مکرمی !وزیراعظم عمران خان کے جنرل اسمبلی میں خطاب نے ساری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا۔ ہر باشعور اور سمجھدار آدمی نے عمران خان کی تقریر کو بہت سراہا ہے حتی کہ ہندوستان سے بھی چند اہل عقل لوگوں نے عمران خان کی باتوں سے سوشل میڈیا کے ذریعے اتفاق کیا۔ مگر پاکستان میں ایک ایسا طبقہ موجود ہے جو عمران خان کی ہر ادا ہر بات اور ہر فعل سے اختلاف کرتا ہے۔ اتفاق یا اختلاف کرنا سب کا جمہوری حق ہے کسی کو روکا نہیں جا سکتا مگر ایک سوال بڑا اہم ہے جو کچھ لوگوں کی طرف سے اٹھایا جا رہا ہے۔ کہ اچھی تقریروں سے کیا ہوتا ہے اس سوال کا تاریخی اعتبار سے مطالعہ کرتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں اچھی تقریر سے کوئی فائدہ بھی ہوا کہ نہیں۔ ہماری تاریخ میں 29 دسمبر 1930 ء کو خطبہ الہ آباد میں علامہ اقبال کی تقریر کو بہت اہمیت حاصل ہے یہی وہ اچھی تقریر تھی جس نے نظریہ پاکستان کی بنیاد رکھی۔ پھر قائداعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947 ء کی تقریر بہت اہمیت کی حامل ہے ، جس میں انہوں نے مذہبی آزادی ، قانون کی بالادستی ، اقلیتوں کا تحفظ اور ریاست پاکستان میں رہنے والے تمام افراد برابر ہونگے۔ اسی تقریر نے آئین پاکستان کی بنیاد رکھی اور اس تقریر کو آج ہمارے دستور میں عملی جامہ پہنایا گیا۔ اچھی تقریر ایک بہترین دستور کی بنیاد رکھتی ہے۔ وزیراعظم کی تقریر نے نظریہ کشمیر کی بنیاد رکھی ، اسلاموفوبیا سے نمٹنے کیلئے آواز بلند کی اور توہین رسالت کی روک تھام کیلئے عالمی قانون بنانے کی بنیاد ڈال دی۔ بہت جلد قانون بنانے کا مطالبہ بھی سامنے آئے گا۔ بہرحال کوئی کچھ بھی کہے اچھی تقریریں اپنا اثر رکھتی ہیں۔ اور سہی وقت پر اپنی اہمیت اجاگر کر دیتی ہیں۔ (حافظ وارث علی رانا ، شیخوپورہ)