اقوام متحدہ نے کچھ اور کیا ہو یا نہ کیا ہو لیکن عالمی دن منانے کی روایت خوب قائم کر دی ہے۔ ماں کا دن، باپ کا دن، استاد کا دن اور اب عورتوں کا دن۔ یعنی جن اقدار کو ہماری عادت کا حصہ ہونا چاہیے، انہیں ایک دن کے چوبیس گھنٹوں میں محدود کر دینا۔ سادہ سا مطلب یہ ہوا کہ جو اقدار و روایات دم توڑ چکی ہیں یا آخری دموں پر ہیں، ان کی یاد تازہ کر دی جائے۔ آج عورتوں کا عالمی دن ہے۔اس کا سراغ ہمیں ریڈیو سے ملا۔ انائونسر صاحبہ عورتوں کی عفت و عظمت کی طرف سننے والوں کی توجہ اس طرح دلا رہی تھیں جیسے یہ روایت معاشرے سے کلیتاً ختم ہو چکی ہو۔ جزوی طور پر ممکن ہے بات درست ہو لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ آج بھی ہمارے یہاں عورتوں کا احترام پایا جاتا ہے۔ کسی بھی سرکاری ادارے میں، مطب میں یا دکان میں جہاں مرد بیٹھے ہوں، کسی بھی خاتون کی آمد پر احتراماً اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور جگہ اس کے لیے خالی کر دیتے ہیں۔ مغرب میں تو ’’لیڈیز فرسٹ‘‘ کی اصطلاح وضع ہو چکی ہے اور اسی کو دہرا کر مرد پیچھے ہٹ جاتا ہے اور عورت کو آگے کر دیتا ہے۔ ریڈیو پہ عورتوں کے عالمی دن کا سن کر مردوں پر کیا بیتی ہو گی، یہ تو بے چارے مرد ہی جانیں، لیکن ہمارے ذہن میں پہلا خیال مرد کی مظلومیت کا آیا۔ خصوصاً شوہر حضرات کی مظلومیت کا۔ جنہیں اپنی بیگمات کے ہاتھوں درگت بننے کا اچھا خاصا تجربہ ہے۔ مثلاً اسی لطیفے کو لیجئے کہ شوہر نے برتن دھوتے ہوئے بیوی سے پوچھا کہ پیاری بیوی جب رشتے کا پیغام میرے گھرانے کی طرف سے دیا گیا تو تم فوراً ہی شادی کے لیے رضا مند کیسے ہو گئیں۔ بیوی نے مسکرا کر جواب دیا:بس میں نے اپنے فلیٹ سے تمہیں کچن میں برتن دھوتے دیکھ لیا تھا۔ اب اس شوہر کو یا ایسے شوہروں کو مظلوم نہ کہا جائے تو اور کیا کہا جائے۔ تو کیا کبھی اقوام متحدہ کو ’’مظلوم شوہر کا دن‘‘ منانے کا بھی خیال آئے گا؟ہم تو عورت کی مظلومیت کی داستانیں سن سن کر اور پڑھ پڑھ کر عمر کی اس منزل میں پہنچ گئے ہیں، جب آدمی عورت کے سہارے اور اس کی مدد کا محتاج ہونے لگتا ہے۔ اردو ادب میں عورتوں کے دو بڑے محسن گزرے ہیں ان میں ایک تو راشد الخیری ہیں جنہوں نے ہندوستان کی عورتوں کی داستانِ مظلومیت اتنے دل سوز انداز میں قلم بند کی کہ مصورِ غم کہلائے۔ دوسرے ڈپٹی نذیر احمد جنہوں نے اپنے ناول کے ذریعے عورتوں کو سگھڑ بنانے کی ان تھک کوشش کی۔ اصغری اور اکبری کی یہ کہانیاں عورتوں کے لیے پُراثر ثابت ہوئیں اور عورتوں نے پھر ویسا ہی بننا چاہا جیسا ڈپٹی نذیر احمد چاہتے تھے لیکن عورتوں میں حصولِ تعلیم اور آزادی کی روح شیخ عبداللہ نے پھونکی، کشمیریوں میں آزادی کی تحریک چلانے والے شیخ عبداللہ نہیں۔ دوسرے شیخ عبداللہ جو سرسید کے مُرید تھے۔ سر سید نے تو مسلمانوں میں جدید تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ بیدار کیا۔ ان کے مرید شیخ عبداللہ نے مسلم خواتین کو تعلیم دلانے کے لیے علی گڑھ کالج کے مقابلے پر لڑکیوں کا کالج قائم کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمانوں میں عورتوں اور بچیوں کی تعلیم کو معیوب سمجھا جاتا تھا۔ خود سرسید جیسے روشن خیال رہنما اور مصلح بھی عورتوں کو تعلیم دلانے کے حق میں نہیں تھے جب کسی نے ان سے ان کی مخالفت کی وجہ دریافت کی تو سید نے بڑا کرارا جواب دیا۔ فرمایا میاں سلطنت تو ہاتھ سے نکل گئی کیا چاہتے ہو کہ عورتیں بھی ہاتھوں سے نکل جائیں۔ سرسید واقعی دور اندیش تھے۔ اب جو مردوں کو شکایت ہے کہ عورتیں خود سر ہو گئی ہیں، پلٹ کر جواب دیتی ہیں، مردوں کے شانہ بشانہ چلنا چاہتی ہیں تو اب یہ سب باتیں اچھی ہوں یا بری لیکن اس کی ذمہ داری تعلیم ہی کے سرآتی ہے۔ شیخ عبداللہ نے جب لڑکیوں کا کالج قائم کیا تو کوئی بھی ’’غیرت مند‘‘ مرد اپنی بچیوں کو اس میں داخل کرانے کے لیے تیار نہ ہوا۔ شیخ عبداللہ بھی اپنے ہٹ کے پکے تھے انہوں نے اپنی تین بچیوں کو کالج میں داخل کر دیا۔ جس میں سے ایک بچی نے تعلیم سے فارغ ہو کر آزاد خیالی کا وہ چراغ جلایا جس کے بطن سے ترقی پسند تحریک نے اردو ادب میں جنم لیا۔ یہ رشید جہاں تھیں جن کا ایک افسانہ ’’انگارے‘‘ نامی کتاب میں شامل تھا۔ اس کتاب کی اشاعت پر وہ طوفان بپا ہوا کہ حکومت کو اسے ضبط کرتے ہی بنی۔ ’’انگارے‘‘کے خلاف مسلمانوں میں وہ ہنگامے برپا ہوئے کہ کتاب کو نذر آتش ہی نہیں کیا گیا بہ قول پروفیسر احمد علی دلی میں غنڈے اس کے مرتبین کو قتل کرنے کے لیے چھرے لے کر ڈھونڈتے پھرے۔یہ وہی رشید جہاں ہیں جن کی صحبت میں رہ کر ہمارے فیض صاحب ترقی پسند اور کمیونسٹ بنے۔ حالانکہ ان کی اشتراکیت پسندی بھی مولانا حسرت موہانی سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی۔ عورتوں میں تعلیم، تہذیب اور شعور کو پروان چڑھانے میں دو نام مولوی ممتاز علی اور محمدی بیگم کے آتے ہیں۔ ’’انارکلی‘‘ ڈرامہ والے امتیاز علی تاج کے والدین، مولوی ممتاز علی بھی حلقۂ سر سید کے اسیر تھے اور ان کی اہلیہ محمدی بیگم وہ بہادر خاتون تھیں جنہوں نے عورتوں کے لیے ایک شاندار رسالہ ’’تہذیب نسواں‘‘ نکالا تھا جس میں اس زمانے کی پڑھی لکھی خواتین افسانے اور مضامین لکھا کرتی تھیں۔ ان ہی میں قرۃ العین حیدر کی والدۂ ماجدہ بھی شامل تھیں۔ ان دنوں عورتوں کا شعر و ادب سے تعلق رکھنا،اس میں دلچسپی لینا اور لکھنا لکھانا اس درجہ برا سمجھا جاتا تھا کہ ’’تہذیب نسواں‘‘ منظر عام پہ آیا تو محمدی بیگم کو گالیوں بھرے خطوط آیا کرتے تھے۔ دھمکیاں بھی ملتی تھیں دونوں میاں بیوی ان سے مرعوب نہ ہوئے اور عورتوں کا یہ رسالہ مدتوں جاری رکھا۔ ریڈیو اور ٹی وی والے نعیم طاہر نے ابھی حال ہی میں محمدی بیگم پر ایک کتاب سنگ میل سے شائع کرائی ہے جسے ہر صاحب دل کو پڑھنا چاہیے۔ کہنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ اس خطے میں آج اگر گھروں میں عورتیں سریر آرائے اقتدار ہیں تو انہیں یہ آزادی اور اقتدار چاندی کے پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملے بلکہ اس کے پیچھے صدی آدھی کی وہ جدوجہد اور محنت ہے جو راشد الخیری سے لے کر محمدی بیگم جیسے لکھنے والوں یا والیوں نے کی ہے۔کہنے کو کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ پس ثابت ہوا کہ عورت کو آزادی اور احترام بھی مرد کے تعاون اور کوشش ہی سے ملے ہیں۔ بات ایسی غلط بھی نہیں اور اگر یہ بات صحیح ہے کہ بی بی حوا حضرت آدم کی پسلی سے پیدا کی گئی تھیں تو پھر عورت ہر معاملے میں مرد کی محتاج ہی ہے۔ عورت کی Empovermentکے نعرے وغیرہ کہنے کی باتیں ہیں۔ اور Me toکی تحریک بھی یوں ہی ہے۔ یہ مردوں کی بنائی ہوئی دنیا اور مردوں کا بنایا ہوا معاشرہ ہے۔ اس میں یکاوتنہا عورت اور مرد میں سے کسی کی بھی مختاری یا خود مختاری چلنے والی نہیں ہے۔ ہمیں تو ڈی ایچ لارنس کی ایک بات دل کو لگتی ہے جس نے کہیں لکھا ہے کہ عورت اور مرد کے تعلقات دو گونہ اصول پر قائم ہو جائیں تو زندگی خوبصورت ہو جاتی ہے۔ مرد عورت سے محبت کرے اور عورت مرد کی اطاعت۔ سارا جھگڑا یہی ہے کہ عورت مرد کی اطاعت سے نکلنا چاہتی ہے اور مرد عورت پر حکومت کا خواہاں رہتا ہے۔ اسی تعلق کو ازسرنو استوار کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے فقط ایک دن عورتوں کے لیے مخصوص کیا ہے۔