اک قافلہ ہے کہ چلا جاتا ہے مشاہد اللہ خاں‘ نصیر ترابی‘ سجاد نیازی یادوں کا ایک سلسلہ ہے جو ستا رہا ہے۔ ادھر ملک میں ایک طوفان برپا ہے اور دنیا بھی تلپٹ ہو رہی ہے‘ مگر اپنے پیاروں کی یادیں اپنی طرف کھینچ رہی ہیں۔ وہ دن بھی کیا دن تھا جب ملک میں لگنے والے تازہ تازہ مارشل لا کے خلاف کراچی کے ریگل چوک میں ایک مظاہرہ ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ اب لوگ یہ نہیں کہہ سکیں گے کہ ملک میں مارشل لا لگتا ہے تو کوئی آواز نہیں رکھتی۔12اکتوبر کے مارشل لاکو اگلے ہی روز چیلنج کرنے والا یہ دیوانہ مشاہدہ اللہ خاں تھا۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے کس طرح مراد آباد کا یہ خاندان ہجرت کر کے پاکستان آیا اور راولپنڈی میں سکونت اختیار کر لیا ماں باپ دونوں آخری دم تک جماعت اسلامی کے رکن رہے، یہ بھی اسلامی جمعیت طلبہ کا تربیت یافتہ تھا۔ گورڈن کالج کا طالب علم تھا کہ دھر لیا گیا۔ اس زمانے کی تاریخ کون لکھے گا۔ برف کی سلوں پر لٹائے گئے‘ جاوید ہاشمی کی طرح کراچی قانون کی تعلیم حاصل کرنے آئے اور وہیں کے ہو گئے۔ایک زمانہ تھا کہ پی آئی اے کی مزدور تنظیم نے ملک کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ ایسے میں پیاسی کے نام سے ایک مزدور تنظیم نے سرخ انقلاب والوں کو چیلنج کیا اور پورے ملک کو حیران کر دیا کہ وہ جسے سبز انقلاب کہا جاتا تھا وہ آ بھی سکتا ہے۔پیاسی کے صدر رہے۔ پھر اختلاف ہوا۔ ایئر لیگ بنائی۔ مگر نظریاتی طور پر ہمیشہ ایک مستحکم ذہن رکھتے تھے۔ نواز شریف سے رابطہ ہوا تو اتنا پختہ ہو گیا کہ ایک زمانے میں انہوں نے اپنی بیٹی مریم نواز کی تربیت کے لئے انہیں ذمہ داری سونپی۔ سینیٹر بنے‘ وزیر بنے وزارت کے دوران ایک واقعہ ہوا۔ انہوں نے اپنے ایک انٹرویو میں بتا دیا کہ نواز شریف نے آئی ایس آئی چیف ظہیر الاسلام کی ایک ٹیپ جنرل راحیل شریف کو سنائی جس نے سارا پانسہ پلٹ دیا۔ انہیں وزارت چھوڑنا پڑی مگر پارٹی کے پھر بھی وفادار رہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ نواز شریف ہمیشہ فوج سے جھگڑا لیتے ہیں۔ ان کے لئے اس طرح کے دو چار واقعے یہ بتانے کے لئے اہم ہیں کہ نواز شریف کس حد تک مصلحت و مصالحت دکھاتے رہے ہیں تاکہ نظام حکومت چلتا رہے۔سینٹ کے اندر مشاہد اللہ جس طرح چومکھی لڑتے تھے۔ یہ انہی کی شان ‘ایسا نڈر اور دلیر لیڈر مسلم لیگ کو کم ہی ملا ہو گا۔برجستہ اور برمحل اشعار سے مرصع اور طنزومزاح کے تیروںسے لیس ان کا خطاب ہمیشہ مخالفوں کی صفوں میں کھلبلی مچا دیتا رہا ہے۔ مسلم لیگ کی اس بات پر داد دینا چاہیے کہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ کینسر کے موذی مرض میں مبتلا ہے‘ انہیں تیسری بار پھر سینٹ کا ٹکٹ دیا۔ ریٹرننگ افسر ابھی اس گومگو میں تھا کہ وہ ان کی نامزدگی قبول کرے یا نہ کرے کہ یہ درویش بھرا میلہ چھوڑ کر اس دنیا سے چل دیا۔سچ مچ ایک متوسط درجے کی قیادت کی یہ ہے ایک ایسی مثال ہے جس کا کوئی ثا نی نہیں۔ میں نے عرض کیا مجھے اس وقت کئی مرنے والے یاد آ رہے ہیں جو اچانک ہمیں چھوڑ کر چل دیے۔ مثال کے طور پر میں نے نصیر ترابی کا ذکر کیا جب میں کراچی گیا تو وہاں کے ادبی افق پر ایک ممتاز نام تھا۔ ویسے تو خاندانی پس منظر یہ تھا کہ مشہور عالم دین علامہ رشید ترابی کے صاحبزادے تھے۔ مگر شاعری میں بھی اپنا ایک نام رکھتے تھے اور اپنے دو ٹوک انداز کی وجہ سے متنازع بھی بنے رہتے تھے۔ ان کا ایک شعر سانحہ مشرقی پاکستان کے تناظر میں بہت مقبول ہوا: عداوتیں تھیں‘تفافل تھا‘ رنجشیں تھیں بہت بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا‘ مگر بے وفائی نہ تھی ویسے تو یہ ساری غزل ہی لاجواب ہے اور اسے سانحے کے تناظر میں ہے‘ مگر اس شعر کا تو جواب نہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر ایک محب وطن اور باشعور پاکستانی اور کیا تبصرہ کر سکتا ہے۔ میری کئی یادیں ان سے وابستہ ہیں۔غیر شعری حوالے سے مجھے ایک واقعہ ہمیشہ یاد رہتا ہے۔ میں اس وقت حریت کا ایڈیٹر تھا۔ ڈوبے ہوئے پرچے کو پائوں پر کھڑا کرنے کے لئے ہم جتن کر رہے تھے۔ محرم آیا تو ہم نے محرم پر خصوصی ایڈیشن شروع کئے۔درمیان میں ایک مضمون ایسا چھپ گیا جس پر اعتراض پیدا ہوا۔ ساری امام بارگاہوں میں اس کی گونج تھی۔ نصیر آئے اور مجھے سجادیہ ایرانیاں میں لے گئے جہاں ایک مرکزی مجلس ہوتی تھی جس میں نصیرکے بڑے بھائی عقیل ترابی کا خطاب ہوتا تھا جو شہر میں ٹیلیفون لائنوں پر کئی مقامات پر سنا جاتا تھا۔ تصور کیجیے یہاں نصیر نے اپنے بھائی کے خطاب سے پہلے مجھے اس مجمعے کے سامنے پیش کر دیا، ساری بازی پلٹ گئی ساری تفصیل کی یہاں ضرورت نہیں۔ کہنا یہ تھا کہ نصیر ترابی دوستی نبھانا جانتا تھا اور دشمنی بھی۔اسی لئے آخری دنوں میں۔ مرنے سے دوچار ہفتے پہلے وہ روزانہ ہی فون پر مجھ سے رابطے میں رہتا۔ اسے کسی ادیب سے سخت شکایت پیدا ہو گئی تھی۔ وہ روز اس کا ذکر کرتا۔ حق مغفرت کرے عجیب آدمی تھا۔ شاعر تو تھا ہی جانے اس نے خالص زبان کے معاملات پر بھی بہت کچھ لکھا۔ اب میں جس شہری شخص کا ذکر کرنے لگا ہوں اس سے کم لوگ واقف ہوں گے۔ وہ راہ حق کا ایک گمنام مجاہد تھا۔ زنذگی بھر تحریک اسلامی سے وابستہ رہا۔ برادرم نصیر سلیمی نے مجھے یاد دلایا ہے کہ اس زمانے میں۔ یہ تین دوست سجاد نیازی‘ طارق مصطفی باجوہ اور نواز گجر سید منور حسن کے چھوٹے سے گھر کے اوپر والے حصے میں ان کے ساتھ رہا کرتے تھے۔ یہ تعلق اتنا پختہ تھا کہ جب منور حسن کو جماعت کی ذمہ داریوں کے لئے لاہور آنا پڑا تو انہوں نے سجاد نیازی سے کہا کہ مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ یہ نوجوان اپنا سارا چلتا کاروبار چھوڑ کر لاہور کے لئے چل پڑے اور آخر یہیں آسودہ خاک ہوئے۔ کسی نے پوچھا یہ کیا کر رہے ہو تو جواب دیا کہ میں اپنے دوست کے حکم کو ٹال نہیں سکتا۔ دنیا میں ایسے لوگ بھی ہیں جو اپنی دوستی اور نظریے کے لئے کچھ بھی کہہ لیجیے سب کچھ تج دیتے ہیں۔ مجھے ان سب کی یاد آ رہی ہے۔ دوست ابھی بہت سے احباب کاذکر کر رہے ہیں جو ہم سے رخصت ہوتے جا رہے ہیں۔ لگتا ہے دنیا خالی ہوتی جا رہی۔ شاید نظام عالم یہی ہے۔ایک نسل آئے گی تو دوسری نسل ان کی ذمہ داری سنبھال لے گی۔ یہ نظام یونہی چلتا رہے گا۔ آج صرف اتنا ہی۔ کوئی سیاست نہیں۔ وہ پھر سہی۔اس میں کہنے کو بہت کچھ ہے شاعر نے تو یہ کہا تھا کہ ع اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا میرا دل چاہتا ہے کہ میں یہ کہوں اور غم بھی ہوں گے مگر محبت کرنے والے کہاں ہوں گے شاید جواب آئے: محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے جانے والے شاید یہی کہہ کر ہم سے رخصت ہوتے ہیں، خدا باقی رہنے والوں کو اپنے فرائض ادا کرنے کی توفیق دے۔