قوموں کا امتحان ہوتا ہے‘زندہ قومیں زندہ دلی سے اور خوش جبینی سے ان حالات کو تسلیم کرتی ہیں۔ بے نیاز خالق کی جانب سے حالات کا جبر اترتا ہے‘ فطرت کی تبدیلیوں کا اہتمام مقصود ہے۔ اشیا کو ان کے مقام پر صحیح رکھنے کا خدائی نظم ہے۔ خدائی نظم میں مکمل تدبیر کارفرما ہوا کرتی ہے۔ اس تدبیر کی ظاہری تکمیل اور تعبیر فرشتگان ذی تدبیر کے ذریعے سے عمل میں آتی ہے۔ کتاب آخر میں ان کارکنان تقدیر کو مدبرات اِمر کا انتظامی منصب عطا کیا گیا ہے۔ فرشتے نوری مخلوق ہیں وہ مدبرانہ امور میں مصروف ہیں انسان براہ راست اللہ نور السموات والارض کا خلیفہ ہے۔ اس کا حلقہ عبودیت معبود لاشریک کی کرم زائیوں کو پوری طرح سے جذب کرتا ہے ع فرشتوں سے بہتر ہے انسان ہونا خدا کے مقرب بندے اس وحدہ لاشریک کے زمرہ محبت میں اگلی صفوں میں بیٹھتے ہیں اور سب سے آگے آگے ہوتے ہیں انہیں قرآن نے والسٰبقون السّبقون کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو مقام قبولیت میں سب سے بڑھ کر بازی لے گئے۔ انہوں نے تمام محبتوں پر محبت خدا ومصطفی ﷺ کو غالب کر لیا ۔ اب وہ ہی ہمارے مقرب ہیں۔ جنت ان کا صلہ دیدار خداوندی کی نعمت ان کا انعام۔ حیوانات و نباتات ان کی خوشنودی کے پابند کر دیے گئے‘ اور جمادات پر ان کا تصرف ثابت۔ زندہ قوموں کے صاحبان ایمان منتخب افراد ایسے ہی ہوتے ہیں جو زندگی کو برائے بندگی وقف کرتے ہیں اور اسی حیات عارضی کو حیات دائمی کی خلعت میں ملبوس کر کے خالد ین فیھا ابداً کی دنیائے بہشت میں جامکین ہوتے ہیں۔ قوموں کے کردار کا اعتبار ایسے ہی حق پرست بندگان ایثار سے میسر آتا ہے۔ایسے بندگان حق جب دار بقاء کا سفر اختیار کرتے ہیں تو پھر سے ایک جہان ذکر طواف احساس کرتا ہے۔ جانے والی کی حیات دینوی کا ہر باب وصیت کا عنوان جلی نظر آتا ہے۔ ان کی موت کا دروازہ وصل کا وہ قدم اول ہے جو ان کو بقائے دائمی کی منزل سے ہمکنار کرتا ہے ان کی موت پسماندگان قوم کے لئے ایک نوشتہ خیر کا درجہ رکھتی ہے ۔ہم سنتے ہیں اور ہر موقع پر پڑھتے ہیں۔ موت العالم موت العالم کہ اگر عالم حق سفر آخرت پر روانہ ہو تو ایک کائنات کی بساط کو لپیٹ کر لے جاتا ہے۔ اسی طرح ایک صاحب کردار اور صاحب درد و احساس دنیا سے اٹھے تو درد و سوز اور انسانیت نوازی کی فضائوں میں ہلچل پیدا کرتا ہے اس کا فراق انسانیت سے ہمدردی کا سبق یاد دلاتا ہے۔27ویں شب رمضان کے جلوہ ہائے فراواں کی فضائوں میں جب شب قدر کی عطا و انعام کی گھڑیاں نجات و مغفرت کا اعلان کر رہی تھیں تو راقم کی دینی بہن باجی شاہین رضا نے کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ اپنے قلب کی اتھاہ گہرائیوں سے اپنے لب ہائے مومنانہ پر منتقل کیا اور شہادت حق کا آخری تقاضا پورا کرتے ہوئے اپنے خالق لاشریک کی بارگاہ رحمت مدار میں حاضری دی اور خلدبریں کی فضائے نورانی کی سکونت اختیار کی۔ وہ اس جہان میں ہر شمار نفس کے ساتھ شمار کارخیر کی قائل تھیں وہ زندہ رہیں تو خصائل محمودہ کے ساتھ اور برزخ کو سدھاریں تو امتیازات مشہودہ کے ساتھ۔ شب قدر میں فرشتہ اجل کو لبیک کہنا شہدا کے لئے بھی رشک سامانی کا عنوان ہے ۔مرحومہ ایک جدی پشتی راسخ العقیدہ مسلمان گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں۔ایک بڑے باپ کی بیٹی راسخ العمل ماں کی تربیت یافتہ گہرے دینی احساس سے بھر پور قلبی دنیا سے آراستہ مومنانہ کردار کی مثال۔قرون اولیٰ کی صالحات کے اخلاق شریفانہ کا نمونہ یہ مجاہدانہ طرز کی زندگی بسر کرنے والی آج کی دختران قوم کی ایک بڑی مربیہ تھیں۔ تربیت کا کوئی مروجہ طرز کا ادارہ قائم نہیں کیا کسی دینی نام کے عنوان سے کوئی المشہور تنظیم قائم نہیں کی۔ وہ کہتی تھیں کہ کردار اور کردار میں ایمانی سوز دروں کی طاقت اور اس طاقت پر لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا پورا پہرہ کی سلامتی کردار اور صداقت پر مستحکم قیام ہی حقیقی تبلیغ اور تربیت کے فیضان کا ذریعہ بنتا ہے۔ والد گرامی ان کے ایم بی بی ایس ڈاکٹر تھے۔ عساکر وطن میں خدمات سرانجام دیں اور کرنل کے عہدسے سبکدوش ہوئے ۔ رسول کونین ﷺ سے کمال درجے کی محبت کو اپنا دینی نصب العین سمجھتے تھے۔ ناموس رسالت ﷺ اور تحفظ ختم نبوت کے لئے اپنی ذات و صفات کی خدمات کو وقف اللہ تعالیٰ کئے رکھتے تھے۔ بیٹی کی تربیت بھی اپنے اسی وقف نامہ ایمانی کی روشنی میں کی تھی۔ باجی شاہین راقم کی خانقاہ دائرۃ المخلصین کی نہایت سرگرم رکن تھیں۔ ان کی حیات سادہ میں عمل خالص کی رنگینی اور خدا خوفی کا دمکتا نور ان کے وجود میں ایک صالح کشش کا سبب بنتا تھا ۔ہمارے ادارے کی بہت سی دختران ملت ان سے رہنمائی لیتی تھیں ۔مرحومہ چونکہ اپنے والدین کی تربیت کے نتیجے میں ابتدائے عمر ہی سے شب زندہ دار تھیں۔ اس لئے ان کے عمل میں رسوخ کی برکات سے اپنے حلقہ نشینوں کو پہلی ہی ملاقات میں متاثر کر لیتی تھیں۔ وہ طالبات اور دیگر خواتین کو اپنے مستحکم عمل کی برکت سے جلد ہی عمل کی طرف راغب کر لیتی تھیں۔ یونیورسٹی سے باقاعدہ طور پر ابلاغیات کی تعلیم حاصل کی تھی۔ اس لئے وہ مغرب و مشرق دین و الحاد‘تشکیک و یقین کے دانشور حلقوں کے افکار جدید و قدیم سے پوری طرہ آگاہ تھیں۔ علم و عمل حیرت و ندامت کے مزاج سے آشنا یہ مومنہ صالحہ بلا شبہ قوم و ملت کے لئے ایک نعمت غیر مترقبہ تھیں۔وہ سالہا سال مستقل طور پر ایک معروف و مقبول کالم نگار کے طور پر اپنی قیمتی اور محبت دین و ملت سے معمور نگارشات کے ذریعے سے قوم کی رہنمائی کرتی رہیں اور ایک دائمی و ایمانی قلبی منشور کی پرچار کرتیں کہ غیر مشروط وفاداری اور لامحدود محبت۔سرکار کونین حضرت محمد مصطفی ﷺ ہی کے لئے تھے ۔ایک سماجی کارکن اور بالکل خاموش کارکن کے طور پر ان کی سعی کوشش ان کے بلند طرز حیات کا مومنانہ امتیاز ہے ۔خاموشی سے غریب بچوں بچیوں کی تعلیمی ضروریات کی کفالت کرتی تھیں ‘مفلوک الحال نادار دختران قوم کے ہاتھ پیلے کرنا ان کے نزدیک مسلم معاشرے کے آسودہ لوگوں کا فریضہ ہے ۔وہ اپنے عمل کے تسلسل سے اس خوشگوار ذمہ داری کی تبلیغ کرتی تھیں۔بیماروں سے ہمدردی اور ان کے دکھوں پر مرہم رکھنا بھی وہ اپنے اخلاقی فرائض میں شمار کرتی تھیں اور اپنے حلقہ تعلق میں بہت سے اہل خیر کو اس بلند اخلاق کار خیر کو آمادہ بہ عمل رکھتی تھیں اپنی ذاتی آمدنی کا زیادہ تر حصہ وقف للخیر کر رکھا تھا۔ موجودہ حکمران جماعت کی جانب سے وہ صوبائی اسمبلی کی رکن تھیں لیکن ان کا یہ مشغلہ سیاست بھی اشاعت خیر اور غلبہ دین کی جدوجہد کا ایک حصہ تھا۔ اسلامی شعائر کی سربلندی اور بالخصوص بنائے دین عقیدہ توحید و رسالت کی پاسبانی اور حفاظت کے لئے اپنی جان حال وقار منصب اور معاشرتی حیثیت کو ثانوی نہیں تیسرے درجے پر رکھتی تھیں ان کے ہم جماعت ارکان اسمبلی اور پارٹی کے دیگر عہدیدار اسے جنون سے تعبیر کرتے تھے لیکن مرحومہ شاہین باجی کا رویہ ہمیشہ ہی استقامت کا دامن تھامے رہتا تھا ۔ختم نبوت کے تحفظ کے باب میں حکومتی اور سرکاری سطح کی کوششوں میں ہمیشہ سرگرم رہتی تھیں۔ موجودہ وبائے شدید میں انہوں نے اپنی تمام تر دولت صلاحیت اور ہمت کو غریب اور مفلوک الحال لوگوںکی مالی اور اخلاقی مدد کے لئے مختص کر دیا تھا۔ روزانہ کی بنیاد پر راشن اور دیگر ضروریات کی اشیاء کے پیکٹ تیار کر کے خود غریب بستیوں میں جا کر تقسیم کرواتی تھیں۔اور اپنی خواتین ساتھیوں سے مل کر اگلے روز کے لئے نئی فہرستیں تیار کرواتی تھیں۔ اسی دوران احقر سے دعائوں اور وظائف کے بارے میں ضروری مشورہ کرتی تھیں اور رات بھر کلمہ ودرود کی کثرت میں گزارتی تھیں آخری مرتبہ فون پر بات ہوئی تو بہت حوصلے میں تھیں۔ بہت اعتماد اور مضبوط آواز کے ساتھ کہہ رہی تھیں کہ زندگی اس جہان کی ہو یا اس جہان کی امانت تو میرے خالق و مالک کی ہے جس طرح وہ خوش ہو اس کی بندی اس کی خوشی میں خوش ہے۔اللہ تعالیٰ حضور نبی کریمﷺکے طفیل ان کی قبر کو کلمہ طیبہ کی روشنی عطا فرمائے(آمین)