پیچھے چلے جایئے کیلنڈر کے اوراق پلٹتے رہیں 1974-75ء کی بات ہے ،وزارت عظمیٰ پرایک وجیہہ اور متاثر کن شخصیت کا مالک ذیڈ اے بھٹو براجمان ہے ،ملک میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ،مقام منڈی یزمان کا ہے جہاںپیپلز پارٹی بہاولپور کا اجلاس ہورہا ہے پارٹی سربراہ کی حیثیت سے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اجلاس کی صدارت کررہے ہیں ،مقامی رہنما باری باری خطاب کررہے ہیں کسی بات پر بحث ہورہی ہے ،آوازیں اونچی ہوتی جارہی ہیں،پیشانیوں پر بل پڑ رہے ہیںلہجوں میںتندی آرہی ہے اور نوبت الزام تراشیوں تک کی آگئی ہے اجلاس میں شریک پارٹی رہنما عام عوام میں سے ہیں جن کی مجالس کے اپنے ہی آداب ہوتے ہیں، بات بڑھی تو ایک دوسرے کو سخت سست بھی کہا جانے لگا صورت حال مضحکہ خیز سی ہوگئی وزیر اعظم اور پارٹی رہنما زیڈ اے بھٹو صاحب خاموشی سے سب سن رہے ہیں اور دیکھ رہے ہیں اچانک ان کی نظر اپنے نیول اتاشی عبدالقادرر حئی پر پڑتی ہے جن کے ہونٹوں پر تحقیر آمیز سی مسکراہٹ رقصاں ہے اجلاس ختم ہوتا ہے اور چند منٹ بعد حیران پریشان نیول اتاشی وزیر اعلیٰ حنیف رامے کے پاس پہنچتے ہیں اور کہتے ہیں ’’سر! میری تو چھٹی ہوگئی ہے‘‘ یہ اطلاع وہاں موجود سب لوگوں کے لئے حیران کن ہے کہ ایسا کیا ہو گیا، عبدالقادر حئی توشائستہ،مہذب اور خوش اخلاق افسروں میں سے ہیں اور کافی ہر دلعزیزبھی ہیں کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ اچانک ہوا کیا ابھی کچھ دیر پہلے تک تو نیول اتاشی وزیر اعظم کے ساتھ تھے رامے صاحب فورا اٹھ کروزیر اعظم صاحب کے پاس اندر کمرے میںجاتے ہیں اور چندہی سیکنڈوں میں واپس آجاتے ہیں عبدالقادر حئی سمیت سب کی نظریں ان کی طر ف اٹھتی ہیں سب ہی جاننا چاہتے ہیں کہ ایسا کیا ہوا،رامے صاحب کے چہرے پر گہری سنجیدگی ہے وہ حئی صاحب سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں ’’جب پارٹی رہنما بحث کر رہے تھے تو آپکے لبوں پران کے لئے تحقیرآمیز سی مسکراہٹ تھی اتفاق سے بھٹو صاحب نے اسکا نوٹس کیا ان کا کہنا ہے کہ میرے اسٹاف میں کوئی ایسا نہیں ہونا چاہئے جو کم پڑھے لکھے یا ان پڑھ کارکنوں کو حقیر سمجھے ہمیں یہ عزت ان غریبوں کی وجہ سے ہی ملی ہے ہمیں ان کا احسان مندرہنا چاہئے، یہی آپکا جرم ہے ‘‘۔ یہ 2007ء کی بات ہے ان دنوں میں ایک نیوز چینل سے وابستہ تھا،ملک میںپرویز مشرف کا مارشل لاء تھا بے نظیر بھٹوآٹھ برس بعد اپنی جلاوطنی ختم کرکے کراچی پہنچ رہی تھیں شہر کا عالم یہ تھا کہ جگہ جگہ پیپلز پارٹی کا پارٹی ترانہ ’’دلاں تیر بجاہلے ‘‘ جیالوں کے جذبات کو مہمیز دے رہا تھا پیپلز پارٹی جیالوں کو متحرک کرنے میں کامیاب رہی تھی،شارع فیصل پر لوگ ہی لوگ تھے پارٹی پرچم کا لباس پہنے ،پارٹی پرچم لہراتے ہوئے گاتے ہوئے جئے بھٹو کے نعرے لگاتے سب کراچی ہوائی اڈے کی طرف چلے جارہے تھے ان میں ڈیفنس کلفٹن والوںکی لینڈ کروزریں بھی تھیں اورلیاری والوں کی گدھا گاڑیاں بھی یوں لگ رہا تھا ہوائی اڈے پر کوئی مقناطیس ہے جو کراچی والوں کو کھینچ رہا ہے۔ بینظیر بھٹو آنکھوں میں تشکر کے اشک لئے وطن واپس پہنچیں اور پھر ’’بھٹو کی بیٹی بے نظیر ،وزیر اعظم بے نظیر ‘‘ کے فلک شگاف نعروں میں بلا شبہ لاکھوں افرادکے ساتھ بلاول ہاؤس کی طرف بڑھنے لگیں بینظیر بھٹو ایک بلٹ پروف ٹرک پر تھیں جسے ان کے جانثاروں نے حفاظتی حصار میں لے رکھا تھا ان کی پی کیپس اور ٹی شرٹ پربھی جانثار لکھا ہوا تھا دہشت گردی کا خطرہ تھا جانثار الرٹ تھے جلوس ائیر پورٹ سے کارساز کے مقام تک پہنچا کہ یکے بعد دیگرے دو دھماکے ہوئے دھماکوں کی آواز دبی دبی سی تھی لیکن تھوڑی دیر کے لئے جیسے زمین لرز گئی ہو مجھے کرائم رپورٹنگ کرتے ہوئے کئی سال ہوچکے تھے میں سمجھ گیا کہ یہ آتش بازی کے دھماکے نہیں میں اس طرف بھاگا جہاں سے آواز آئی تھی وہاں سے لوگ حواس باختہ انداز میں پلٹ رہے تھے جو گاڑیاں مڑ سکتی تھیں مڑ رہی تھیں یہ قیامت کا سا منظر تھا بی بی دوسرے ہی دن صبح سویرے زخمی جیالوں کی خبرگیری کے لئے ہسپتال پہنچ گئیں بھٹو خاندان کا یہی انداز اسے عوام سے جوڑے رکھتا تھا لیکن افسوس کہ یہ جوڑ اب ٹوٹ چکا ہے ،عوام میں اور اس خاندان میں فاصلے بڑھ چکے ہیں اور ان بڑھتے ہوئے فاصلوں نے وفاق کی نشانی کہلائے جانے والی پارٹی کو صادق آباد او ر حب چوکی سے ادھر سندھ تک بلکہ سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود کردیا ہے ۔ اس بچی کھچی پیپلز پارٹی کے لئے سب سے بڑا خطرہ اسکی اپنی سندھ حکومت کی کارکردگی بن چکی ہے بھٹو مرحوم کہا کرتے تھے اگر لیاری سے پیپلز پارٹی ہارجائے تو سمجھ لینا وہ ختم ہوگئی تین سال پہلے لیاری والوں نے بلاول بھٹو کی ریلی پر پتھراؤ کرکے اس انہونی کو ہونی کر دیا تھا رہی سہی کسر سندھ حکومت پوری کررہی ہے نیو یارک ٹائمز نے بھٹو مرحوم کی برسی سے چند رو زپہلے ہی لاڑکانہ کے حوالے سے ’’شہرجو بچے گنوارہا ہے ‘‘ کے عنوان سے رونگٹے کھڑے کردینی والی اسٹوری شائع کی ہے رپورٹ کے مطابق رتو ڈیروکے 1132بچے ایچ آئی وی کا شکار ہیں اس خوفناک صورتحال پراگر مگر کے بغیرکسی بھی کارروائی کا آغاز سندھ کی وزیر صحت کو گھر بھیجنے سے ہونا چاہئے تھا لیکن بلاول بھٹو کے لئے اپنی پھپھو عذرا پیچوہو کو گھر بھیجنا ممکن نہیں ،نیویار ک ٹائمز کی اس ’’سازش‘‘ کو اک طرف رکھیں اور سندھ کی سرکاری ایمبولینسوں کا حال ہی دیکھ لیں 487میں سے 150 ایمبولینسیںناکارہ ہیں جبکہ دو برس پہلے 580 میں سے 148خراب تھیں یعنی دو برسوں کے دوران ڈیڑھ سو خراب ایمبولینسوں میں سے ٹھیک کیا ہونی تھیں مزید دو خراب ہو گئیں،بھٹو کے شہر میں لوگ گدھا گاڑیوں اور رکشوں پر اپنے پیاروں کی لاشیں لے کر جانے پر مجبوبر ہیں جو حکومت دو برسوں میں دو ایمبولینسیں ٹھیک نہ کراسکے وہ عوام کو کیا ریلیف دے رہی ہوگی سوچتا ہوں آج بھٹو زندہ ہوتے تو انہیں ہارٹ اٹیک ہوچکا ہوتا اچھا ہی ہے کہ بھٹو زندہ نہیں!