بچے ہمارا مستقبل ہیں۔ یہ کلیثے ہم تحریروں اور تقریروں میں اتنا استعمال کرتے ہیں کہ اس کے اندر معنی اور مفہوم کا جو جہان آباد تھا اب وہ ویران ہو چکا ہے۔ اسی لیے یہ جملہ اب گھسا پٹا سا لگتا ہے اور ایک کلیثے کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ بولنے والے، لکھنے والے، سننے اور پڑھنے والے پر اس کی حساسیت اس کی معنویت کبھی نہیں کھلتی۔ اس تمہیدی پیراگراف کو آپ لفظ کلیثے کی ایک بورسی وضاحت کہہ سکتے ہیں وہ جملے یا اصطلاحیں جو اس بری طرح استعمال کی جائیں کہ اپنا مفہوم اور معنی کھو دیں۔ وہ Cliche کلیثے کہلاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دن رات یہاں یہ راگ الاپا جاتا ہے کہ بچے قوم کا مستقبل ہیں لیکن ان معصوم بچوں کے ساتھ ہم کیا سلوک کر رہے ہیں، اس پر بھی ذرا غور کریں۔ ہمارے پورے سماج کا، میڈیا کے دانشوروں کا، تعلیمی نصاب ترتیب دینے اور چنائو کرنے والوں کا رویہ بچوں کی طرف مجرمانہ لاپروائی کا ہے۔ بچے عمر کے جس حصے میں ہوتے ہیں ان کی ذہنی، روحانی اور جسمانی نشوونما ہورہی ہوتی ہے۔ ان کے جسم اور ذہن دونوں کی مضبوطی اور تندرستی کے لیے پورے سماجی ڈھانچے کو مل کر کام کرنا چاہیے ایک افریقی کہاوت ہے کہ It takes a village to raise a child. بچے کو صرف والدین بڑا نہیں کرتے۔ پورا معاشرہ مل کر اپنے آنے والے مستقبل کو تعمیر کرتا ہے۔ اب اس حقیقت کو ذہن میں رکھئے اور سوچیں کہ ہم بحیثیت معاشرہ ایک باشعور سماج کے بچوں کو کیا دے رہے ہیں۔ ہمارے بچے ناقص غذائیں کھاتے ہیں۔ ہوٹلوں، سے زہریلے کھانے کھاتے ہیں۔ ابھی کراچی میں بریانی کھا کر ایک ہی گھر کے پانچ بچے موت کے منہ میں چلے گئے۔ وہ پانچ بچے بھی اس قوم کا مستقبل تھے۔ وہ اس قوم کے اس معاشرے کے بچے تھے۔ ان بچوں کو قتل کرنے میں ہر وہ شخص شریک ہے جس نے اس سماج میں اپنا کردار بددیانتی سے ادا کیا۔ زہریلا کھانا بنانے والا قاتل ہے۔ اس کو بیچنے والا قاتل ہے تو وہ اہل اختیار بھی قاتل ہیں جو برسہا برس سے اس ملک میں ایک زہریلا قاتل نظام بنانے میں حصہ دار رہے جہاں قانون، قاعدہ، ضابطہ ایک مذاق ہے۔ غضب خدا کا کہ پانچ بچے کسی میدان جنگ میں نہیں تھے کہ دشمن کی گولیوں سے مر گئے۔ وہ سیروتفریح کرنے کراچی آئے تھے۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں کھانا کھانے گئے تھے۔ وہ کھانا ان کے لیے موت کا پروانہ ثابت ہوا۔ پانچ کے پانچ قیمتی بچے، ہنستے کھیلتے بچے کسی کے زہریلے کاروبار کی بھینٹ چڑھ گئے اور اس سماج پر جوں تک نہ رینگی۔ اس سے پہلے بھی کراچی میں دو بچے ماں کے ساتھ کھانا کھانے آئے اور کھانا کھا کر ابدی نیند سو گئے۔ کیسا قاتل معاشرہ ہے یہ، کہ گھن آتی ہے، یہاں کے نظام سے۔ بد دیانتوں کا بنایا ہوا یہ زہریلا نظام، پانچ بچوں کے زہریلا کھانا کھا کر مر جانے پر سراپا احتجاج نہیں ہوتا۔ یہاں دھرنے، احتجاج، جلوس، پریس کانفرنس صرف ’’جمہوریت کو بچانے کے لیے کی جاتی ہیں اور یہ پاکستانی مارکہ جمہوریت اسی وقت خطرے میں آتی ہے جب ان سیاسی لٹیروں اور ڈاکوئوں کے مفاد پر زد پڑتی ہے۔ اسی شہر خرابی میں پانچ بچے چپ چاپ مر کر اپنے ماں باپ کو ویران کر گئے۔ اسمبلی کے ایوانوں میں، کوئی شور شرابا نہیں ہوا، کوئی ہلچل نہیں مچی۔ میرے نزدیک یہ اتنا بڑا سانحہ ہے کہ وزیراعظم کو اس ہولناک سانحے کا نوٹس لینا چاہیے تھا اور ملک میں Health and Clean Food کے نام سے ایک ایمرجنسی نافذ کردینا چاہیے تھی اور پھر ملک بھر میں ایسے ہوٹلوں، ریستورانوں، دکانوں، ٹھیلوں، ریڑھیوں، کینٹینوں، الغرض ہر قسم کے فوڈ کارنر اور کھانے پینے کی اشیاء بیچنے والوں کے خلاف بلاامتیاز کریک ڈائون کرنا چاہیے تھا۔ مضر صحت کھانا بیچنے والوں کو کسی قسم کی رعایت نہیں دینی چاہیے۔ جرم ثابت ہونے پر بھاری جرمانے اور سخت سزائوں کے ساتھ، ایسی دکانوں، ہوٹلوں اور ریستورانوں کی تالہ بندی ہونی چاہیے تاکہ لوگ بھی دیکھ کر عبرت پکڑیں۔ بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ بددیانتی، بے حسی اور مجرمانہ ذہنیت کی پستیوں کو چھو رہا ہے اور اپنے منافع کے لیے ہوس کار دوسروں کی صحت اور زندگیوں کو دائو پر لگانے سے باز نہیں آتے بلکہ اب تو معاشرے میں تجارت کا ہی چلن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز بڑی بڑی بیکریوں گلیمرس فوڈ چینز، نامور ریستورانوں کے کھانوں کے پست معیار، غلیظ باورچی خانوں، بارے ایسی ایسی کراہت آمیز خبریں آتی ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ضروری کارروائیاں بھی ہوتی ہیں۔ چھاپوں اور چند روزہ تالہ بندی، معمولی جرمانوں کے بعد، یہ بے ضمیر، بددیانت، منافع خور پھر سے موت اور بیماری کے کاروبار میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس سے بڑھ کر بے حسی اور لاپروائی ہم جیسے خریداروں کی بھی ہے جو صحت پر چند لمحوں کی لذت کو ترجیح دیتے ہیں۔ کیک سونگھتے چوہوں کی وڈیو اپنے فرینڈز لسٹ میں بھیج کر پھر انہی بیکریوں سے کیک خریدتے اور مٹھائیاں کھاتے ہیں۔ ایک سوال پریشان کرتا ہے کہ ہمارے والدین نے ہم سے بہتر خوراک کھائی۔ ماحول بھی قدرے صاف تھا۔ ہم نے بھی آج کی نسبت زیادہ صحت مندہ صاف ستھری اور گھر کی بنی ہوئی غذائیں کھائیں۔ ہمارے سکول کے لنچ باکس بھی فروزن، پراسسیڈ فوڈ سے پاک تھے جبکہ سکول جانے والے آج کے بچے ایسے غیر صحت مند کھانوں کے اسیر ہو چکے ہیں۔ پہلے اچھے بھلے شامی کباب بنا کرتے تھے مگر اب بچے ایک مشہور برانڈ کے نگٹس اور برگر کے علاوہ کچھ پسند نہیں کرتے۔ آئوٹنگ پر جائیں گے تو فینسی غیر ملکی فوڈ چینز سے پیزا برگر اور اسی قسم کی خرافات کھانا فیشن سمجھا جاتا ہے۔ بچوں کی صحت کے لیے زہر قاتل یہ سب اشیاء اس طرح سے ایڈورٹائز کی جاتی ہیں کہ کچھ تو کم عقل مائیں بھی یہی سمجھنے لگتی ہیں۔ یہ سب کھانا بچوں کو چاوق چوبند، ذہین اور صحت مند بناتا ہے۔ سگریٹ کے اشتہار پر پابندی لگ چکی ہے تو کولڈ ڈرنکس، فروزن اور پراسسیڈ مکین فوڈ آئٹم، جعلی دودھ اور جوس کے اشتہار بھی بند ہونے چاہئیں۔ ان غیر صحت مندانہ کھانوں کے اشتہارات میں خاص طور پر بچوں کو لیا جاتا ہے۔ اسسی لیے بچے ان سے متاثر ہو کر یہی کچھ کھانے کی ضد کرتے ہیں۔ پورے معاشرے کو یہ ذمہ داری لینی چاہیے کہ ہوس کاروں اور منافع خوروں کے چنگل میں پھنسا ہوا معاشرہ پوری ایک نسل کی صحت تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ یہ موضوع اتنی بنیادی اہمیت کا ہے کہ اس کو ایک کالم میں سمیٹنا مشکل ہے۔ سو اگلے کالم میں بھی اسی پر بات ہوگی۔ ایک درخواست پرنٹ اور الیکٹرانک کی صحافتی اشرافیہ سے، کہ سیاست کی جگالی سے ہٹ کر کبھی ایسے بنیادی موضوعات پر بولا اور لکھا کرے۔ آپ کے بچے ضرور محفوظ ہوں گے لیکن قوم کا مستقبل وہ بچے ہیں جو خوانچہ فروشوں اور ریڑھیوں سے ناقص کھانے کھا کر ہیپاٹائٹس کے مریض بن رہے ہیں۔