پنجاب کے خوشاب ضلع میں پیدا ہونے والے سکھ صحافی اور ادیب کی زندگی کا بڑا حصہ بھارت میں گذرا مگر اس کا دل اپنے اس وطن کی محبت میں سرشار جہاں وہ پیدا ہوئے۔ وہ ہوائیں جو پنجاب کے کھیتوں میں الہڑ نار کی مانند چلتی ہیں؛ وہ دوپہریں جو اپنی دھوپ اور آتش میں بذات خود جلتی ہیں اور وہ راتیںجو ستاروں سے سج دھج کر گاؤں کے گھروں کے آنگنوں میں اترتی ہیں؛ وہ ساری رتیں اور ساری محبتیں خشونت سنگھ ساری زندگی نہیں بھلا پایا۔ انسان سب کچھ بھول سکتا ہے مگر اپنا بچپن کیسے بھول سکتا ہے۔ اس لیے ضلع خوشاب کے جس گاؤں’’ہڈالی‘‘ میں اس نے جنم لیا؛ وہاں کی ریتیں اور رسمیں؛ جوانی کے وعدے اور قسمیںبھلانا ممکن نہیں ہوتا۔ اس لیے خشونت سنگھ کو پڑھتے ہوئے مجھے اکثر یہ محسوس ہوتا رہا ہے کہ وہ جسمانی طور پر بھارتی شہروں میں رہے مگر ان کا دل اس پنجاب میں دھڑکتا رہا جو جغرافئیے کے اعتبار سے توبٹ چکا تھا مگر خشونت سنگھ کے روح میں نہیں بٹا۔ خوشاب سے لیکر امرتسر اور لدھیانہ تک وہ اس پنجاب کا عاشق تھا جس کا ذکر کرتے ہوئے وہ اپنے آپ کو پھر سے جوان محسوس کرتا تھا۔ انسان سب کچھ فراموش کرسکتا ہے مگر ماضی کو فراموش کرنا بہت مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔ انسان کا دل بھی درخت کی طرح ہوتا ہے۔ جس طرح درخت پتوں کے بغیر موسم سرما کو گزار سکتا ہے مگر جڑوں کے بغیر وہ کس طرح زندہ رہ سکتا ہے؟ اور اگر آپ کی جڑیں دیہات میں ہوں اور وہ دیہات بھی پنجاب کے ہوں تو پھر بات بالکل ناممکن ہوجاتی ہے۔ وقت بدل جاتا ہے مگر انسان کی یادیں اس کا پیچھا نہیں چھوڑتیں۔ یادوں کی پرچھائیاں انسان کے آس پاس رہتی ہیں۔ اس لیے تو اردو کے انقلابی شاعر ساحر لدھیانوی نے اپنی مشہور نظم میں اس کیفیت کو اس طرح بیان کیا تھا: ’’تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں میں پھول ٹانک رہا ہوں تمہارے جوڑے میں تمہاری آنکھ مسرت سے جھکتی جاتی ہے نہ جانے آج میں کیا بات کہنے والا ہوں زباں خشک ہے آواز رکتی جاتی ہے تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں میرے پلنگ پر بکھری ہوئی کتابوں کو ادائے عجز و کرم سے اٹھا رہی ہو تم سہاگ رات جو ڈھولک پہ گائے جاتے ہیں دبے سروں میں وہی گیت گا رہی ہو تم تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں‘‘ عید کی چھٹیوں کے دنوں کے دوراں جب میں خوشونت سنگھ جی کی کتاب ’’پنجاب؛ پنجابی اور پنجابیت‘‘ کو پڑھتا رہا تو میرے دل کے وہ تار بھی بج اٹھے جو’’ سرکاری ملازمت اور شہری زندگی ‘‘ کے سبب زنگ آلود ہوچکے تھے اور ان تاروں پر بھی وہ گیت گونج اٹھے جو پنجاب کی دھرتی کی بہت خوبصورت دین ہیں۔ وہ گیت جن میں محبت ہے۔ وہ محبت جس میں کوئی مطلب نہیں ہے۔ وہ بے طلب اور بے ساختہ محبت جو اب اس دنیا سے ان دیہاتوں کی طرح ختم ہونے لگی ہے جو دیہات پنجاب کی تاریخ کا سب سے سوہنا باب ہیں۔ خشونت سنگھ کی محبت بھی کچھ ایسی ہے۔ وہ اس محبت کا دیوانہ ہے جو محبت اب بس ایک یاد کی طرح دل میں سلگتی بھی نہیں صرف اس کی راکھ اڑتی ہے۔ اس طرح جس طرح علامہ اقبال نے لکھا تھا: ’’آگ بجھی ہوئی ادھر ؛ ٹوٹی ہوئی طناب ادھر نہ جانے اس مقام سے گزرے ہیں کتنے کارواں‘‘ اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر انسان کی محبت خواہ وہ کسی انسان سے ہو یا اپنے وطن سے؛ اس محبت کا انداز الگ ہوتا ہے۔ محبت تو پھول ہے۔ کیا سارے پھول ایک سے ہوتے ہیں؟ نہیں۔ کبھی نہیں۔ گلاب کے سرخ پھول سے لیکر ببول کے زرد پھولوں تک پھولوں کی کتنی قسمیں ہیں؟ محبت کی قسمیں اس سے زیادہ ہوا کرتی ہیں۔ خشونت سنگھ کی محبت موسم کی طرح سرحدوں سے ماوارا ہے۔ وہ اپنی محبت اپنے مذہب اور اپنے معاشرے سے پیدا ہوتے محسوس کرتا ہے اور جہاں تک سکھ مذہب کا تعلق ہے وہ مذہب تو معاشرتی طور پر جوڑنے کی کوشش تھا۔ خشونت سنگھ خود ایک عملی سکھ نہیں تھا مگر اس کی داڑھی اور اس کا انداز اس کلچر کی علامت تھا جس کلچر کو آج بھی اس پنجاب میں بھی عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے جو پنجاب پاکستان میں ہے۔ اگر پاکستانی پنجاب کے دل میں سکھوں کے لیے محبت نہ ہوتی تو کرتارپور کی راہداری کا فیصلہ نہ ہوتا۔ آج بھی سکھ جب پاکستان میں یاترا کے لیے آتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو اجنبی محسوس نہیں کرتے۔ وہ پنجاب کے کسی بھی بندے کو مخاطب کرکے جس زباں میں بات کرتے ہیں وہ زباںایک ہے۔ اس زباں کے گیت بھی سانجھے ہیں اور اس زباں کی میت بھی سانجھے ہیں۔ اس زباں کے لطیفے بھی ایک جیسے ہیں اور زباں کی گالیاں بھی ان گلیوں جیسی ہیں جس میں ایک پنجابی کبھی بھی بھٹک نہیں سکتا۔ مجھے حیرت ہے کہ سیاست سے لیکر ہر موضوع پر دل کھول کر لکھنے والے خشونت سنگھ نے پنجابی زبان کی ان گالیوں پر کوئی کتاب کیوں نہیں لکھی، جن کو سن کر انسان ناراض ہونے کے بجائے ہنس پڑتا ہے اس ہنسی کے سبب سارے گلے شکوے دور ہوجاتے ہیں۔ مرزا غالب پنجابی نہیں تھے مگر انہوں نے کیا خوب لکھا ہے: ’’کتنے شیریں ہیں تیرے لب کہ رقیب گالیاں کھاکے بے مزہ نہ ہوا‘‘ یہ وہ بات ہے جس کو پاکستان کے دانشور وکیل نعیم بخاری نے ایک ٹی وی پروگرام میں کچھ اس طرح پیش کیا تھا کہ کسی کو گدھے کا بیٹا کہنے میں وہ لطف کہاں جو کسی کو ’’کھوتے دے پتر‘‘ کہنے میں ہے۔ پنجابی زباں کی بہت ساری خوبصورتیوں کو ہماری اقتداری سیاست اس طرح چاٹ گئی ہے، جس طرح لکڑی کو دیمک چاٹ جاتا ہے۔ یہ بھارت کے سکھ ہی ہیں ،جنہوں نے بھارت جیسی قاتل ریاست میں رہتے ہوئے بھی اپنے کلچر؛ زبان اور سنگیت کو اس طرح تحفظ فراہم کیا ہے ،جس طرح دیوار چین نے چینی باشندوں کو تحفظ فراہم کیا تھا۔ حالانکہ سکھ آج بھی بھارت میں سب سے چھوٹی اقلیت ہیں ۔ وہ بھارتی آدمشماری کا دو فیصد ہوکر بھی صرف اپنی زبان اور کلچر کی وجہ سے بھارت میں اپنے قومی وجود کو تحلیل ہونے نہیں دیا۔ خشونت سنگھ نے بھارت میں رہتے ہوئے بھی اپنے وطن کو اس طرح یاد رکھا جس طرح کوئی کوئی جلاوطنی میں رہتے ہوئے اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کو یاد رکھتا ہے۔ کیا خشونت سنگھ بھارت میں جلاوطن تھے؟ اس سوال کا جواب انہوں نے اپنی کتاب ’’پنجاب؛ پنجابی اور پنجابیت‘‘ میں بھرپور انداز سے دینے کی کوشش کی ہے۔ وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب ہوپائے ہیں یا نہیں؟ اس سوال کا جواب اس طرح بھی تو دیا جا سکتا ہے کہ ’’یہ مت دیکھو کہ کون جیتا اور کون ہارا؟ یہ دیکھو کہ کس نے کس طرح مقابلہ کیا؟‘‘ خشونت سنگھ سے میں اس لیے بھی محبت کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنے قلم کو کرپان بنا کر بھارت میں وہ لڑائی لڑی جو ہر ماں کا پتر نہیں لڑ سکتا۔ خود خشونت سنگھ کے لیے بھی یہ لڑائی لڑنا آسان نہ ہوتا اگر وہ ’’پنجاب دا پتر‘‘ نہیں ہوتا۔