ایک فریضہ کہیں اد ا ہونے سے رہ نہ جائے۔ یہ ایک قرض ہے جو چکا ڈالنا چاہئے۔اک خوش گوار فریضہ ہے جسے ادا ہوجانا چاہئے۔ یہ معاملہ ہے، ڈاکٹر ذاکر نائیک کے تازہ جرأت مندانہ موقف کے تذکرے ، تحسین اور تشکر کا ہے۔ اس بات پر تشکر کا کہ مسلمانوں میں ماضی مرحوم کے ضمیراور ظرف کی جرأت و جانبازی کی کچھ مثالیں اور کچھ آثار آج بھی زندہ ہیں۔ کیا شک ہے کہ قومیں اپنے خطیبوں اور ادیبوں سے نہیں اپنے دلاوروں اور لفظوں کو سچا کر دکھانے والوں سے پہچانی جاتی ہیں۔ خطیب تو بہت مل جاتے ہیں اور داعی بھی بہت ۔ ہاں مگر زمانے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کر گزرنے والے عامل خال خال ہوتے ہیں۔اس مردِ درویش نے کہا تھا اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے گفتار کا یہ غازی تو بنا، کردار کا غازی بن نہ سکا کچھ لوگ معاشرے کا مگر استثنا بھی ہوتے ہیں،قوموں کے سلوگن اور ملکوں کی پہچان۔ قومیں جن سے سربلند اور سرخرو ہوتی ہے۔ قومیں کبھی اپنے جغرافیے اور اپنی عمارات سے نہیںپہچانی جاتیں ،قومیں ہمیشہ اپنے افراد کی جرأت و جسارت اورعزیمت و ہمت سے پہچانی جاتی ہیں۔ جن قوموں میں دلاور اور سچ کہنے والے نہ رہیں ، ان قوموں کے جغرافیے بھی تادیر نہیں رہتے۔باضمیر اور صاحبِ کردار افراد کیا ہوتے ہیں۔اس پر جنابِ ابو بکرصدیقؓ یاد آتے ہیں، اور مالک ابن دغنہ ۔ہجرتِ حبشہ کے ہنگام کے مکہ کی بات ہے ، گھر میں بیٹھ کے ابو قحافہ کے بے مثل بیٹے قرآن پڑھا کرتے ،آسمان سے اترا یہ قرآن دلوں پر یوں اترتا کہ روح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی والی کیفیت طاری ہو جاتی۔ لوگ متاثر ہوتے ، کفار کی خواتین دیواروں سے جھانک جھانک کے او رہجوم لگا کے قرآن سنا کرتیں۔ کوئی حل کفار کے پاس اس مسئلے کا نہ تھا ،سوائے ا سکے کہ اس آواز پر پابندی لگا دی جائے اور اس صدا کو بستی بدر کر دیا جائے،سوکر دیاگیا۔ بستی چھوڑ کے ابو بکرؓ بستی سے باہر جاتے تھے کہ برکِ غماد کے مقام پر قبیلہ قارہ کے مکی سردار مالک ابن دغنہ مل گئے ۔قریش کے سربلند فرزند کو اس بے دری کے عالم میں دیکھ کے ابنِ دغنہ ٹھٹک گئے۔ حالات جان کر کہنے لگے : ’’ابو بکر !تم جیسے لوگ نہ بستیوں سے نکالے جا سکتے ہیں اور نہ انھیں نکلنا ہی چاہئے۔ــ‘‘ میں ابنِ دغنہ کی بات کو یوں سمجھا کرتا ہوں کہ جن بستیوںمیں ابو بکر جیسے لوگ نہ رہیں ، وہ بستیاں رہنے کے قابل نہیں رہتیں۔خیر، یہ اپنی پناہ میں سیدنا ابو بکرؓ کو مکہ لے آئے۔ تو یہ ہوتا ہے افرد کا کردار اور یہ ہوتی ہے کردار کی قدر۔ اللہ کا شکر ہے،کہ اسلام کی تاریخ کردار کے غازیوں اور جانبار دلاوروں سے کبھی خالی نہیں رہی۔ غزوہ احد کے موقع پر ہند بنتِ حزام وہ خاتون تھیں کہ جن کے صدمے کی تاب لانا کسی بشر کے بس کی بات نہ ہو سکتی تھی ۔ایک ہی معرکے میں ان کے والد ، بھائی اور خاوند شہید ہو گئے تھے۔ ہند مگر پوچھتی پھرتی تھیں کہ ان کے رسول کس حال میں ہیں؟ پھر جب چہرۂ اقدس ہند نے دیکھ لیا تو بے اختیار پکار اٹھی: کل مصیبۃ بعدک جلل۔ ’’پیارے رسولؐ ! آپ کی زیارت کے بعد کوئی مصیبت مصیبت نہیں رہتی۔‘‘ بیٹے عبداللہ بن زبیرؓکے معاملے میں، ابو بکر کی بیٹی سیدہ اسماؓ کی دلاوری بھی ضرب المثل ہے، بیٹے نے ماں سے کہا تھا، شہادت تو شوق ہے مگر خدشہ ہے کہ شہادت کے بعد نعش کی بے حرمتی کی جائے گی، فرمایا ، بیٹا جب بکری جان دے دیتی ہے تو پھرقصائی کی چیر پھاڑ اسے کوئی درد نہیں پہنچا سکتی ۔ اندازہ کیجئے یہ ایک ماں اپنے بیٹے سے کہہ رہی تھی۔ ابنِ تیمیہؒ کی جرأت اور ابنِ حنبلؒ کی حق گوئی بھی ہماری تاریخ کے زریں اور بے مثل اوراق ہیں۔ابنِ حنبل کی پیٹھ نے تین عباسی خلفا کے کوڑے سہے۔اللہ اللہ ! اک نحیف شخص کی ناتواں پیٹھ پر تازہ دم پہلوانوں کے برستے کوڑے ۔ یہ کوڑے مگر پیٹھ ہی چھیل سکے ،نہ سر جھکا سکے اورنہ ابنِ حنبل کا موقف لرزا سکے۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھی مشکل ترین وقت میں اپنے اسلاف کی جرأت تازہ کر دکھائی ہے۔ڈاکٹر ذاکر نائیک کے نظریے سے لوگوں کو اختلاف بھی ہو سکتا ہے ۔ اس کے نام ، کام اور دلیل و جرأت کا اعتراف مگر کرنا ہی پڑے گا۔عام گفتگو میں اٹک جانے والے ڈاکٹر ذاکر نائیک جب اللہ کے لیے لاکھوں کے مجمعے کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں تو شبنم کی طرح روانی ان کی زبان پر اترنے لگتی ہے ۔ میر دریا ہے سنے شعر زبانی اس کی اللہ اللہ رے طبیعت کی روانی اس کی الحمدللہ ، لاکھوں کو وہ محض اپنی زبان کی دلیل سے مسلمان کر چکے ہیں۔ عیسائی ڈاکٹر ولیم کیمبل سے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا مناظرہ شہرہ آفاق ہے۔موضوع تھا ،بائبل اور قرآن، جدید سائنس کی روشنی میں۔ عیسائی سکالر کا خیال تھا قرآن جدید سائنس کے اصولوں پر پورا نہیں اترتا۔ ناصرف ڈاکٹر ذاکر نائیک نے دلائل سے اس موقف اور اس موقف کے دلائل کا رد کیا بلکہ بائبل کو سائنس کے سامنے کھڑا کرکے ولیم کیمبل کو لاجواب بھی کر دیا۔ ہوا یہ کہ مودی حکومت نے جب مظلوم کشمیریوں پرآرٹیکل 270 کی تلوار سے ان کی رہی سہی زندگی بھی نگل لی تو اسے ایک بے پناہ دباؤ کا سامنا کرنا پڑا ۔ تب مودی حکومت نے ملائشیا میں پناہ گزیں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے رابطہ کرکے پیشکش کی کہ اگر ڈاکٹر صاحب اس ظلم میں حکومتی موقف کی تائید کر دیں تو ان کے سارے مقدمات ختم کرکے ، انھیں وطن واپسی کا محفوظ راستہ دیا جا سکتا ہے، ڈاکٹر صاحب کا جواب تھا ، ظلم پر کوئی مسلمان بھلا کیسے کسی کا ساتھ دے سکتاہے؟ ادھر مودی ڈریکولا کے منہ کو خون لگ چکا تھا ،معاملہ کشمیر تک محدود نہ رہا، یہی سفاکانہ حرکت انڈین مسلمانوں کے ساتھ بھی دہرائی گئی ۔اب کے ردِ عمل نے مودی حکومت کو بوکھلا کے رکھ دیا۔ مسلمان ہی نہیں ان کے سنگ ہندو اور عیسائی بھی یوں جھوم کے اٹھے کہ مودی حکومت لرز کے رہ گئی ۔اس موقع پر ایک بار پھر مودی حکومت نے اعلی سطی رابطہ کیا،مگر ڈاکٹر صاحب نے ایک بار پھر صاف انکار کر دیا۔ان کا کہنا تھا کہ تم نے یہ سوچ بھی کیسے لیا؟ یہ جرأت و عزیمت یقینا ہلا دینے والی ہے ۔ ایسی کسما پرسی میں ، ایسی غریب الدیاری میں اور ایسی دربدری میں ایسا اجلا کردار۔