وضعداری نہ تکلف نہ لطافت سمجھا دل کم فہم مروت کو محبت سمجھا قند میں لپٹا ہوا زہر تھا سب راز و نیاز میں کہ محروم وفا اس کو عنایت سمجھا اور پھر یہ بھی کہ ’’ یہ مراا سحر سخن ہے کہ ترا رنگ طلسم۔ ورنہ یاں کون صداقت کو صداقت سمجھا۔ دل یہی چاہتا ہے سخن میں مگن ہو کر خود کلامی کی جائے مگر کیا کریں شور باہر کا کم نہیں ہوتا‘ بات اندر کی کیا سنائی دے۔ مگر اسی ہنگام میں کوئی پوسٹ یا کوئی ویڈیو نہال بھی کر جاتی ہے۔ قدرت کا کرشمہ ہے کہ ذہانت و فطانت بکھری پڑی ہے۔ تخلیق اور اختراع کسی کی جاگیر نہیں۔ میں تو اس حوالے سے لطف اندوز ہی نہیں ہوتا بلکہ ہنر کار کو داد بھی دیتا ہوں۔ یہی زندگی کی ناہمواریاں اور تضادات ہیں جو سرخوشی کا باعث بنتے ہیں۔ میں ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا کہ جس میں ایک شخص دکانداروں سے چیزوں کے بھائو پوچھتا ہے اور ہر مرتبہ جواب میں یا بیک گرائونڈ میں عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کی دردناک آواز ہے مثلاً وہ پٹرول والے سے پوچھتا ہے ریٹ کیا ہے جواب میں پٹرول والا کہتا ہے 124 روپے۔ یہاں عطا اللہ کی مکسنگ ہے ’تجھے مان گئے سرکار اچھے دن آئے ہیں، وہ پوچھتا ہے پنکھا بند کیوں پڑا ہے۔ جواب پر پھر وہی گانا۔ طویل ویڈیو کے بعد سب کہتے ہیں ، سانوں اچھے دیہاڑے نہیں چاہئیں بلکہ وہی پرانے دن۔ دعا بہار کی مانگی تو اتنے پھول کھلے کہیں جگہ نہ رہی میرے اشیانے کو ہم تو امید بہار میں شجر کے ساتھ پیوستہ و وابستہ رہے مگر امکان بھی معدوم ہوتے جا رہے ہیں۔۔ ادارے برباد ہو گئے اور وہ کام نہیں کر رہے۔ وزیراعظم کا کہنا ہے کہ سڑکوں کے دعویدار پچھلی حکومت والے ہیں جبکہ ہم نے ان سے تین گنا زیادہ سڑکیں بنائی ہیں۔ وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ سڑکیں بنانے سے ملک کی ترقی نہیں ہوتی۔ کیا کہیں ہم تو بہت پرامید تھے اور دل و جان سے تبدیلی کی راہ دیکھ رہے تھے, ہم تیرے زیر اثر ٹوٹ گئے مرغ تخیل کے پر ٹوٹ گئے ایک جنگل میں چلی تیز ہوا اور پھر سارے شجر ٹوٹ گئے میں کل میں ایک غریب مستری کو ملنے گیا کہ کسی نے بتایا کہ عباس کا آپریشن ہوا ہے۔ میں نے اپنے مستری کے گھر گیا جو کسی زمانے میں مکان بناتے وقت میرا چوکیدار بھی تھا ۔ برس ہا برس کے بعد اسے دیکھا۔ وہ ہسپتال سے واپس آیا تھا۔ یہ لوگ بہت پیارے اور مہمان نواز ہوتے ہیں، سارے گھر والے اکٹھے ہو گئے، حال احوال پوچھا تو کہنے لگا شاہ صاحب میرا اور بچوں کا کمایا سب بیماری پر اٹھ گیا۔ کہنے کو سرکاری ہسپتال ہیں، سرکاری علاج اور سفارش بھی الگ ،مگر ستر ہزار میرے خرچ ہوگئے پھر وہ ایک ایک چیز بتانے لگا ۔ یہ جو ہاتھوں سے کام کرتے ہیں مانگتے بھی نہیں‘ مدد بھی جلدی قبول نہیں کرتے۔ آپ یقین مانیے بہت برا حال ہے۔ ابھی کل میری بیگم نے آن لائن کسی مفلوک الحال بیمار کو پیسے بھجوائے جس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور سرکار کے پاس علاج کی گنجائش نہیں۔ صحت کارڈ کا سنتے ہی ہیں جس وزیر کو بھی سنو وہ اربوں سے کم فنڈز کی بات نہیں کرتا۔ ایک زمانے میں ٹائیگر فورس بھی تھی، سب آنکھوں سے اوجھل ہیں۔ ہماری کیا دشمنی۔ ہم تو دل و جان سے خان صاحب کے ساتھ رہے کہ وہ نہ صرف خود بد دیانت نہیں بلکہ بددیانت حواریوں کو بھی نہیں چھوڑیں گے۔ میری باتوں میں جو تلخی ہے کسی رنج سے ہے مجھ کو آتا نہیں جگنو کو ستارا لکھنا ابھی میں سید خالد عبدالقادر گیلانی کا بیان پڑھ رہا تھا۔ یہ بات انہوں نے فیصل آباد میں درد و سلام کی محفل میں کہی کہ دنیا کے فائدے چھوڑیئے اور حضرت محمدؐ کی غلامی اختیار کیجئے۔ آپ دین جہان کے فلسفے بیان کرلیں۔ فوذ و فلاح کا راستہ یہی ہے کہ آقا کی سیرت اپنائی جائے۔ خدا کا وعدہ ہے کہ وہ مومن کی آنکھ بن جاتا ہے۔ اللہ حکمت و تدبر عطا کرتا ہے۔ میں قرون اولیٰ کی بات نہیں کر رہا۔ زندہ معجزہ طالبان کا اپنے وطن پر تزک و احتشام سے آناہے۔ دنیا دیکھے گی کہ یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔ ہم تو اچھے دنوں کی آس میں بوڑھے ہو گئے۔ ہر نجات دہندہ کچھ اور زنجیریں پہنا دیتا ہے۔ ہر طبقے کے اپنے مفادات اور اپنے تحفظات ہیں۔ اپنے ملک کے لیے کوئی نہیں سوچتا۔ کیا کریں دل دکھتاہے۔ اتنے بے باک ہوئے ہیںکہ اللہ کا خوف بھی نہیں: اک کرب ہے آنکھوں میں اک درد ہے سینے میں کیا رمز ہے مرنے میں کیا راز ہے جینے میں