’’ ـ ابا جی۔ہے سعود عثمانی ہین۔مفتی شفیع صاحب دے پوترے‘ ‘ سفید ریش بزرگ نے سر اٹھایا۔شفقت اور محبت بھرے چہرے پر مہربان خد و خال نمایاں ہوئے۔ پہلے صرف ہونٹوں پر تبسم آیا، پھر پورا چہرا مسکرانے لگا۔انہوں نے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھائے۔ ہاتھوں میں وہی گرمی ،نرمی اور گداز تھا جو استاذ الخطاطین سید نفیس الحسینی کے ہاتھوں سے پھوٹتا تھا۔ جس دن فتح جنگ کے میٹھے اور کھڑتل لہجے میں اظہار الحق صاحب نے پہلی بار میرا تعارف اپنے والد گرامی مولانا ظہور الحق سے کروایا اس کے بعد مزید کم از کم دو موقعوں پرمجھے ان کی زیارت کا شرف حاصل ہوا لیکن یہ وہ وقت تھا جب ان کی نقل و حرکت کمرے تک محدود ہوچکی تھی۔اور انہیں زیادہ دیر گفتگو کی زحمت دینا مناسب نہیں تھا۔لیکن میں ان کی گفتگو بغیر سنے بھی سن سکتا تھا۔بچپن ،نو عمری ،جوانی سے ادھیڑ عمری تک کے اس سفر میں اس عشق زاد قبیلے کی گفتگو بہت سنی ہے۔حافظ محمد ظہور الحق ایک شخص نہیں ایک قبیلہ تھے۔ اک عشق قبیلہ مری مٹی میں چھپا تھا اک شخص تھا لیکن کوئی اک شخص نہ تھا میں کیسے لوگ تھے جو ایک ہی سانچے سے ڈھل کر نکلے اور ایک ہی طریق پر گامزن رہے۔ایک کو دیکھ لینا سب کو دیکھ لینا تھا۔ایک کو سن لینا سب کو سماعت کرلینا تھا۔براق اجلے کپڑے،چہرے پر نرمی، ملائمت اور مہربانی۔ماتھے پر دمکتی محراب باتوں میں علم اور ادب کی خوشبو۔آواز اور لہجے میں مہربانی اور مٹھاس۔ شکل صورت، قد و قامت اور لہجوں کے فرق کے ساتھ قبیلے کے سب لوگ ایک سے تھے۔سہارن پور کی گھلی ہوئی زبان بولتے۔دلی کے لہجے میں بلیغ تشبیہات بیان کرتے۔مخصوص میٹھی بولی میں لفظوں کو رگڑ کر ادا کرتے۔لکھنؤ کی رسیلی اصطلاحوں کو بے تکلف بیان کرتے۔فتح جنگ اور پوٹھوہار کی مخلوط اور پر خلوص بولی میں بولتے ،یہ سب حافظ محمد ظہور الحق تھے۔اس سے فرق نہیں پڑتا تھا کہ وہ بڑے گھیر کی شلوار پہنتے تھے۔یا تنگ موری کا پاجامہ زیب تن کرتے تھے۔ دوپلی ٹوپی اوڑھتے تھے۔یا بڑی سی پگڑی زیب سر ہوتی تھی۔اصل یہ ہے کہ ان کی کہنیوں سے وضو کا پانی ٹپکتا تھا اور چہرے جگمگاتے تھے۔ ذرا بات کیجیے تو ہر زبان اور ہر لہجے سے علم ادب اور شعر کی خوشبو پھوٹتی اور ماحول میں رچ بس جاتی تھی۔یہ سب ایک جیسے تھے۔ سوچتا ہوں تو حیرانی ہوتی ہے ۔ تہران ، شیراز، نیشا پور اور اصفہان میں رچنے بسنے والے کیا کبھی سوچ سکتے تھے کہ پاک و ہند کے دور دراز قصبوں میں اس طرح ٹوٹ کر فارسی سے محبت کی جائے گی کہ شبہہ ہوتا ہے کہ بعض صورتوں میںاہل زبان کو پیچھے چھوڑ گئی ہے ۔ کیا کوئی کہہ سکتا تھا کہ درواڑی ، جانگلی زبانوں کے علاقوں میں یہ رسیلی اور سریلی زبان کانوں میں نسل در نسل رس گھولتی رہے گی ۔ان قصبوں میںجہاں آج بھی عام رسائی کم کم ہے ،فارسی بولتے لوگ ملیں گے ۔ فارسی اس طرح سرایت کرجائے گی کہ علم اور ادب کے ساتھ لازم و ملزوم ٹھہرے گی ۔آگرہ ، دہلی ،لکھنؤ اور لاہور تو خیر بڑے شہر ٹھہرے اور مغل مسلمان حکمرانوں کا مسکن بھی ۔کہا جاسکتا ہے کہ سرکاری زبان کے نفاذ کی وجہ سے یہاں فارسی کا اثر رسوخ زیادہ تھا۔لیکن دیوبند،بھیل گونڈ، بھٹکل ،بریلی کون سے دارالخلافہ رہے تھے۔عام شاہراہوں سے ہٹ کر بسی ہوئی ان بستیوں میںکیا کیا فارسی کتابیں نصابوں میں شامل کی گئیں، کیسے کیسے فارسی دان پیدا ہوئے اور کس کس طرح اس سے محبت کی گئی ۔صرف پنجاب ہی کی مثالیں دیکھ لیں ۔ایران میں بسنے اور فارسی پر فخر کرنے والوں کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ معین نظامی کے معظم آباد،ضلع سرگودھا اور اظہار الحق کے جھنڈیال ،تحصیل فتح جنگ کے دور افتادہ گاؤں میں ایسے خانوادے ہوں گے جہاں سکول جانے سے بھی قبل بچے کو فارسی زبان کی چاشنی لگا دینا لازمی قرار دیا جائے گا۔گھٹی کی طرح یہ چاشنی تمام زندگی ان کے خون میں دوڑتی رہے گی۔ ۔طائرانہ نظر ڈالیں تو یہ خانوادے اور یہ خانقاہیں پورے پاک وہند میں پھیل کر اپنی اپنی جگہ حلقے اور دائرے بناے بیٹھے تھے ۔فارسی کا یہ مقامی لب و لہجہ کتنا ہی قدیم سہی اور اہل زبان کے لیے کتنا ہی نامانوس سہی ، زبان سے اس کی وابستگی بلکہ وارفتگی سے کون انکار کرسکتا ہے ۔یہ ایک بدیہی حقیقت ہے کہ فارسی شعر و ادب ، جو مرکزی مذہبی علوم میں داخل نہیں تھے ، ہمارے علماء کی تعلیم کا لازمی حصہ رہے ہیں ۔ اور فارسی کے فروغ میں ہمارے روایتی مکاتب اور مدارس نے غیر معمولی کردار ادا کیا ہے ۔ اس دور انحطاط میں یہ خانوادے آہستہ آہستہ اپنی خصوصیات فراموش کرتے گئے اور دوسری مٹتی روایات کے ساتھ ساتھ شعر و ادب اور خاص طور پر فارسی بھی ماضی کا حصہ بن کر رہ گئی ۔اب تو مدارس میں بھی فارسی کا چلن کم کم ہے ۔ لیکن پھر بھی اگر دیکھا جائے تو تعلیمی اداروں میں فارسی اگر کہیں کسی درجے میں رہ گئی ہے تو وہ یہ مکاتب اور مدارس ہی ہیں۔ فتح جنگ کے گاؤں جھنڈیال میں پیدا ہونے والے محمد ظہور الحق نے آنکھ کھولی تو فارسی سے عشق کرنے والے وہی افراد، وہی مکاتب اور وہی مدارس دیکھے جو اب ڈھونڈنے سے بھی ملنا مشکل ہے ۔ لیکن حافظ ظہور الحق صاحب کی تشنگی اور تجسس کا یہ سفران مدارس سے فارغ التحصیل ہونے پر ختم نہیں ہوا بلکہ انہیں جدید فارسی زبان ،محاورات اور لب و لہجے کے حصول کی طرف لے گیا۔اور یہی علم انہوں نے اپنی اگلی نسلوں میں بھی منتقل کردیا۔ مجھے جناب حافظ ظہور الحق صاحب کی دو تصانیف پڑھنے کا موقعہ ملا۔ایک کا نام محمد اظہار الحق ہے اور دوسری کا کلیات ظہور ہے۔دونوں تصانیف میں وسعت مطالعہ، ذوق ادب اور فارسی شاعری سے خاص مناسبت شامل ہے۔اول الذکر تصنیف محمد اظہار الحق میں آبائی خون نے اس طرح رہنمائی کی کہ اعلیٰ ریاستی عہدوں اور اختیار و اقتدار کی سرکاری راہداریوں نے آبائی حویلیوں، خورجینوں اور زمینوں سے غافل نہ ہونے دیا اور موروثی علم و ادب نے فارسی اردو ادب سے رو گردانی نہ کرنے دی۔یہ اظہار صاحب کے والد کی تربیت کا فیض ہے اور سچ یہی ہے کہ ان معاملات میں مکتب کی کرامت سے زیادہ فیضان نظر مؤثر ہوا کرتا ہے۔ اول الزکر تصنیف کلیات ظہور میں بھی شاعر کی ساری شخصیت سمٹ کر آگئی ہے۔حمد، نعت، منقبت، قصیدہ ،غزل اور فارسی شاعری سمیت بے شمار اصناف سے ان کی طبع رواں کی مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ یارب وہ دن دکھا کہ تری بارگاہ سے ہو کر در رسول پہ حاضر غلام ہو …… مجھ کو کبھی پسند نہ آئی کسی کی بات تیرے بیاں کے بعد ،تری داستاں کے بعد …… اس عمر دوروزہ پہ ہے نازاں وہی نادان اے شمع تجھے جس نے پگھلتے نہیں دیکھا …… جو مقدر تھا وہ ظہور ہوا دوستوں سے کوئی گلا ہی نہیں وقت ہمیشہ تنگ کرتا ہے اور تنگئی وقت کا گلہ بھی کوئی نئی چیز نہیں۔سو یہی مشکل آج بھی ہے۔کلیات ظہور سے متعددشعر اور مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں لیکن اہل علم کی جامع گفتگو کے بعد اس کی گنجائش بھی کم کم ہے۔کہنے کو بہت کچھ ہے۔ لیکن یہ کہے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی کہ خوش قسمت ہے وہ فرزند جسے ایسا باپ میسر آیا اور خوش نصیب ہے وہ باپ جس کی قسمت میں ایسا بیٹا ہو۔ (کلیات ظہور کی تقریب پذیرائی اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد میں پڑھا گیا)