پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ایک دوسرے سے تعاون کرنے اور بجٹ کی منظوری روکنے کے لئے دیگر اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ مل کر مشترکہ کوششوں کا عندیہ دیا ہے۔ دونوں کے درمیان سیاسی لائحہ عمل پر بات چیت مریم نواز کی رہائش گاہ جاتی عمرہ میں ہوئی۔ اطلاعات کے مطابق اس ملاقات میں اپوزیشن لیڈروں کی گرفتاریوں‘ کچھ ججز کے خلاف ریفرنس‘ ملک کی عمومی صورت حال اور اپوزیشن کے باہم رابطے بڑھانے پر اتفاق ہوا ہے۔ متعدد بار حکومت کرنے والی دونوں جماعتوں کی قیادت نے جارحانہ انداز اپناتے ہوئے کہا کہ حالیہ بجٹ پاکستان کے لئے معاشی خودکش ہے اور وہ اسے منظور ہونے سے روکنے کے لئے طاقت کا استعمال کریں گے۔ دونوں نے اپوزیشن کی حکومت مخالف کوششوں کو منظم کرنے کے لئے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن سے رابطوں پر بھی اتفاق کیا۔ اس وقت وطن عزیز معاشی و دفاعی چیلنجز میں گھرا ہوا ہے۔ ملک کا ذرہ ذرہ ایسے ناواجب قرضوں تلے دبا ہوا ہے جس کا معمولی سا حصہ بھی عام آدمی کی زندگی میں سہولت اور بے فکری لے کر نہیں آیا۔ حکمرانوں نے کھربوں روپے قرض لئے اور انہیں انتہائی غیر ذمہ دارانہ انداز میں غلط ترجیحات پر لٹا دیا۔ آج پاکستان96ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ جب 2008ء میں پیپلز پارٹی نے اقتدار سنبھالا تب ملک کے مجموعی غیر ملکی قرضوں کا حجم 35ارب ڈالر تھا۔ یہ 35ارب ڈالر روپے کی قدر کو مستحکم رکھے ہوئے تھا اور اس قرضے کے باوجود نہ سٹاک مارکٹ ڈوبتی نہ مہنگائی اور افراط زر کی سطح اتنی بلند ہوتی۔ غیر ملکی قرضے ایسے غیر پیداواری منصوبوں پر خرچ کئے گئے جن سے سیاسی مقبولیت ہوتی تھی مگر ریاست کا خزانہ خالی ہوتا رہا۔ وہ دونوں جماعتیں جن کی قیادت بلاول بھٹو زرداری اور مریم نوازکر رہے ہیں پینتیس برس تک بدل بدل کر اقتدار میں آتی رہیں۔ ان جماعتوں پر تنقید کرنے والوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے ریاست کی بجائے خاندانوں کی بہبود کے لئے کام کیا۔ سیاسی جماعتوں کے مابین ریاست اور عوام کی بہتری کے لئے تعاون بڑھے تو اسے مثبت پیشرفت کہا جا سکتا ہے۔ پوری قومی تاریخ میں ان دونوں جماعتوں کے پاس جمہوری سند صرف میثاق جمہوریت ہے۔ اس میثاق میں بھی ایسی شرائط شامل کی گئیں جن سے یہ دو جماعتوں کی جگہ دو خاندانوں کے اقتدار کے حق کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ آصف علی زرداری صدر مملکت منتخب ہوئے اور پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو ملک میں مفاہمت کی سیاست کا نعرہ لگایا گیا۔ مفاہمت کا مطلب غیر ضروری تصادم اور تلخی سے بچ کر تعلقات کو بحال رکھنا ہے۔ دیکھا گیا کہ حکومت کے اتحادی ہی نہیں اپوزیشن دھڑے اور جماعتیں بھی آصف علی زرداری کی مفاہمانہ پالیسی کے دلدادہ نکلے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس مفاہمت کی بنیاد کوئی جمہوری اور اخلاقی اصول نہیں بلکہ مخصوص خاندانوں کو فوائد مہیا کرنا تھے۔ گزشتہ برس جولائی میں ہونے والے عام انتخابات سے پہلے اور انتخابی مہم کے دوران پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن ایک دوسرے پر سخت تنقید کرتی رہیں۔ دونوں ایک دوسرے کو عمران خان کی اتحادی ہونے کا طعنہ دیتی رہیں۔ تحریک انصاف نے اقتدار سنبھالا تو اسے ایک بگڑا ہوا سیاسی کلچر ورثے میں ملا۔ سیاستدان اقتدار میں رہ کر سرکاری خزانے کو لوٹتے ہیں اور پھر اپوزیشن میں کھڑے ہو کر اپنے خلاف قانونی کارروائی کو سیاسی انتقام کا نام دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی قیادت نے برسہا برس لگا کر ایک دوسرے کے خلاف کئی طرح کے مقدمات درج کرائے۔ نیب کی تحقیقات سے متفق ہو کر عدالت عظمیٰ نے میاں نواز شریف کو العزیزیہ ریفرنس میں سزا دی۔ میاں نواز شریف اسی مقدمہ کی کوٹ لکھپت جیل میں مدت قید مکمل کر رہے ہیں۔ آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ پر جعلی اکائونٹس اور منی لانڈرنگ کے الزامات ہیں۔ تحریک انصاف پنجاب کے رہنما اور صوبائی وزیر عبدالعلیم خان کئی ماہ کی قید اور تفتیش کا سامنا کر چکے ہیں۔ ایک اور صوبائی وزیر سبطین خان بھی گرفتار کر لئے گئے ہیں۔ یوں یہ تاثر رد کیا جا رہا ہے کہ احتساب صرف اپوزیشن رہنمائوں کے لئے ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے والد آصف علی زرداری جعلی اکائونٹس اورمنی لانڈرنگ کے مقدمات میں گرفتار ہیں جبکہ مریم نواز کے والد اور خاندان کے اکثر افراد کے خلاف نئی تحقیقات جاری ہیں بلکہ ان دونوں کے خلاف بھی تفتیش جاری ہے۔ ان حالات میں دونوں جماعتوں نے پہلے مہنگائی کو قومی اطلاعاتی ایجنڈے میں شامل کرنے کے لئے بھی تگ و دوشروع کی اور پھر معاشی ابتری کو عمران خان کے سر تھونپ دیا۔ اس فضا میں اپوزیشن جماعتیں اور ان کے مرکزی رہنما جو حکمت عملی اختیار کریں گے اس کی پڑتال انہیں لاحق احتساب کے خطرے کی شدت کے مطابق کی جائے گی۔ موجودہ حکومت نے اقتدار کے دس ماہ مکمل کئے ہیں۔ کئی معاملات پر حکومت اب تک اپنی پالیسی اور منصوبہ بندی پیش نہیں کر سکی مگر اس کا مطلب انتشار اور بدامنی کو ہوا دینا نہیں ہو سکتا۔ گزشتہ ہفتے اپوزیشن جماعتیں اور ان کے حامی وکلاء نے ججوں کے خلاف ریفرنس بھجوانے پر احتجاج کیا۔ سابق ادوار میں اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج حضرات کے خلاف حکومتیں جو کچھ کرتی رہیں یہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ بلاول اورمریم نواز کے پاس ایسے کئی مسائل ہیں جن پر توجہ دے کر وہ خود کو زیادہ مضبوط سیاسی رہنما ثابت کر سکتے ہیں۔ بجٹ کسی جماعت نہیں ریاست کی ضرورت ہے۔ بجٹ منظوری کو روکنے کا مطلب سرکاری دفاتر میں کام بندکرنا اور دہشت گردی کے خلاف لڑنے والی مسلح افواج کے لئے مسائل بڑھانا ہے۔ کیا دونوں رہنما یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان معاشی مشکلات میں گھرا رہے۔؟