قومی پریس ذمہ دار ہے اور محب وطن بھی؛ چنانچہ حب الوطنی کے منافی خبریں خود ہی سنسر کر دیتا ہے۔ کسی ایڈوائس کا انتظار نہیں کرتا۔ دو روز پہلے پشاور اور لاہور میں مہنگائی کیخلاف دو جلوس نکلے۔ پشاور میں شہریوں کا مظاہرہ تھا، لاہور میں پراپرٹی کا کاروبار کرنے والوں کا۔ جو کہہ رہے تھے کہ ان کا کاروبار خطرے میں ہے۔ محب وطن میڈیا نے دونوں خبروں کا بائیکاٹ کیا، مطلب بلیک آئوٹ کیا۔ کراچی، پشاور، پنڈی وغیرہ میں کسٹم حکام دکانوں کے دروازے توڑ کر اندر گھس جاتے ہیں اور سامان اٹھا لے جاتے ہیں۔ اس پر دکانداروں نے ٹولیوں کی شکل میں نعرے بازی کی۔ ظاہر ہے یہ خبر بھی حب الوطنی کے منافی تھی، ردی کی ٹوکری میں گئی۔ فیصل آباد میں ایمبرائڈری کی صنعت کا انتقال پرملال ہو گیا، 2لاکھ مزدور بے روزگار ہو گئے۔ یہ خبر بھی وہیں گئی جہاں جانے کی مستحق تھی۔ ٹیکسٹائل پراسیسنگ ملز نے کاروبار بند کرنے کا اعلان کیا، یہ خبر بھی مناسب کیفر کردار کو پہنچی۔ پاورلومز کا قصہ پاک ہوا۔ ٭٭٭٭٭ انسان کی طرح میڈیا بھی بہرحال خطا کا پتلا ہے۔ غلطی ہو ہی جاتی ہے چنانچہ ایک اخبار نے اسلام آباد اور راولپنڈی کا سروے کرایا۔ کرایا سو کرایا، غلطی یہ کی کہ چھاپ بھی ڈالا۔ سرخیوں میں سے چند ایک یہ ہیں: ’’جڑواں شہروں میں کاروبار 50فیصد کم، میلوڈی فوڈ سٹریٹ ویران ہو گئی۔ عام شہریوں نے ماہانہ راشن میں کٹوتی کر دی۔ راشن میں کٹوتی کی تشریح رات گئے حفیظ شیخ ایک چینل پر کر رہے تھے۔ یہ کہ جو گھرانہ اوسطاً 30،40ہزار ماہانہ کماتا ہے، اسے 60ہزار روپے کے ٹیکس دینا ہونگے، گویا اس رقم کے مساوی راشن بندی کرنا ہو گی، حساب لگائیے اگلے برس تک کتنے والدین اپنے بچوں کی تعلیم جاری رکھنے کے قابل ہوں گے؟ یعنی خبر سے سارے ملک میں تعلیم کا وہی حال ہو جائے گا جو پانچ چھ برسوں میں پختونخوا کا ہوا۔ وہاں کے سرکاری اعداد وشمار دیکھ لیجئے، یہ مت کھوجئے کہ کتنے سکول بند ہوں گے یہ سراغ لگائیے کہ کتنے ابھی تک بند نہیں ہوئے۔ حفیظ شیخ کا مطلب ایک سطر میں یہ ہے کہ مہنگائی کے علاوہ ہراوسط گھرانے کو اتنی رقم سے ٹیکسوں کی صورت میں ہاتھ دھونا پڑے اور خان صاحب کے ذہن میں جو ’’قربانی ٹیکس‘‘ ہے،وہ تو ابھی لگا ہی کہاں ہے۔ 50فیصد کا کاروبار کم۔ یہ مثالی کامیابی ہے۔ کسی بھی حکمران نے صرف دس ماہ میں آدھا ہدف حاصل کر لیا ہو، کبھی سنا نہ دیکھا۔ پانچ سال حکومت کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ سارا ہدف تو دو ہی برس میں کھڑک جائے گا۔ ادھر مہربانوں کے دلبند چودھری نثار نے فرمایا ہے حالات کے ذمہ دار وہ ہیں جنہوں نے کار ڈرائیور کو جہاز کا پائلٹ بنا دیا۔ جناب چودھری صاحب محاورہ رکشہ ڈرائیور کا ہے، آپ نے تعلقات کا پاس رکھتے ہوئے اسے کار ڈرائیور کا گریڈ دے دیا۔ ویسے حالات سے آپ کی مراد کیا ہے؟ یہ وہ تو بہت اچھے جا رہے ہیں، سب خوش ہیں۔ سب کے لفظ میں ’’سب‘‘ شامل ہیں سوا ئے عوام کے اور عوام کا تو پتہ ہی ہے، وہ اس ملک کے کسی بھی بہی کھاتے میں شامل نہیں۔ ان کی جان پر بنی ہو تب بھی خان صاحب فرماتے ہیں، قربانی دینا ہو گی۔ ٭٭٭٭٭ حالات کا اچھا ہونے میں کوئی شک ہی نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔ پاکستان نے امارات کے بنکوں سے 375ملین ڈالر کے سنڈیکیٹڈ قرضے کے معاہدے پر دستخط کر رہے ہیں۔ یہ سنڈی کیٹڈ قرضہ کیا ہوتا ہے، کیا پتہ۔ خیر یہ حالات کے اچھا ہونے کی نشانی ہے کہ ہم جس سے بھی مانگتے ہیں، وہ ناں نہیں کرتا۔ اسے کہتے ہیں بات تو اعتماد کی ہے۔ اتنا اطمینان ہے کہ کرپشن نہیں ہوئی۔ کرپشن کے ثبوت ہوتے ہیں۔ ہوائی اڈے، موٹرویز، ہائی ویز، انرجی پلانٹ، ہسپتال، تعلیمی ادارے۔ یہ جتنے زیادہ ہوں گے سمجھ لیجیے اتنی ہی کرپشن ہوئی اور خدا کا فضل دیکھئے، ہماری ایماندار حکومت کے دامن پر ایک اینٹ بھر کے منصوبے کا داغ بھی نہیں۔ کرپشن تو بالکل نہیں ہوئی، یہ کھلا راز ہے۔ پھر اتنے ڈالر گئے کہاں، یہ چھپا راز ہے۔ ٭٭٭٭٭ ہاں، تعمیراتی منصوبوں کے حوالے سے یاد آیا، کل بھی نماز کے بعد سیڑھیوں پر ایک صاحب ملے، پوچھا ڈیم کہاں ہے؟ جو اب میں دائیں سر ہلا دیا۔ پھر پوچھا، وہ ڈیم والا کہاں ہے، ہم نے بائیں سر ہلا دیا۔ پس منظر میں وہی دھن گونجتی رہی، ڈیم بنے گا وقت سے پہلے۔ بجٹ میں البتہ دھیلا بھی نہیں رکھا۔