اپوزیشن نے تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کے لئے ماحول بنانا شروع کر دیا ہے۔ افطار پارٹی میں مولانا فضل الرحمن شہ بالا بنے ہوئے تھے۔ مسلم لیگ ن جانتی ہے اس کے کارکن احتجاجی تحریک نہیں چلا سکتے۔ حمزہ شہباز کا ونگ جانے کیوں مریم نواز کے مقرر کئے گئے عہدیداروں سے ناراض ہے۔ پنجاب میں ملک احمد خان کی جگہ عظمیٰ بخاری کو پارٹی ترجمان بنا کرداخلی تقسیم گہری کر دی گئی ہے۔ بلا شبہ ن لیگ کو ووٹ نواز شریف کے نام پر پڑتے ہیں مگر پس پردہ انتظامات اور ڈیل کا کام شہباز شریف کے ذمے ہوتا ہے۔ اس بار شہباز شریف نے کچھ مہلت کی درخواست کی۔ انہوں نے یقین دلایا کہ وہ گل بکائولی کا پھول لندن سے لے کر آئیں گے مگر ابھی تک وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ نواز شریف جیل میں گھبرا رہے ہیں۔ انہیں ہر ہفتے ملاقات میں مریم اور حمزہ شہبازبتاتے ہیں کہ ڈیل کی کوششیں جاری ہیں۔ گزشتہ دنوں جب نواز شریف کو عدالت عظمیٰ نے بیماری کا علاج کرانے کے لئے چھ ہفتے کے لئے جیل سے چھٹی دی تو اس سے چند روز قبل شہباز شریف نے بڑے بھائی کے جیل سے باہر آنے کی پیشگوئی کر دی تھی۔ یہ کسی پیر کامل کی نظر کا صدقہ نہ تھا بلکہ ڈیل کی کوششوں کا نتیجہ تھا۔ شہباز شریف کا انداز سیاست ن لیگ میں مقبول نہیں۔ ن لیگ کے کارکن اب مریم نواز کے گرد اکٹھے ہونے لگے ہیں لیکن شہباز شریف کو منفی کر دیا جائے تو ن لیگ اور محمود اچکزئی میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ ن لیگ کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ اس بار حالات میں ایسی کوئی کروٹ نہیں ابھری جو اس کی اہمیت ثابت کر دے۔ ن لیگ کے پاس مہنگائی کے سوا کوئی ایسا ایجنڈا نہیں جس پر وہ عوام کو متحرک کر سکے۔ کے پی کے میں انجینئر امیر مقام ان کے لئے ذرا ہلچل پیدا کر رہے تھے جب سے ان کے اور ان کے بیٹے کے خلاف تحقیقات شروع ہوئی ہیں وہ کہیں دکھائی نہیں دے رہے۔ سعد رفیق مشکل اوقات میں ن لیگ کے لئے سرگرم ہوا کرتے تھے وہ قانونی عمل کا سامنا کر رہے ہیں اور اپنی قیادت سے نالاں کہ ان کے پروڈکشن آرڈر کے لئے کوئی تگ و دو نہیں ہوتی۔ لاہور میں مسلم لیگ ن کے میڈیا سیل سے وابستہ کچھ صحافی اور کچھ غیر صحافی تنخواہ دار نظریاتی بنے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں نے پورے پانچ سال پی ٹی وی پر امتیازی کنٹریکٹ پر کام کیا۔ نجی چینلز پر ان کو بلانے کے لئے دبائو ڈالا جاتا اور ان لوگوں کا کالم مختلف اخبارات میں بامعاوضہ لگوانے کا انتظام کروایا جاتا۔ حیرت ہے کہ یہ لوگ اب بھی تنخواہیں وصول کر رہے ہیں۔ ایک بات طے ہے کہ یہ لوگ اس حد تک نمک حلال ثابت ہوئے ہیں کہ اپنے قائدین سے وفاداری نبھانے کے لئے ریاست سے بغاوت کو بھی برا نہیں جانتے۔ ان انقلاب ساز میڈیا ماہرین کی ساری کوشش رائیگاں جا رہی ہے۔ کوئی بھی نواز شریف کو نیلسن منڈیلا تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ اب معاملات پوشیدہ نہیں رہے ‘کس نے کب ‘کس سے اور کتنا لیا سب سامنے آ رہا ہے۔ لوگ اینکرز اور کالم نگاروں کو اب سیاسی جماعتوں سے وابستگی کے حوالے سے جانتے ہیں۔ کارکن تو سڑکوں پر پر آنے کو تیار نہیںمسلم لیگ میڈیا سیل کے ذریعے سیاسی ٹمپریچر بڑھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حکومت سے ٹکرائو کی پالیسی بلاول نے اپنا رکھی ہے۔ ایک پڑھے لکھے نوجوان کا تصور جون کی دھوپ میں پگھل رہا ہے۔ ہمارے سامنے بھٹو کا چہرہ زرداری کا چہرہ بنتا جا رہا ہے۔ اسمبلی کے ہر اجلاس میں ہنگامہ آرائی کی جا رہی ہے۔ اسلام آباد میں اگرچہ گنتی کے کارکن جمع ہوتے ہیں مگر پولیس سے جھگڑا کر کے اور میڈیا کے سامنے مزاحمت کے کچھ شاٹس بنا کے تاثر بنایا جا رہا ہے کہ ہزاروں کارکن سڑکوں پر آ رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام آباد سے لے کر لاہور تک کے کسی حلقہ میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کو پچھلے پانچ برسوں کے دوران ہونے والے ضمنی انتخابات اور جولائی 2018ء کے عام انتخابات میں دو ہزار سے زائد ووٹ نہیں ملے۔ پیپلز پارٹی میں نئے لوگ نہیں آ رہے۔ جو نئے چہرے نظر آتے ہیں وہ بزرگ رہنمائوں کے بیٹے بیٹیاں ہیںجیسے الیزے اقبال‘ مرتضیٰ وہاب‘ مصطفی کھوکھر۔پیپلز پارٹی سے برین ڈرین ہوا ہے۔ اس نقصان کے ازالے کا کوئی اہتمام نہیں کیا جا رہا۔ بلاول نے تاریخ پڑھی ہے تاریخ بنتے نہیں دیکھی۔ حالات کی ستم ظریفی انہیں وقت سے پہلے سیاست میں لے آئی۔ ان کے ساتھ ایسے بوجھ بندھے ہوئے ہیں جنہوں نے ان کے پر باندھ رکھے ہیں۔ ان کی جماعت بدانتظامی‘ کرپشن اور بدنامی کا شکار رہی ہے۔ ان کے لئے عوام کے دل میں ایک نرم گوشہ ہے مگر ان کے ساتھ بندھا ہوا بوجھ ناقابل برداشت ہے۔ پیپلز پارٹی کا سندھ کارڈ بھی غیر موثر ہو چکا ہے۔ کراچی نے اپنی الگ سیاسی سوچ ظاہر کی ہے۔ محاذ آرائی کی فوری وجہ قبائلی اضلاع کے انتخابات ہیں۔ علی وزیر اور محسن داوڑ کی حمایت کی وجہ یہی ہے کہ قبائلی عوام کو پی ٹی آئی سے بدگمان کر کے وہاں پیپلز پارٹی کے لئے گنجائش بنائی جائے۔ ایک سیاسی حربے کے طور پر یہ بات پارٹی کو فائدہ دے سکتی ہے مگر یہ حکمت عملی ریاست کے مفاد میں نہیں۔ بلاول اور ریاست کا مفاد آپس میں ٹکرا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن پر پیپلز پارٹی تکیہ کرنے کو تیار نہیں۔ آصف زرداری جانتے ہیں کہ مولانا کی خدمات کا معاوضہ ایک ہی بار ادا نہیں ہو سکتا۔ وہ کم از کم پانچ سال تک کوئی عہدہ‘ اپنے بھائیوں کے لئے پیکیج اور وقفے وقفے سے فرمائش کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ آصف زرداری اور میاں نواز شریف سے حاصل کی گئی مراعات ابھی تک ان کو مل رہی ہیں۔ مولانا چاہتے ہیں کہ وزیرستان کے معاملات میں ان کا کردار شامل کیا جائے۔ وہ چاہتے ہیںکہ ان کی مراعات کا پیکیج ریاست ختم نہ کرے۔ مدارس اصلاحات کی وجہ سے انہیں خدشہ ہے کہ ان کی سیاسی طاقت کم کی جا رہی ہے۔ وہ اس وقت ریاست کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ ان کے کچھ بے ضرر مطالبات تسلیم کئے جانے کا امکان ہے۔ اس صورت میں احتجاجی قوت کی تلاش میں مریم نواز کی امید ٹوٹنے کا پورا امکان ہے۔