بہت واویلا ہے کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کاروباری حضرات سے ملاقات کیوں کی انکو اپنے ہاں (جی ایچ کیو) کھانے پہ کیوںبلایا۔ایک پوری شام اس بات پر صف ماتم بچھی ہوئی تھی کی صبح آئی ایس پی آر کی طرف سے اس بارے میں صراحت کے ساتھ بتایا گیاکہ یہ اس ڈائیلاگ سیریز کا حصہ تھا جو گزشتہ دس ماہ سے جاری ہے۔جون کے آخری ہفتے میں کراچی میں ہونے والے اسی موضوع پر سیمینارمیں آرمی چیف ہی مہمان خصوصی تھے اور میں نے انکے خطاب کے حوالے سے 30، جون کو کالم لکھا تھا اس کا اقتباس پیش ہے : آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے واضح الفاظ میں کہا کہ اگر ملک کی معیشت کمزور ہو گی تو سلامتی کی صورتحال کمزور ہو گی۔ انہوں نے معروف تاریخ دان پائول کینیڈی اور ورلڈ بینک کے سابق صدر میکنامارا کے اقوال کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ترقی کے بغیر کوئی سیکیورٹی نہیں۔ معاشی صورتحال میں بہتری کی امید کے ساتھ انہوں نے خرابی کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میںمشکل معاشی فیصلے نہ کرنے کی وجہ سے مشکلات بڑھیں۔یہی ادراک ہے جس کی وجہ سے پہلی دفعہ فوج نے بطور ادارہ ملکی معیشت کی صورتحال کے پیش نظر دفاعی بجٹ میں کسی قسم کے اضافہ سے انکار کیا ہے۔ اس قسم کی باتیں انہوں نے گزشتہ منگل کو ہونے والے سیمینار میں خطاب کرتے ہوئے بھی کہیں۔ جون میں ہونے والے اس سیمینار پر بہت واہ واہ ہوئی تھی لیکن پتہ نہیں اس بار کیا ہوا کہ وہی لوگ تھے، وہی موضوع اور آرمی چیف بھی نئے نہیں ہیں پھر ایسا کیا ہے کہ قیامت برپا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ مسئلہ بظاہر یہ دکھائی دیتا ہے کہ جیسے جیسے حکومت کی گرفت مضبوط ہوتی جا رہی ہے اور معیشت کے حوالے سے بھی اچھی خبریں آنی شروع ہو گئی ہیں جس میں سب سے اہم آئی ایم ایف کے وفد کی حالیہ دورے کے بعد معیشت کی بہتری کے حوالے سے امید افزا باتیں ہیں۔ اس ساری صورتحال میں اپوزیشن کے پاس سیاسی طور پر بیچنے کو کوئی سودا نہیں بچا ہے اب وہ ـآٹا گوندھتے، ہلتی کیوں والے سینڈ روم کا شکار ہو چکے ہیں اسی لئے بیانات اور اقدامات میں بے چینی پائی جاتی ہے جو کبھی کبھی غصے کی حد تک پہنچ جاتی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن جیسے متحمل مزاج بھی آگ اگل رہے ہیں جبکہ بلاول بھٹو زرداری تو اس قدر غصے میں ہیں کہ انہیں پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کیا بول رہے ہیں۔ خوش آئند بات یہ ہے کہ عمران خان بطور وزیر اعظم عوام کی حالت بہتر بنانے کے لئے فکرمندی رکھتے ہیں۔ امید کی جانی چاہئے کہ نہ صرف انکی فکر مندی برقرار رہے گی بلکہ وہ ماضی کے حکمرانوں کے بر عکس واقعی جمہور کے لئے کام کرنے میں کامیاب ہوں گے۔ اس صورتحال میں اگر کوئی ادارہ ملک کی معاشی صورتحال میں بہتری کے لئے کوئی کردار ادا کر رہا ہے تو اس میں ناراضگی کی کیا بات ہے۔بقول آرمی چیف ملک مشکل معاشی صورتحال سے گزر رہا ہے ، ہم سب کو مشکل حکومتی اقدامات کی کامیابی کے لئے اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہونگی۔ یہ ایک قوم بن کر کام کرنے کا وقت ہے۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میثاق معیشت کی بات کر رہی تھیں ، حکومت بھی اس تجویز سے متفق ہے تو پھر مسئلہ کہاں ہے۔کچھ لوگوں کو اپنی ذات سے آگے سوچنے کی عادت ہی نہیں ہے اس لئے وہ اپنی ہی جماعت کے صدر کی دی ہوئی میثاق معیشت کی تجویز کا مذاق اڑا رہے تھے۔اس ذہنیت کو سمجھنے کے لئے معروف امریکی مصنف اورٹی وی پروڈیوسر فل ککّ کے قوم کے لیڈر کے حوالے سے مشاہدے کا ذکر بہت مدد کرے گا۔ فل ککّ کے مطابق کسی بھی لیڈر کا وژن اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا وہ کلچر ہوتا ہے جو وہ معاشرے میں فروغ دیتا ہے۔ اگر وہ زہریلا کلچر پیدا کر دیتا ہے تو بہترین وژن بھی قوم کی حالت نہیں بدل سکتا۔ ملک کوجہاں بیشمار چیلنجز کا سامنا ہے وہیں ایسے زہریلے کلچر کا خاتمہ بھی بہت اہم ہے جو لوگوں میں تفریق پیدا کرتا ہو اورمعاشی خرابیوں کی بھرمار کے ساتھ طبقاتی کشمکش سے ملک کو اس نہج پر پہنچا دے جہاں لوگ باہم دست و گریباں ہو جائیں۔وزیر اعظم بار بار مدینہ کی ریاست اور غریب کو اوپر اٹھانے کی بات کرتے ہیں۔ لیکن جب تک یہ زہریلے کلچر کے بانی اپنے منطقی انجام کو نہیں پہنچتے وہ ملک اور حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرتے رہینگے۔ان قائدین کے بیانات اور انکے حواریوں کا رویہ اس بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ وہ اپنی لوٹ مار کا مال بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔ حکومت تو انکے نشانے پر ہے ہی وہ قومی سلامتی کے اداروں کو بھی کسی صورت بخشنے کو تیار نہیں ہیں۔ اگلے چند دنوں میں صورتحال مزید واضح ہو جائے گی ۔مولانا فضل الرحمٰن اپنے سیاسی حلیفوں کو تو قائل نہیں کر پائے دیکھیں وہ اپنے سپورٹرز کو کس حد تک اپنے لانگ مارچ اور دھرنے کے لئے متحرک کر پاتے ہیں۔ بظاہریوں دکھائی دے رہا ہے کہ آخری معرکے کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور صف بندی جاری ہے۔ایک طرف معاشی صورتحال کی وجہ سے سلامتی کو لاحق خطرات کا ادراک رکھنے والی حکومت اورادارے ہیں اور دوسری جانب اپنے مال و زر کو بچانے کے لئے ہر حد سے گزر جانے والی قوتیں۔ کون کہاں کھڑا ہے یہ اب واضح ہوتا جا رہا ہے۔ ٹکرائو کب ہو گا یہ فریقین کی ہمت اور اپنے مقصد کے ساتھ اخلاص پر منحصر ہے۔ ایک بات طے ہے کہ ملکی سلامتی کی خاطر کھڑے ہونے والے آنکھ جھپکنے کو تیارنہیں ہیں۔ وہ نہ پیچھے ہٹیں گے اور نہ کسی دھونس اور دھمکی کو خاطر میں لائیں گے۔ دوسری طرف والے البتہ کسی بھی مفاہمتی پیشکش پر ڈھیر ہو سکتے ہیں اس سلسلے میں کوششیں اور افواہیں بہت ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کسی امید کے سہارے مولانا فضل الرحمٰن کی دھرنے والی دلدل میں اترنے کوتیار نہیں ہیں۔ مولانا کو دعا کرنی چاہئیے کہ انکے دھرنے کی تاریخ تک ان دونوں جماعتوں کی امید ٹوٹ جائے۔