مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین حکومت مخالف صف بندی کرنے کے لئے عید کے بعد آل پارٹیز کانفرنس پر اتفاق ہوا ہے۔ بلاول ہائوس لاہور میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری سے خود ملاقات کی بجائے ن لیگ کے صدر شہباز شریف نے احسن اقبال کی قیادت میں وفد بھیجا جبکہ ملاقات کی تفصیلات سے ذرائع ابلاغ کو آگاہ کرنے کے لئے بلاول بھٹو نے اپنی جگہ پارٹی کے صوبائی صدر قمر الزماں کائرہ کو مشترکہ پریس کانفرنس میں بیٹھنے کی ہدایت کی۔ قمر الزماں کائرہ اور احسن اقبال نے ذرائع کے نمائندوں کو بتایا کہ ملاقات میں دو طرفہ سیاسی روابط تیز کرنے اور جوائنٹ اپوزیشن کمیٹی بنانے پر اتفاق کیا گیا۔ یہ بھی بتایا گیا کہ اپوزیشن حکومت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی پر متفق ہو چکی ہے۔ جمہوری اور آمرانہ طرز سیاست میں سب سے بڑا فرق اپوزیشن کی موجودگی ہے۔ اپوزیشن نہ ہو تو سیاسی نظام کی شکل جمہوری نہیں رہتی۔ اپوزیشن نے تاریخی طور پر برطانوی پارلیمنٹ اور پھر امریکی کانگرس میں اپنی نشو و نما اور صورت گری کی۔ ترقی پذیر جمہوریتوں میں اپوزیشن کو صرف مخالف ووٹوں کی تعداد کی شکل میں دیکھا جاتا ہے لیکن جہاں جمہوری نظام جڑ پکڑ چکا ہے وہاں اپوزیشن حکومت کی پالیسیوں کا مدبرانہ جائزہ لینے اور حکومت سے بہتر تجاویز فراہم کر کے اپنا کردار منواتی ہے۔ اہل پاکستان کو وقفوں سے سہی لیکن 72سالہ تاریخ میں متعدد بار جمہوری نظام میسر آیا۔ ہر سابقہ حکومت اپنی کارکردگی کو دوسروں سے بہتر قرار دیتی آئی ہے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ کسی اپوزیشن نے خود کو سابق اپوزیشن سے بہتر کارکردگی دکھانے کی دعویدار کے طور پر پیش کیا ہو۔ 2018ء میں تحریک انصاف نے مرکز میں حکومت بنائی۔ اراکین اسمبلی کے حلف اٹھانے اور پھر وزیر اعظم کے انتخاب کے بعد جو تقاریر ایوان میں کی گئیں ان میں جمہوریت کے کئی سنہری اصولوں پر بات کی گئی۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان تعلق کار پر روشنی ڈالی گئی۔ عوامی سطح پر توقع کی جا رہی تھی کہ پہلی بار اقتدار میں آنے والی تحریک انصاف کے پاس چونکہ محض سادہ اکثریت ہے اس لئے متعدد مرتبہ یکے بعد دیگرے اقتدار میں رہنے والی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اپنے پارلیمانی تجربے کی بنیاد پر حکومت کی پالیسیوں پر قابل قدر گرفت کریں گی۔ اس سلسلے میں پارلیمانی کارروائی کی جس قدر روداد گزشتہ دو برسوں کے دووران ذرائع ابلاغ نے فراہم کی اس سے دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کی ایک فعال اور مضبوط متحدہ اپوزیشن تشکیل دینے میں ناکامی دکھائی دی۔ اس دوران ملک کئی طرح کے بحرانوں کا شکار ہوا۔ ملک چلانے کے لئے خزانہ خالی تھا۔ سی پیک منصوبوں کو جاری رکھنا تھا لیکن مسلم لیگ ن چین کے ساتھ معاہدوں کی تفصیلات نئی حکومت کو فراہم کرنے سے انکار کرتی رہی جس پر حکومت کو چین سے نظرثانی کے لئے مہلت لینا پڑی۔ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے ساتھ مذاکرات تھے لیکن اپوزیشن کی جانب سے کوئی خاطر خواہ تجویز سامنے نہ آئی۔ حکومت نے دس ارب درخت لگانے کا منصوبہ شروع کیا۔ ملک کے چاروں صوبوں میں شجر کاری کی ضرورت تھی لیکن اپوزیشن نے صرف بیانات میں درختوں کی تعداد پر تنقید کو وطیرہ بنایا کوئی قابل عمل تجویز یا اصلاحی حکمت عملی نہ دی۔ کورونا کی وبا نے پچھلے 5ماہ سے پورے ملک کو مفلوج کر رکھا ہے۔ کاروبار اور سماجی رابطے تک محدود ہیں۔ اپوزیشن نے اس سنگین صورت حال میں بھی سیاسی تنائو کا بندوبست کرنے کو اہمیت دی۔ اچھی باصلاحیت اور مسائل کو حل کرنے کے لے موزوں تنقید پیش کرنے والی اپوزیشن نشوو نما نہیں پا سکی۔ گزشتہ برس جمعیت علمائے اسلام نے حکومت کے خلاف ایک مارچ کیا اور بعدازاں اسلام آباد میں دھرنا دیا۔ مولانا فضل الرحمن نے دوبار آل پارٹیز کانفرنس طلب کیں جن میں ان کا زور حکومت کو ہٹانے پر رہا۔ پیپلز پارٹی بھی گزشتہ دو برسوں کے دوران متعدد مرتبہ اے پی سی منعقد کر چکی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام نے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے قائدین سے الگ الگ کئی ملاقاتیں کیں۔ اکثر دیکھنے میں یہ آتا ہے کہ ان تینوں جماعتوں کے قائدین کو جب نیب یا کسی دوسرے ادارے کی طرف سے ماضی کے معاملات پر طلب کیا جاتا ہے تو وہ جماعت حکومت کے خلاف متحرک ہو جاتی ہے۔ ملک میں مہنگائی بڑھی ہے لیکن اپوزیشن جماعتیں اس کی بنیاد پر حکومت کے خلاف صف بندی نہیں کر سکیں۔ بظاہر اپوزیشن جماعتوں کے مابین اب تک کسی سیاسی اور قومی ایجنڈے پر اتفاق نہیں ہو سکا۔ پیپلز پارٹی چاہتی ہے اپوزیشن کی تحریک بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں شروع ہو۔ مولانا فضل الرحمن ہو سکتا ہے اس شرط کو مان لیں لیکن مسلم لیگ ن کے لئے یہ تسلیم کر لینا ناممکن دکھائی دیتاہے۔ خصوصاً جب اسے اب بھی پارلیمنٹ میں تحریک انصاف کے بعد سب سے بڑی جماعت ہونے کا احساس ہے۔ بلاول بھٹو زرداری چند روز پہلے لاہور اور کراچی سے مختلف رہنمائوں سے رابطے کرتے رہے ہیں۔ ایک مرحلے پر وہ مسلم لیگ ن سے مایوس بھی نظر آئے۔ ان رابطوں اور میل ملاقات سے بلاول بھٹو کی سیاسی سرگرمیوں میں دلچسپی تو ظاہر ہوتی ہے لیکن یہ سلسلہ کسی نتیجہ خیز کثیر الجماعتی کانفرنس اور اس کانفرنس کے بعد حکومت کو ہٹانے کی تحریک تک پہنچتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اپوزیشن جماعتوں نے اپنے ایجنڈے میں ابھی تک عوامی مسائل کو جگہ نہیں دی۔جب تک عوام کسی سیاسی مقصد کی تائید نہ کریں کوئی اے پی سی نتیجہ خیز نہیں ہو سکتی نہ حکومت کو ہٹایا جا سکتا ہے۔