پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے چند ہفتے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ن لیگ کے سینئر رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے دو ملاقاتیں کیں، یہ ملاقاتیں ان کی درخواست پر ہوئیں، جن میں محمد زبیر نے نواز شریف اور مریم نواز کیلئے کرپشن اور منی لانڈرنگ کیسز کے حوالے سے ریلیف مانگا۔ ملاقات کے دوران ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی موجود تھے۔ جمہوریت کی گاڑی حکومت اور اپوزیشن پر مشتمل اپنے دو پہیوں پر ہی سبک خرام ہوتی اور رواں دواں رہتی ہے۔ ان دونوںکا باہمی ربط افہام و تفہیم کی فضا کو فروغ دے کر ہی برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ اگر یہ سیاسی ربط برقرار نہ رہے یا اپوزیشن جماعتیں حکومت کی بجائے دیگر اداروں سے خفیہ مراسم بنا کر ماضی کی لوٹ مار، کرپشن اور ناجائز کاموں کو تحفظ دینے کی کوشش کرنے لگیں تو جمہوری گاڑی کو بریکیں لگنا شروع ہو جاتی ہیں۔ جمہوریت کے بدخواہوں کو اپوزیشن اور حکومت کے مابین پیدا ہونے والی مناقشت اور اس کے نتیجے میں پروان چڑھنے والی سیاسی محاذ آرائی سے فائدہ اٹھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ ہماری سیاسی تاریخ جمہوریت کی گاڑی کو بار بار ٹریک سے اتارنے کے تلخ واقعات سے بھری پڑی ہے۔ اس کے باوجود ہمارے سیاستدان مقتدرقوتوں سے رات کے اندھیرے میں ملاقات کرتے اور رعائیتں مانگتے ہیں۔ اگر وہ ریلیف نہ دیں، تو ان کے خلاف سخت تقریریں کر کے ماحول خراب کیا جاتا ہے۔ مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر نے میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کے ایما پراگست اور ستمبر میں آرمی چیف سے ملاقاتیں کر کے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے مقدمات میں ریلیف مانگا۔ جب آرمی چیف نے جواب دیا کہ قانونی معاملات عدالتوں میں حل کریں اور افواج پاکستان کو اس سے دور رکھیں، تو 20ستمبر کو آل پارٹیز کانفرنس میں میاں نواز شریف نے اپنی تقریر میں ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا، ان کی یہ تقریر مقدمات میں ریلیف نہ ملنے پر دال ہے۔ جمہوریت حقیقت میں وہ نظام ہے جس میں حکومتوں کو اپنی کارکردگی کے لحاظ سے عوام کے سامنے جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔ اس بنا پر منتخب حکمرانوں کی من مانیوں پر ان کا کڑا احتساب ہوتا ہے۔ عوام کی جانب سے دیے گئے مینڈیٹ کے تقاضے نہ نبھانے پر عوام انہیں آئندہ الیکشن میں گھر واپسی کا راستہ دکھاتے ہیں۔ جمہوریت میں ہر صورت قانون کی حکمرانی ہوتی ہے۔ خراب سے خراب جمہوریت کو بھی اچھی سے اچھی آمریت پر ترجیح دی جاتی ہے لیکن سیاستدان اگر خود ہی اپنے پائوں پر کلہاڑی مار کر جمہوریت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہوں تو انہیں کون روک سکتا ہے۔ اب تو یہ بات بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ مسلم لیگ ن کے سرکردہ رہنما خواجہ آصف نے الیکشن کی رات الیکشن کمیشن کی بجائے آرمی چیف سے فون پر رابطہ کیا تھا۔ ہمارے سیاستدانوں کو آرمی کی بجائے عوام سے تعلقات استوار رکھنے چاہئیں تاکہ جمہوریت مضبوط ہو،جب جمہوریت مستحکم ہو گی ‘ سیاسی پارٹیاں مضبوط ہونگی تو جمہوریت کا بسترگول کرنے کا کسی کو موقع نہیں ملے گا۔ایک طرف مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ایک دوسرے سے چھپ کر مقتدر قوتوں سے معاملات طے کرنے میںمگن ہیں۔ دوسری طرف اے پی سی کا انعقاد کر کے عوام کو ورغلانے کی کوششوں میں بھی جتے ہوئے ہیں۔ حالانکہ ماضی میں جب ان دونوں پارٹیوں نے میثاق جمہوریت کیا تھا، تو اس میں دونوں بڑی پارٹیوں نے اس معاہدے پر دستخط کئے تھے کہ کوئی پارٹی فوج سے سیاسی حمایت نہیں مانگے گی۔اس کے علاوہ سول حکومتوں کی رخصتی اور فوجی بغاوتوں کا جائزہ لیا جائے گا۔2008ء میں جب پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو اس نے شروع میں اسی میثاق کی بنیاد پر مسلم لیگ کو شریک اقتدار کیا لیکن کچھ ہی عرصے کے بعد دونوں پارٹیاں اس میثاق کو بھول گئیں۔ پیپلز پارٹی نے پنجاب میں گورنر راج نافذ کر کے مسلم لیگ کی حکومت کا خاتمہ کیا تو میاں نواز شریف کالا کوٹ پہن کر اس حکومت کے خلاف عدالت میں چلے گئے۔ پھر جب مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی تو اس نے پیپلز پارٹی کو دیوار سے لگانے کی ٹھانی۔ یہاں تک کہ میاں شہباز شریف نے سابق صدر آصف علی زرداری کو سڑکوں پر گھسیٹنے کے دعوے کئے۔ آج ایک مرتبہ پھر یہ دونوں جماعتیں اکٹھی ہو کر عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے تلی بیٹھی ہیں۔ ان کی یہ خواہش ہے کہ وہ کسی طرح اقتدار حاصل کر لیں چہ جائیکہ اس کے لئے انہیں عسکری قیادت کی مدد ہی کیوں نہ لینی پڑے یا پھر بیرون ملک سے کسی کی آشیر باد۔ اپوزیشن رہنما ایک طرف افواج پاکستان سے تعاون کی خواہاں ہیں تو دوسری جانب اس کے خلاف زہر اگلتے نہیں تھکتے۔ آئین پاکستان میں جب افواج کی ذمہ داریاں متعین ہو چکی ہیں تو پھر انہیں اقتدار میں آنے کی دعوت کیوں دی جا رہی ہے۔ افواج ہر دور میں سول حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آئی ہے۔ پیپلز پارٹی ‘ مسلم لیگ ن کے دور حکومت میں افواج انہیں سپورٹ کرتی تھی۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے میاں نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے ساتھ مل کر ملکی استحکام کے لئے کام کیا۔ سابق دور میں آرمی چیف حکومت کے کہنے پر سعودی عرب اور چین سے ملے تھے ،اگر وہ موجودہ حکومت کے کہنے پر ان ممالک سے ملاقاتیں کرتے ہیں تو اپوزیشن سیخ پا ہو جاتی ہے۔ اپوزیشن کو دوہرا معیار ختم کرنا چاہیے اور اخلاقیات کے دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔2018ء کے انتخابات میں عوام نے پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا ہے انہیں اپنی جمہوری اور آئینی مدت پوری کرنے کا موقع دینا چاہیے اگر وہ عوام کی امیدوں پر پورا نہیں اترتے تو 2023ء میں عوام ان کا احتساب کر کے کسی اور پارٹی کو موقع دیں گے لیکن اگر سیاستدان اسی طرح لڑتے رہے تو اس سے ملک و قوم کا نقصان ہو گا اور سیاسی قائدین کے ہاتھ کچھ نہیں آئے گا۔