میں نے اس ننھے بچے کی ویڈیو دیکھی تو ایسے جیسے میرے دل پر گھونسا پڑا ہو۔ وہ بچہ رویا ہے اور بری طرح رویا ہے۔ اپنی غیر معمولی چھوٹی قدوقامت کی وجہ سے اسے جماعت اور سکول کے ساتھیوں کی طرف سے طنز و تضحیک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ وہ اس تضحیک اور تذلیل سے اس قدر دل برداشتہ ہوتا ہے کہ ماں سے روتے روتے اس ویڈیو میں کہہ رہا ہے میں جینا نہیں چاہتا۔ میں چاہتا ہوں کہ کوئی آ کر مجھے مار دے۔ یہ ویڈیو پل بھر میں وائرل ہو گئی۔ یہ آسٹریلیا کی ایک سوختہ دل ماں نے بنائی۔ جس کا بچہ دنیا والوں کے رویے سے دل برداشتہ ہو کر خودکشی کی بات کرتا ہو اس ماں کے دل پر تو قیامت گزرتی ہو گی۔ ماںجذبات سے مغلوب ماں رونے لگتی ہے اور اپنے بچے کے آنسوئوں کو صاف کرتی ہے ‘اس کے بکھرے بالوں کو سنوارتی ہے ۔بچہ جو دل برداشتہ ہے اور روتا چلا جاتا ہے۔!۔اس ماں نے ایک اہم سوشل ایشو کی طرف توجہ دلائی ہے ‘سکولوں کالجوں میں بچے اپنے ساتھیوں کی طرف سے Bullyingکے وار سہتے ہیں۔ تضحیک اور تذلیل پر مبنی یہ رویے زبانی کلامی بھی ہو سکتے ہیں جسے verbal Bullying کہا جاتا ہے جسمانی ایذار سانی کوBullying physical اور سماجی طور پر بائیکاٹ کرنے کوBullying social کا نام دیا گیا ہے۔ یہ سائیکالوجی کی اصطلاحات ہیں۔ کئی اچھے سکولوں میں تو ایسے bullyکرنے والے بچوں کی باقاعدہ نفسیاتی تربیت ہوتی ہے۔ سکول ایسے اساتذہ رکھتے ہیں جنہوں نے نفسیات کے مضمون میں ماسٹرز کیا ہو۔ ساتھی بچوں کو تضحیک کا نشانہ بنانا سکولوں میں روٹین کی بات ہے۔ مگر تضحیک کا شکار ہونے والے بچے کے ذہن اور روح پر جو خراشیں پڑ جاتی ہیں‘ وہ تمام عمر نہیں جاتیں۔ اگر اسے خودنمائی نہ سمجھا جائے تو ایک واقعہ آپ کے ساتھ بانٹنا چاہتی ہوں۔! کوئی ڈیڑھ دو سال قبل میرے بچے کے سکول میں کسی جونیئر کلاس میں ایک بچہ داخل ہوا۔ آپ اسے معذوری تو نہیں کہہ سکتے لیکن ایک کمی اس کے چہرے پر ایسی تھی جس سے اس کے ہونٹ ٹیڑھے اور سر مستقل ایک طرف کو ڈھلکا ہوا تھا۔ میں نے اس بچے کو نہیں دیکھا تھا مگر مجھے میرے بیٹے نے بتایا کہ ایک بچہ سکول میں آیا ہے ہم سب اس سے بہت ڈرتے ہیں۔ کوئی اسے دوست نہیں بناتا۔ میرے دل کو یہ بات ایک تیر کی طرح لگی کہ ہائے اس ننھے بچے کے اندر کیسی شکست ریخت ہوتی ہو گی۔ دو دن دانیال نے یہی باتیں مجھے بتائیں تو تیسرے دن میں نے سکول کی ہیڈ سے ملنے کا وقت طے کیا اور چلی گئی۔ ان کے گوش گزار میں نے یہ باتیں کیں اور کہا کہ خدارا اس بچے کو ان زہریلے رویوں سے بچانے کا کوئی اہتمام کریں۔ میں نے اس بچے کو دیکھا تو نہیں لیکن میرے دل میں اس کے لئے بے پناہ ہمدردی ہے۔ دانیال کی بتائی ہوئی سب باتیں میں نے ان کے گوش گزار کیں کہ کیسے بچے اس کی مختلف شباہت کی وجہ سے اسے روحانی اور ذہنی طور پر تکلیف پہنچا رہے ہیں۔ شکر خدا کا یہ پرنسپل اس حساس ایشو پر پہلے ہی کام کر رہی تھیں۔ ایک دو مشورے میں نے بھی ان کو دیے کہ جو بچہ بھی اس کو تنگ کرے اسے اسمبلی میں سب کے سامنے بلا کر سزا دی جائے۔ تنگ کرنے والے بچے کے والدین کو آگاہ کر کے انہیں بھی کہیں کہ اپنے بچوں کو احساس اور ہمدرد رویے سکھائیں تاکہ وہ کسی کی زندگی اجیرن نہ کریں۔میں دانیال کو خاص طور پر تاکید کرتی کہ آپ نے احمد کا خیال رکھنا ہے۔ آپ جب بھی اسے دیکھیں تو اسے thumbs upکر کے اس کے اعتماد کو سہارا دیں۔ میرا بیٹا مجھ سے سوال کرتا رہا کیوں ماما۔ وہ کوئی میرا دوست ہے۔ میں نے اسے احمد کے ساتھ دوستانہ رویے کے عوض شاید کسی کھلونے کا وعدہ بھی کر لیا۔ کیونکہ پھر مجھے یقین تھا کہ وہ میری بات مانے گا۔ اسے سمجھایا کہ اگر احمد باقی بچوں سے مختلف ہے تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ اس سے دوستی نہ کی جائے۔ پیار نہ کیا جائے۔میں نے دانیال سے کہا کہ آپ سکول میں جب بھی دیکھو کہ احمد کو کوئی Bullyکر رہا ہے تو فوراً پرنسپل کو بتائو۔ یہ آپ کی ڈیوٹی ہے۔ چند ماہ کے بعد سکول میں اوپن ڈے تھا وہاں میں بھی احمد سے ملی۔ وہ کے جی کلاس میں تھا اور اپنی ظاہری کمی کے باوجود شاندار اعتماد کا مظاہرہ کر رہا تھا۔ میں نے اسے خوب سراہا۔ دانیال میں دوسروں کے لئے ہمدردی اور حساسیت کے جذبات پیدا کرنے کی جو شعوری کوشش میں نے اس کا فائدہ یہ ہوا کہ وہ اپنے ہم جماعت اور ہم سکول طالب علموں کے بارے میں حساس ہو گیا۔تیسری کلاس کے آغاز میں سعودی عرب سے آنے والا ایک بچہ داخل ہوا وہ اس سکول میں ایڈجسٹ نہیں ہوپا رہا تھا۔ ٹیچرز کی تمام کوششوں اور حربوں کے باوجود وہ کلاس میں خاموش بت بن کے بیٹھا رہتا۔ والدین نے بالآخر اجازت دی کہ ٹیچرز اس کے ساتھ قدرے سختی والا معاملہ کریں تاکہ وہ کچھ رسپانڈ تو کرے۔ کلاس میں اسے کوئی بھی بچہ دوست نہیں بناتا تھا۔یہ سوشل بولنگ کی ایک قسم تھی۔ دانیال نے اس بات کو بہت محسوس کیا اور مجھے کہا کہ پیرنٹس ڈے پر آپ نے کمپیوٹر ٹیچر سے بات کرنی ہے کہ وہ فیضان کو اتنا نہ ڈانٹا کریں وہ ڈر جاتا ہے بیڈ فیل کرتا ہے۔ پھر اس نے فیضان کے ساتھ دوستی کی اس کو پڑھائی میں مدد کرنے لگا۔ ہر روز مجھ سے ڈسکس کرتا کہ میں فیضان کی کیسے مدد کروں کہ وہ ٹھیک ہو جائے۔ میں بھی اسے ٹپس دیتی رہی۔ پہلی ٹرم کا رزلٹ لینے میں سکول گئی تو اس کی کلاس ٹیچر نے بتایا کہ آپ کے بیٹے نے تو کمال کر دیا۔ فیضان کے ساتھ دوستی کر کے پڑھائی میں اس کی مدد کر کے اسے بدل دیا۔ امتحانات میں فیضان نے ہماری توقع کے برعکس بہت اچھی کارکردگی دکھائی ہے۔ ظاہر ہے میں تو سن کر خوشی سے نہال ہوئی مگر جو دانیال کی خوشی تھی وہ دیدنی تھی۔ کہنا یہی تھا کہ اپنے بچوں میں ہمدرد اور حساس رویے پروان چڑھائیں تاکہ وہ اپنے کھردرے رویوں سے دوسروں کی روح پر خراشیں نہ ڈالیں۔یہ دنیا تبھی خوب صورت بنے گی جہاں کوئی گواڈن تضحیک آمیز رویوں سے دلبرداشتہ ہو کرمرنے کی بات نہیں کرے گا۔