کم از کم میری توقعات کے برعکس مولانا فضل الرحمن پاور فل شو کا کا پہلا مظاہرہ تو کر چکے ہیں۔31اکتوبر کو لکھا جانے والا کالم جب نومبر کی پہلی کو شائع ہو گا تو آزادی مارچ کا یہ قافلہ شہر اقتدار میں پڑائو ڈال چکا ہو گا، ٹی وی چینلوں پر بیٹھے ہوئے تجزیہ نگار مولانا کے اس کاروان آزادی کا تجزیہ ان گنت زاویوں سے کر رہے ہیں۔ آزادی مارچ کے مقاصد حقیقت میں کیا ہیں۔ استعفیٰ تو کسی صورت نہیں لے سکتے پھر مولانا اس ساری کوشش اور سرگرمی سے آخر کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں کیا وہ دھرنا دیں گے؟ دھرنا قلیل ہو گا کہ طویل! پلان اے ناکام ہوا تو پلان بی کیا ہو گا؟کتنے شرکاء مولانا کے ہم قدم ہیں؟ عمران خان کا آزادی مارچ جب لاہور سے روانہ ہوا تھا تو ان کے ساتھ شرکا کی تعداد کیا تھی۔ اگر احتجاج کرنے والوں کی تعداد پچاس ہزار سے ایک لاکھ تک بڑھ گئی تو پھر مولانا کے اس پاور شو کو نظر انداز کرنا مشکل ہو گا۔ مولانا کے دل میں جو بات ہے اس کی خبر ان کے ساتھیوں کو بھی معلوم نہیں۔ یہاں تک کہ آج کے دن تک ان کے ساتھی نہیں جانتے کہ وہ شہر اقتدار میں دھرنا دیں گے یا پھر صرف احتجاج کر کے واپسی کی راہ لیں گے۔ لیکن خبر یہ ہے کہ آزادی مارچ کے احتجاجیوں نے آٹھ دس دن کے خشک میوہ جات اور خشک خوراک کا ذخیرہ اپنے ساتھ رکھ لیا ہے۔ سو میری گنہ گار سماعتیں جو نعرے اس وقت سن رہی ہیں ان میں سرفہرست ہیں۔ مولانا آ رہے ہیں اور مولانا قدم بڑھائو ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ نواز شریف اپنی گوناگوں بیماریوں کے ساتھ بیمار پڑے ہیں ان کے پلیٹ لیٹس کم ہیں۔ زرداری کے پلیٹ لیٹس کی تعداد تو تسلی بخش ہے مگر خون میں شکر کی مقدار بڑھ چکی ہے۔ کمر میں شدید تکلیف ہے ہاتھوں پر رعشہ طاری ہے مختصر یہ کہ ہمارے معروف مقبول لیڈران بیمار پڑے ہیں اور قوم اس بار مولانا کو قدم بڑھانے کا عندیہ دے رہی ہے۔ چونکہ تبدیلی دوشیزہ کے چہرے سے میک اپ اتر چکا ہے اس لئے تبدیلی کا نعرہ لگا کر آنے والے بھی تیزی سے اپنی کشش کھو رہے ہیں۔ قحط الرجال سا قحط الرجال ہے! ستر برسوں میں ہمیں کوئی ڈھنگ کا لیڈر میسر نہ آ سکا سیاستدان تو یہاں بہت ہوئے۔ لوگ کیکر پر انگور چڑھانے کی کوشش میں امیدوں اور توقعات کے خوشے زخماتے رہے۔ عمران خان کی صورت میں لوگوں نے ایک لیڈر کا خاکہ تراشا تھا مگر اس کا حشر بھی وہ ہوا کہ خاکے کے تمام رنگ خاک ہو گئے اور اب صورتحال یہ ہے کہ … وہ جو ایک دنیا بسائی تھی تیرے نام پر کوئی اور تھی یہ جو حسرت درو بام ہے یہ جو زرد رو میری شام ہے کوئی ہے! المیہ مگر یہ ہے کہ اس حکومت کی ٹیم اور اس کے کپتان کو زمینی حقائق کا اندازہ ہی نہیں ہے۔انہیں اندازہ ہی نہیں کہ خلق خدا کس عذاب سے گزر رہی ہے پراسرار مہنگائی اور روپے کی قدر سکڑنے سے غریب کی جیب پر وہ بوجھ پڑا ہے کہ اس کے لئے زندگی بسر کرنا روز بروز مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ کپتان دیانت دار ہے کپتان کو غریب کا احساس بھی ہو گا لیکن اس کی منتخب کردہ ٹیم کے افراد نجانے کون سے سیاروں کی مخلوق ہیں اگلے روز ایک چینل پر پی ٹی آئی پنجاب کی ایک معروف رکن جو کاسماٹالوجسٹ بھی ہیں ان کا نجی انٹرویو تھا۔ میزبان نے کہہ دیا کہ آپ کی حکومت میں مہنگائی بڑھ چکی ہے محترمہ نے دنیا جہان کی حیرانیاں اپنے چہرے پر سجا کر کہا نہیں مہنگائی کہاں ہے؟ میزبان بولا آپ کبھی کسی غریب پاکستانی سے ملی ہیں؟۔ وہ برگر ٹائپ سیاسی کارکن بولی جی بالکل میرا تو بہت تعلق رہا ہے غریبوں سے۔ آپ کو پتہ ہے کہ دھرنے کے دنوں میں جب یہاں لالک چوک پر پاکستان تحریک انصاف کا دھرنا تھا تو میں سڑک پر عام لوگوں کے درمیان پورے تین دن سڑک پر بیٹھی رہی تھی!سرپیٹ لے۔ بندہ ایسی سوچ پر۔ ڈیفنس میں رہنے والے ڈیفنس میں سیاست کرنے اور سوشلائز کرنے والی مخلوق کو کیا خبر‘ ڈبن پورہ کی غریب بستی میں لوگ کس طرح اپنے ہونے کے جرم کی سزا بھگتتے ہیں۔ کیسے ایک پہر کی روٹی کھا کر دوسرے پہر کے لئے پیٹ کے ایندھن کا بندوبست کرنا ان کی زندگی میں سب سے بنیادی اور اہم کام ہوتا ہے۔ ایک وقت کی ہانڈی بنانا ان کے لئے کسی معرکے سے کم نہیں۔ بیماری میں بغیر دوائوں کے تکلیف سہتے سہتے موت کی وادی میں اتر جانا۔ بس یہی ان کی زندگی کی کہانی ہے۔ایسے میں مریخ سے آئی ہوئی ایلیٹ سیاسی مخلوق ساری دنیا کی حیرانیاں سمیٹ کر یہ سوال کرتی ہے کہ مہنگائی کہاں ہے۔ ؟پانچ سال کپتان اور ان کے حواری خواب دکھاتے رہے کہ ان کے پاس ملک کو سنوارنے کا غریب کو غربت سے نکالنے کا پورا پروگرام موجود ہے۔ پولیس ٹھیک کر دیں گے۔تعلیم کا نظام ٹھیک کر دیں گے۔ یہ کر دیں گے۔ وہ کر دیں گے تحریک انصاف غریب کوانصاف دے گی۔ پھر100دن کا پروگرام کپتان نے وزیر اعظم بنتے ہی پہلی تقریر میں لوگوں کے سامنے رکھا۔ لیکن اس سب کا نتیجہ کیا نکلا، وہی امیدوں کے لاشے اور خوابوں کے عذاب۔!منیر نیازی کا ایک شعر ہے جو ہم ستر سالوں سے کالموں میں پڑھتے آ رہے ہیں وہی ایک اور دریا والا۔ مگر میں اسے یہاں تحریف کے ساتھ لکھوں گی۔ مانا کہ شعر بے وزن ہو جائے گا مگر کیا کروں کہ اسی بے وزنی کے ساتھ ہی میں اپنی بات پورے وزن سے کہہ پائوں گی: ایک اور’’سراب‘‘ کا سامنا تھا منیر مجھ کو میں ایک’’ سراب‘‘ کے پار اترا تو میں نے دیکھا سیاست کا کھیل سیاسی تحرکیں ‘ توقعات‘ امیدیں ‘ بھٹو‘ شریف‘ کپتان اور اب مولانا ہم سرابوں سے گزرتے رہے ہیں۔ ہم سرابوں سے گزر رہے ہیں!