکمت عملی کیا بنائی گئی ہے ، سوال کیا گیا کہ ان یونین کونسلز میں کورونا کے مریضوں کو گھر سے نکالنے، اسپتال پہنچانے ، متاثرہ لوگوں کے اہل خانہ کے سیمپلز لینے ، صحت مند افراد تک رسد پہنچانے اور غریب علاقہ مکینوں تک راشن پہنچانے کے لیے حکومت کے پاس کیا منصوبہ ہے ؟ چونکہ حکومت کے پاس کوئی منصوبہ نہیں تھا لہذا ایک ہی رات میں اسے یہ فیصلہ واپس لینا پڑا۔ اب پیپلز پارٹی بتائے گی کہ وہ ان یونین کونسلز کو سیل نہ کرکے کورونا کے پھیلائو کا سبب کیوں بنی ، کیا اس کے لیے اس پروفاقی حکومت کا دبائو تھا؟ سار ی دنیا جانتی ہے کہ لاک ڈائون مستقل طور پر نہیں ہو سکتا ، لاک ڈائون کا مقصد اپنے انتظامات کے لیے وقت حاصل کرنا ہوتا ہے۔ حکومتیں چاہتی ہیں کہ انہیں لاک ڈائون میں وقت مل جائے اور اس دوران وہ طبی سہولیات کی جانچ مکمل کر لیں، آئسولیشن سینٹر بنا لیںاور کورونا مریضوں کا تعین کر کے ان کا رابطہ صحت مند افراد سے کاٹ دے ۔ پیپلز پارٹی کا سارا زور صرف لاک ڈائون پہ تھا جو ڈیڑھ مہینے کے لیے ہو بھی گیا ۔ اس دوران وہ کوئی ایسی حکمت عملی نہ بنا سکی جس کے تحت کورونا کے پھیلائو کو روکا جا نا تھا ۔ بلاول بھٹو زرداری اسمبلی میں کھڑے ہو کر کتنا ہی شور مچا لیں اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتے کہ لاک ڈائون کے دوران کورونا کے پھیلائو کی ذمہ داری مکمل طور پر سندھ حکومت کی تھی ،ٹرانسپورٹ کھولنے کا فیصلہ انہی کا تھاجس پر وفاق نے اصرار نہ کیا تھا، ٹرانسپورٹ کھلنے کے بعد ایس او پیز پر عمل درآمد بھی صوبے کی اپنی ہی ذمہ داری تھی جو اس سے ادا نہ ہو سکی۔ وفاقی حکومت اپنی غلطیوں سے بری الزمہ نہیں مگر جو صوبے کی سطح پر ہونا چاہیے تھا وہ کیوں نہ ہوسکا۔ سندھ حکومت کا دوسرا الزام یہ ہے کہ وفاق نے اس کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا اور طبی سہولیات کی فراہمی میں معاونت نہ کی۔ پیپلز پارٹی کا یہ الزام نہایت کمزور محسوس ہوتا ہے کیونکہ نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول سینٹر میں ایک تو تمام صوبوں کی نمائندگی موجود ہے ، دوسرا طبی آلات کی فراہمی کے کام کی نگرانی این ڈی ایم اے کے ذریعے کی جارہی ہے جو پنجاب کا ادارہ نہیں ہے ، تیسرا یہ کہ طبی آلات کی فراہمی کے جو اعدادو شمار جاری کیے گئے ہیں سندھ حکومت نے اس کی تردید نہیں کی۔ یوں لگتا ہے پیپلز پارٹی کی طرف سے تو بس ایک سیاسی نعرہ لگایا جا رہا ہے کہ وفاق مدد نہیں کر رہا۔ پیپلز پارٹی اور بلاول بھٹو کو سمجھنا چاہیے کہ یہ سیاسی پوائنٹ سکورنگ کا وقت نہیں ، قوم کو بحران سے نکالنے کا ہے ۔ سندھ حکومت کا اب بھی خیال ہے کہ لاک ڈائون ہی مسئلے کا حل ہے ،کورونا کی روک تھام کے لیے فوری لاک ڈائون ہونا چاہیے مگر وفاق اس پہ کان نہیں دھر رہا۔سندھ حکومت کے پاس اس کا سادہ ساحل ہے ۔ پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ فوری طور پہ سندھ میں لاک ڈائون لگا دے ، اس کے سامنے کوئی آئینی رکاوٹ درپیش نہیں ہے ۔ سندھ حکومت اگر مکمل لاک ڈائون نہیںکرنا چاہتی تو کم از کم ٹرانسپورٹ ہی بند کرا دے ، کاروباری مراکز اور دکانوں پہ ہی تالے لگوا دے۔ ہو سکتا ہے ایسا کرنے سے جو مثبت نتائج برآمد ہوں اس سے باقی صوبوں کو بھی تحریک ملے ۔ لیکن سندھ حکومت ایسا نہیں کرے گی، ٹرانسپورٹرز کے سامنے ڈٹ کر کھڑی نہیں ہو گی، تاجر برادری کے دبائو کو نہیں جھیلے گی ، پولیس کو رشوت لینے سے نہیں روکے گی، عملی اقدامات نہیں اٹھائے گی بس اسمبلی میں تقریریں اور وزیرا علی ہائوس میں پریس کانفرنسز کر کے وفاقی حکومت پہ تنقید کرتی رہے گی۔