پاکستان کی تاریخ میں اگر ضیاء الحق کا دس سالہ زرّیں دور نہ ہوتا تو یہ ملک اخلاق باختہ دانشوروں کا اکھاڑہ بن چکا ہوتا۔ وہ دانشور جن کے دلوں میں پرویز مشرف کی آمریت روشن ستارے کی طرح ٹمٹماتی ہے لیکن وہ ضیاء الحق کے دور کو تاریک رات سے تشبیہ دیتے ہیں۔ یہ ’’تاریک رات‘‘ ایک ایسے پر اطمینان اخلاقی ماحول کی علامت تھی، جس میں کسی باپ، ماں، بھائی یا بہن کو ٹیلی ویژن لگاتے ہوئی یہ خوف نہیں ہوتا تھا کہ اچانک خبرنامے کے اندر کسی فلم کے آیٹم گانے کی ریلیز کی خبر نشر ہوتے ساتھ ہی ایک نیم برہنہ اداکارہ کا رقص دکھائی دینے لگے گا۔ یہ ’’عظیم سہولت‘‘ تو امریکہ اور یورپ کے نیوز چینلوں پر بھی میسر نہیں۔ وہاں بھی آپ بے دھڑک ہو کر اگر کوئی نیوز چینل لگائیں اور اگر وہاں کسی بڑی شخصیت کی ساحل سمندر پر خفیہ تصاویر کی خبر بھی نشرہو رہی ہوگی تو تصویروں کو دھندلا کر دیا گیا ہوگا۔ ضیاء الحق کے دور میں رات آٹھ بجے کا ڈرامہ دیکھتے ہوئے بھی کسی کو یہ دھڑکا نہیں لگا ہوتا تھا کہ، ابھی ایک شادی شدہ مرد یا عورت خفیہ رومانوی پگڈنڈیوں پر چل نکلیں گے، بہنوئی اپنی سالی سے عشق کی پینگیں بڑھانے لگے گا یا چچا اپنی کمسن بھتیجی اور ماموں اپنی معصوم بھانجی کو دامِ فریب میں گرفتار کر رہا ہو گا۔ ہر کوئی سکونِ قلب ساتھ ایک ساتھ بیٹھ کر ڈرامے دیکھا کرتا تھا۔ پاکستان میں ٹیلی ویژن چینلوں کی تاریخ سے اگر ضیاء الحق کے دور کو نکال دیا جائے تو پیچھے جو باقی بچتا ہے سب کوڑ کباڑ ہے۔ آسمانِ ڈرامہ کا کونسا ستارہ ہے جو اس دور میں اپنی تحریروں کے ساتھ ٹیلی ویژن سکرین پر نہیں جگمگا رہا تھا۔ اشفاق احمد، بانوقدسیہ، امجد اسلام امجد، نور الہدیٰ شاہ، عطا الحق قاسمی، حسینہ معین، فاطمہ ثریا بجیا، انور مقصود، اصغر ندیم سید، ڈاکٹر انور سجاد، عبدالقادر جونیجو، یہ ان میں سے چند نام ہیں جن کے بغیر پاکستانی ڈرامے کی تاریخ ادھوری اور نامکمل ہی نہیں، سرے سے وجود ہی نہیں رکھتی۔ یہ تمام کے تمام صاحبانِ طرز ادیب بھی تھے اور ان کی معاشرے میںالگ شناخت بھی تھی۔ ٹی وی ڈرامہ کی پروڈکشن ٹیم سے متعلق بھی ہر بڑا نام اس دور کی عطا ہے۔ مشاعروں کی عظیم روایت، میلاد کی پرتعظیم محافل کا سلسلہ، خوش الحانی سے قرآن پاک کی تلاوت والے قراء حضرات۔ اس دور میں لوگوں کو سحری یا افطاری کے وقت کسی ایسی خاتون کو مذہبی پروگرام کرتے دیکھ کر حیرت نہیں ہوتی تھی، جسے ڈھنگ سے بسم اللہ بھی پڑھنا نہ آتی ہو اور جسے چند دن پہلے کسی شو میں رقص کرتے ہوئے دیکھا گیا ہو۔ ضیاء الحق، دراصل پاکستان کی تاریخ میں اخلاق باختہ نشریاتی گٹر کے سامنے بہت بڑا بند تھا۔ ایک ایسا خوشگوار سحر جس کا اثر اپنے سے بعد میں آنے والی جمہوری حکومتوں کے اکیس سالوں تک قائم رہا۔ نواز شریف ہو یا بے نظیر کسی نے بھی پاکستانی میڈیا کے ماحول کو فرمائشی طور پر آلودہ کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ عوام کیا چاہتے ہیں۔ انہیں یہ ’’دبی ہوئی جنسی خواہشات‘‘ والے دانشور اور قلم کار متاثر نہیں کر سکتے تھے۔ یہ وہ ہیں جن کے بارے میں عظیم نفسیات دان فرائڈ نے کہا تھا کہ ایسی تحریریں لکھنے والے کچلی ہوئی جنسی خواہشات کے ادبی اظہار کی علامت ہوتے ہیں۔ وہ انہیںکھسکا ہوا کہتا تھا۔ یہ کہتے ہیں کہ ہم وہی لکھ یا دکھا رہے ہیںجو عوام چاہتے ہیں۔ لیکن بے نظیر، نوازشریف اور ان کے تمام جمہوری ساتھی بخوبی جانتے تھے کہ اس ملک کے عوام کیا دیکھنا اور سننا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دور میں بھی ان کھسکے ہوئے کازور نہ چل سکا۔ یہ تمام ’’جنس زدہ‘‘ بے راہ رو اپنی اخلاق باختہ تحریروں اور ڈراموں کے ساتھ پرویز مشرف کی بدترین اور تاریک ترین آمریت میں اس ملک پر ایک ایسے سیاہ بادل کی طرح چھائے کہ آج تک میرا ملک ان کا یرغمال ہے۔ گذشتہ بیس سالوں سے یہ اپنی ’’ڈرامائی غلاظت‘‘ دفاع کرتے ہوئے یہ کہتے تھے کہ ہم وہ کچھ دکھاتے ہیں جو عوام دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن صرف ایک ڈرامے ’’ارطغرل‘‘ کی مقبولیت نے ان کے منہ پر وہ زناٹے دار طمانچہ رسید کیا ہے کہ اس دن سے ان کا چہرہ لقوہ زدہ نظر آرہا ہے۔پرویز مشرف کے زمانے سے جنم لینے والے اس اخلاق باختگی کے ہیجان کا اب یہ عالم آگیا ہے کہ گذشتہ دنوں لاہور کے ایک بہت بڑے انگلش میڈیم سکول کی ’’خواتین برانچ‘‘ میں طالبات کی مرد اساتذہ کے ہاتھوں بد ترین جنسی سراسیمگی اور جنسی بلیک میلنگ کا کیس سامنے آیا تو اس وقت والدین پر یہ عقدہ بھی کھلا کہ یہ سکول سادہ لوح والدین کو دھوکہ دے رہا تھا کہ ان کی یہ ایسی برانچ ہے جس میں صرف خواتین ہوتی ہیں۔ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کی ایسی برانچوں کو دنیا بھر میں ’’All Girls‘‘ یا ’’All Women‘‘ تعلیمی ادارے کہا جاتا ہے۔ ان اداروں کے دروازوں پر لکھا ہوتا ہے ’’ یہاں مردوں کا داخلہ ممنوع ہے‘‘۔ لیکن اس سکول میں والدین کو ’’All Girls‘‘ کا بتا کر وہاں مرد اساتذہ بھی رکھے ہوئے تھے۔ پاکستان میں اس وقت قابل، لائق اور تعلیم یافتہ خواتین اساتذہ کی کوئی کمی نہیں ہے۔ لیکن سکول نے والدین کیساتھ ایک ’’اخلاقی معاہدے‘‘ کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے جب وہاں مرد اساتذہ رکھے تو پھر انہوں نے طاعون کے جرثوموں کی طرح سکول کے ماحول کو گندہ اور غلیظ کر دیا۔ اسقدر گندا کیا کہ معصوم بچیاں خود نتائج کی پروا کیے بغیر بلبلا اٹھیں۔ لیکن جب صوبائی وزیر تعلیم مراد راس نے کہا کہ ہم اب لڑکیوں کیلئے قائم مخصوص سکولوں میں مردوں کا داخلہ ممنوع کر دیں گے۔ تو ایک دم ’’سگمنڈ فرائڈ‘‘ کے بقول ’’جنسی طور پر کھسکے ہوئے‘‘ سیکولر دانشور لڑکیوں پر جنسی تشدد اور ہراسمنٹ ایکدم بھول گئے اور اس بات کے دفاع میں لگ گئے کہ ’’All Girls‘‘ سکول میں مردوں کا داخلہ بند نہیں ہونا چاہیے، چیخنے لگے کہ ہم اس فرسودہ اور پسماندہ ماحول کو ملک میں دوبارہ نہیں آنے دیں گے۔ ان کچلی ہوئی جنسی خواہشات امین عظیم دانشوروں کو جا کر کوئی یہ بتائے کہ پوری دنیااس بات پر متفق ہے کہ ایک عورت صرف عورتوں کے ماحول میں جتنا پرسکون رہتی ہے۔ ویسا وہ ہرگز مخلوط ماحول میں نہیں رہ پاتی۔ بے شمار ایسی عام باتیں ہیں جو ماں اپنے بیٹے سے یا بہن اپنے بھائی سے بھی نہیں کرپاتی۔ یورپ اور امریکہ کے تعلیمی اداروں میں بھی لڑکیاں لڑکوں کی موجودگی میں اپنا لباس سنبھال کر بیٹھتی ہیں۔ کشور ناہید جیسی خواتین کے حقوق کی علمبردار ایسی اخلاق باختگی کو حقوق کا نام نہیں دیتی اس کے ہاں تو عالم یہ ہے دیکھ کر جس شخص کو ہنسنا بہت سر کو اس کے سامنے ڈھکنا بہت کہا جاتا ہے مذہب نے شرم، حیاء وغیرہ کو خواہمخواہ صرف اور صرف خواتین سے وابستہ کر دیا گیا ہے۔ حالانکہ اسلام نے تو سب سے پہلے اس شرم کا تقاضا مرد سے کیا اور کہا ’’اپنی آنکھیں نیچی رکھو (القرآن)‘‘۔ مذہب کو ایک جانب رکھیں، انسانی نفسیات کی تاریخ شاہد ہے کہ اللہ نے پیدائشی طور پر حیاء کو عورت کا زیور بنا دیا ہے۔ بچوں کی نفسیات کے ماہر اس بات پر متفق ہیں کہ طوائف کے گھر میں پیدا ہونے والی بچی بھی جب اپنے شروع کے پانچ سالوں (Formative Years) میں ہوتی ہے تو وہ مرد سے زیادہ با حیائ، شرمیلی اور با اخلاق ہوتی ہے۔ آج بھی دنیا بھر میں خواتین اور مردوں کے ٹائلٹ علیحدہ ہیں۔ ان کے ہاسٹل علیحدہ ہیں لیکن میرے ملک کا یہ جنس زدہ دانشور اتنی پابندیوں پر بھی چیخ اٹھا ہے کہ ’’All Girls‘‘ سکول میں مرد داخل نہ ہوں۔ ایسا کوئی واقعہ اگر کسی مولوی کے ہاتھوں ہوا ہوتا تو ٹیلی ویژن چینل والے بریکنگ نیوزبناتے اور اس پر مستقل ٹی وی شوز ہو رہے ہوتے جن میں یہ سارے ’’جنس زدہ‘‘ کھسکے ہوئے بول رہے ہوتے کہ مولویوں کا گھروں میں قرآن پڑھانے پر بھی پابندی لگادو۔ لیکن آج عالم یہ ہے کہ ٹیلی ویژن چینلوں پر یہ سیکولر جنس پرست دانشور مردوں کی آل گرلز اداروں میں داخلے کی حمایت کرکے دراصل جنسی درندگی اور ہراسمنٹ کی حمایت کر رہے ہیں۔