پچھلا سال گولیوں، بم دھماکوں، شورشرابوں اور کہیں کہیں خوشیوں کے اڑتے غباروں کے درمیان بیت گیا، ویسے ہی جیسے پچھلے بہت سارے سال بیتے اور اپنے پیچھے سیکھنے، سمجھنے اور سوچنے کے لیے بہت سے سوالات چھوڑ گئے مگر ہم نہیں سوچتے۔ شاید ہم سوچنا بھول چکے ہیں یا سوچنا چاہتے ہی نہیں۔ کیونکہ سوچنا کس قدر تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس لیے بھی کہ سوچتے ہوئے ہمارا سامنا اپنے آپ سے ہوتا ہے۔ ہم اپنے ہی مخاطب ہوتے ہیں۔ شاید کچھ خودکلامی کی صورت ہوتی ہے جو تنہائی مانگتی ہے اور بھرے پرے شہر میں تنہائی کہاں؟ ہم تنہائی کے ڈر سے بھیڑ میں چھپ جاتے ہیں، گم ہو جاتے ہیں۔ بہت پرانا واقعہ ہے۔ شباب کے دن تھے۔ لکھنے لکھانے کا یہ انداز و اسلوب بھی نہ تھا۔ کالم میں بھی افسانہ نگاری کرتا تھا۔ سال بیتا تو ایک کالم ایسا سرزد ہوا کہ گزرے ہوئے سال کو ایک تھکے ماندے، زخمی بوڑھے کی صورت دکھایا اور نئے سال کو ایک شوخ و شنگ نوجوان کے طور پر جس نے ہیٹ پہن رکھا ہے، ہاتھ میں خوبصورت سی چھڑی ہے، سیٹیاں بجاتے اور تھرکتے ہوئے اندر آتا ہے جہاں گزرا ہوا جاتا ہوا بوڑھا سال غمگین و اداس بیٹھا ہے اور نئے سال کے شوخ لڑکے کو دیکھ کر کہتا ہے کہ جب میں بھی گیارہ ماہ قبل آیا تھا تو ایسا ہی شوخ و شنگ اور تروتازہ تھا۔ لیکن میں اب تھک چکا ہوں۔ دنیا میں اب بھی ظلم و ستم ہے، ناانصافیاں اور ناہمواریاں ہیں۔ اب یہ سب کچھ مجھ سے دیکھا نہیں جاتا، برداشت نہیں ہوتا۔ نیا سال یہ سن کر خوشی سے اچھلتا ہے اور ناچتے ہوئے کہتا ہے نہیں اب یہ دنیا بدل جائے گی۔ میں بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کے ہونٹوں کی ہنسی بن جائوں گا، ان کے اندر کے امڈتے ہوئے جذبوں کی آواز ہو جائوں گا۔ میں ہر طرف خوشیاں ہی خوشیاں بکھیر دوں گا۔ گزرے سال کے لبوں پہ یہ سن کر زخمی سی مسکراہٹ جاگ جاتی ہے۔ وہ کہتا ہے بالکل ایسا ہی تھا میں بھی، جب آیا تھا میں۔ مگر اب آہ! کچھ بھی تو نہیں رہا وغیرہ۔ وقت کے ساتھ ساتھ آدمی بدلتا جاتا ہے اور جب آدمی بدلتا ہے تو لکھنے کا اسلوب بھی بدل جاتا ہے۔ اب میں لاکھ چاہوں بھی تو ایسے ہلکے پھلکے شرارتی انداز میں نہیں لکھ سکتا۔ اسلوب شخصیت کا اظہار ہوتا ہے۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ آدمی بدل جائے، اس کے سوچنے اور زندگی کوبرتنے کا انداز بدل جائے اور اسلوب نہ بدلے۔ اسلوب اور اسلوب زندگی ہی آخر آخر کو آدمی کا تابوت بن جاتے ہیں۔ دنیا کے الجھے ہوئے معاملات بھی شاید اسی لیے نہیں سلجھتے کہ یہ ایک خاص اسلوب کا پیکر لیے سامنے آتے ہیں اور ہم انہیں قبول یا رد اپنے مخصوص انداز میں کرتے ہیں۔ ہم چیزوں کو، رویوں کو، معاملات کو بگاڑ دیتے ہیں۔ کیونکہ ہمارا مزاج بنانے سے زیادہ بگاڑنے کا ہے۔ ہم خود بھی بگڑے ہوئے ہیں اور معاملات بھی ہم لوگوں کے ایسے ہی ہیں۔ وقت ہے کہ گزرتا جاتا ہے اور کوئی قابل مشاہدہ تبدیلی آکے نہیں دیتی۔ کیوں؟ شاید اس لیے کہ تبدیلی دبے پائوں آتی ہے۔ اس کا مشاہدہ دوسرے دور بیٹھے کرلیتے ہیں لیکن جو تبدیلی کے عمل سے گزر رہا ہوتا ہے اس کے لیے اپنا مشاہدہ ممکن نہیں ہوجاتا۔ ہمارا ملک بدل رہا ہے، یہ جو اتھل پتھل ہورہا ہے، چیزیں ادھر ادھر، معاملات کا گڈمڈ ہو کر بے چہرہ ہو جانا۔ لیکن آنے والے آٹھ دس برسوں میں یہ بے چہرگی اپنے نقوش متعین اور واضح کرے گی۔ جو جزئیات پر نگاہ رکھتے ہیں وہ سیکھ سکتے ہیں کہ سمت سفر ٹھیک ہے اور اس شوروغوغا میں کچھ نہ کچھ ایسا ضرور ہورہا ہے جو اپنے اندر مثبت نتائج رکھتا ہے۔ جنہیں عجلت ہے، جو جلدی میں ہیں وہ یقینا کسی درجے پر مایوسی کا شکار ہوسکتے ہیں، مایوسی یا جھنجھلاہٹ کا۔ لیکن وہ جو واقعات کے عقب میں اسباب و محرکات کو دیکھ سکتے ہیں، وہ ان میں دخیل غیبی ہاتھ کا بھی مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ انہونی جب ہونی بن جائے اور بہت سے واقعات کا ظہور اچھنبے میں ڈال دے تو سمجھا جا سکتا ہے کہ معاملات غور طلب ہیں، توجہ طلب ہیں۔انسان غور کرتا ہے اور قدرت متوجہ ہوتی ہے۔ توجہ کا ارتکاز اور اس کی طاقت کا اندازہ بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ہپناٹیزم اور مسمریزم کچھ نہیں توجہ کے ارتکاز کے سوا۔ قدرت کی توجہ کسی قوم پر مرتکز ہو جائے تو تقدیر کے بدلنے کا وقت آ جاتا ہے۔ جو کچھ بھی ہے وہ یونہی نہیں ہے۔ گند صاف ہو جائے، قانون کی عمل داری قائم ہو جائے تو آہستہ آہستہ سب کچھ ٹھیک ہوتا جائے گا۔ تاخیر اگر ہے تو اس لیے کہ سب کچھ ہی بگڑا ہوا ہے۔ کوئی شعبہ زندگی کا ایسا نہیں جو محفوظ ہو۔ تخریب اور بگاڑ آسان ہیں مگر تعمیر اور بنائو میں بہت وقت لگتا ہے۔ ایک آدمی اپنے آپ کو بدلنا چاہے تو پہاڑ جیسی قوت ارادی درکار ہوتی ہے۔ کوئی اپنی توجہ سے بدل دے تو بدل دے، خود آدمی کے بس سے یہ باہر ہے اور جب معاملہ قوم و ملک کے بدلنے کا ہو تو سوچیے کتنا وقت لگ سکتا ہے۔ رات کا پچھلا پہر کس قدر تاریک ہوتا ہے کہ ہاتھ کو ہاتھ سمجھائی نہیں دیتا۔ لیکن اسی تاریکی کے بطن سے سحر طلوع ہوتی ہے۔ جن خدائی قوانین سے فطرت اور مظاہر فطرت کام کرتے ہیں وہی قوانین انسان اور انسانی معاشرے پر لاگو ہوتے ہیں۔ ان ہی قوانین میں ایک ارتقا کا قانون ہے۔ معاشرے کی تعمیر اور بنائو بھی ارتقائی عمل سے مشروط ہیں۔ ملک کو ستر برسوں میں برباد کیا گیا ہے تو اپنے ستر یا سو دنوں میں ٹھیک نہیں کیا جا سکتا۔ ہم سب کے سوچنے کا پہلو یہ ہے کہ تبدیلی، تبدیلی کی ہلاشیری سے تبدیلی نہیں آتی۔ فرد کے تبدیل ہونے سے گھر اور خاندان کے بدلنے سے ملک و معاشرہ بھی بدلتا ہے۔ اس عمل میں ہم سب کو اپنا حصہ ڈالنا ہے۔ حکومت اچھی ہو تو سسٹم کوٹھیک کرسکتی ہے۔ گڈگورننس سے عوام کو آسانیاں بہم پہنچا سکتی ہے لیکن عوام کو کون ٹھیک کرے؟ جو جہالت، غفلت اور اپنے رسوم و رواج کے مارے ہوئے ہیں۔ جو جھوٹے خدائوں کو اپنے سر کا تاج بنانے پر مُصر رہتے ہیں جنہیں برے و بھلے کی تمیز نہیں جو روشنی اور تاریکی میں فرق نہیں کرپاتے۔ جو طوق و سلاسل میں جکڑ کر انہیں ہی اپنی تقدیر سمجھے بیٹھے ہیں۔ سب سے بڑی بدنصیبی عوام اور لکھے پڑھوں کی جہالت ہے۔ جہل کچھ نہیں اس کے سوا کہ آدمی نہ جانے اور جان کر بھی نہ مانے لیکن قدرت جب مہربان اور متوجہ ہوتی ہے تو نجات کی کوئی نہ کوئی صورت نکل ہی آتی ہے۔ نجات دہندہ کے بغیر بھی وہ نجات دینا چاہے تو نجات مل سکتی ہے لیکن قانون قدرت یہی ہے کہ سبب سے ہی نتیجہ پیدا ہوتا ہے اور چھوٹے اسباب سے بڑے نتائج پیدا کردینا بھی اسی کے اختیار میں ہے اور پھر اسباب کو پیدا کردینا اس کے لیے بہت معمولی بات ہے اور یہ اسباب الحمدللہ رونما ہورہے ہیں۔ پچھلا برس اور اس جیسے بہت سے پچھلے برس شکست و ریخت اور تخریب و بربادی کے تھے۔ دعا کرنی چاہیے کہ نیا برس جو آیا ہے اور اس جیسے بہت سے نئے سال جو آئیں گے ان میں وہ بیج جو خیر کی صورت میں اللہ کے نیک بندوں نے اس سرزمین میں بوئے تھے، وہ پھل پھول کر اپنے برگ و بار لائیں۔ ایسا نہیں ہے کہ خدا کے نیک اور بھلے بندوں نے اس ملک کی تعمیر و تشکیل کے لیے کوششیں نہیں کیں۔ بہت کوششیں ہوئی ہیں اور ان کوششوں کے ساتھ وہ دعائیں بھی ہیں جو نیم شبی میں آنسوئوں اور ہچکیوں کے ساتھ مانگی گئی ہیں۔ وہ سب کوششیں اور وہ ساری دعائیں خداوند تعالیٰ کے اکائونٹ میں جمع ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ خالق حقیقی جس سے چاہے کام لے لے۔ اس کے آثار نمایاں ہو چکے ہیں، کوئی دیکھ کر بھی نہ دیکھ پائے تو اسے محرومی بصیرت کے سبب اپنی ناقص بصارت کا علاج کرانا چاہیے۔