نہ منہ چھپا کے جئے ہم نہ سر جھکا کے جئے ستم گروں کی نظر سے نظرملا کے جئے اب ایک رات اگر کم جئے تو کم ہی سہی یہی بہت ہے کہ ہم مشعلیں جلا کے جئے ڈاکٹرمرسی کے حراستی قتل سے اخوان المسلمون کی رو داد ابتلاء میں ایک اور باب کا اضافہ ہوا ۔اس سانحے پر دنیا کا ہر صاحب ایمان بالخصوص مظلوم مسلمان صدمے سے دوچار ہیں۔دراصل مظلوم مسلمانوں کوان عالمی راہنمائوں اوردانشوروں سے بڑاپیارہوتاہے جو سینہ تان کر باطل کو للکارتے ہیں اوردوٹوک انداز میںامت مسلمہ کی عظمت رفتہ کی بحالی کیلئے اپنے عزم کااظہارکرتے ہیں۔بلاشبہ ڈاکٹر مرسی ایسے ہی راہنما،دانشوراورمسلمانوں کے غمخوار لیڈراورمظلوم مسلمانوں کے لئے امیدکی کرن تھے۔17جون سوموارکی شام جب صدمے کی یہ خبر نشرہوئی کہ ایک مصری عدالت میں پیشی کے دوران حافظ ڈاکٹر محمد مرسی نڈھال ہو کر گر پڑے اورشہیدہو گئے تودل خون کے آنسو رونے لگاکہ 7برس سے مسلمانوں کے یہ مرددرویش لیڈرصرف اس جرم کی پاداش میں مصرکے عقوبت خانے میں سڑرہے تھے کہ انہوں نے مصرمیں شریعت کے نفاذکے لئے ایک نیاآئین مرتب کیاتھااوروہ مظلوم مسلمانوں کی آوازبن کرابھرے تھے ۔ ڈاکٹرمرسی کی شہادت کی خبرسن کر انکی تقاریرسرچ کرتارہایوٹیوب پرمجھے ان کی تین ایسی ایمان افروز تقاریرملیں جوان کی شخصیت ،ان کی قائدانہ صلاحیت، ان کے عزائم ،انکے موقف و نظریہ اورانکے دستورو منشور کوسمجھنے کے لئے کافی ہیں ۔دراصل یہی تقاریرہیں کہ جن میں سے دو امریکہ اوراسرائیل کوکھٹکیں اوربرداشت نہ ہوئیں جبکہ ان کی وہ تقریرجوانہوں نے ایرانی پارلیمان میں کی اپنوں کو نہیںبھائی۔یہ تینوں تقاریریوٹیوب پرموجود ہیں کسی بھی وقت سنی جاسکتی ہے۔ ان کی ایک تقریرجوانہوں نے پہلی اورآخری باراقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کی جس میں وہ ببانگ دہل فرماتے ہیں کہ ’’تم ہمارے نبی کااحترام کروگے تو تمہارااحترام کیاجائے گاوگرنہ ہرگزنہیں‘‘۔ بلاشبہ ڈاکٹرمحمد مرسی کی شہادت نام نہادجمہوریت اور دنیاکے جمہوری اداروں کے منہ پرطمانچہ ہے۔2011ء میں حسنی مبارک کی چالیس سالہ مطلق العنانیت کے خاتمے کے بعد مصرمیں نام نہادجمہوریت اوردنیاکے نام نہاد جمہوری اداروںکے وضع کردہ فارمولے کے مطابق جون 2012 ء کوعام انتخابات ہوئے جن میںاخوان المسلمون کومصری عوام کی طرف سے حکومت قائم کرنے کے لئے جی بھرکر بھرپوراورمکمل منڈیٹ ملا۔اخوان المسلمون نے اپنی تمام خداترس اعلیٰ تعلیم یافتہ، دیانت وامانت دار، صالح اور باصلاحیت ٹیم میں سے ایک مرددرویش جناب حافظ ڈاکٹر محمد مرسی کوصدرنامزدکردیااوریوںڈاکٹرمرسی ر ائج الوقت نام نہادجمہوری نظام کے تحت مصرکے صدرمنتخب ہوئے۔ آپ باضابطہ طورپرمنتخب ہونے والے مصر کے پہلے صدر تھے۔ لیکن محض ایک ہی برس کے بعد تین جولائی 2013ء کومصری فوج کے فرعون مزاج کمانڈرانچیف جنرل عبدالفتاح السیسی نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔ مصری فوج کے فرعون مزاج السیسی نے ڈاکٹرمحمد مرسی کی حکومت کے خلاف سازشیںشروع کردی تھی کہ جب 2012ء میں برستراقتدارآتے ہی ڈاکٹرمرسی نے اخوان المسلمون کے مومنانہ صفات سے آراستہ اراکین پارلیمان سے مصرکے لئے ایک ایسا نیا آئین بنانے کا حکم دیا جس کے ذریعے سے مصرمیں شریعت اسلامی کانفاذ ممکن اورنافذ ہو۔ تختہ الٹ دیے جانے اورمرسی کی حکومت کے خاتمے کے بعدقاہرہ میں فوج تعینات کر دی گئی ۔اس ظلم عظیم پرمصر میں شدیدعوامی ردعمل سامنے آیااورقاہرہ میں شدیدمظاہرے اوراحتجاجی جلوس نکالے گئے۔ محمدمرسی کی حکومت گرانے کے خلاف مصری عوام اپنے گھروں سے باہرآئے اور نہر سویز کے کنارے سمیت پورے مصرمیں مصری عوام اورجنرل السیسی کی فوج کے درمیان تصادم اور ہنگامے شروع ہو گئے۔ مصری عوام محمد مرسی کی فوری رہائی کا مطالبہ کررہے تھے۔مصر کی فوج نے14 اگست2013 ء کو دارالحکومت قاہرہ کے التحریر سکوائر پر اخوان المسلمین کے دو کیمپوں پر دھاوا بول دیااوراس سفاکانہ کارروائی میں کم سے کم 1000افراد جن میں خواتین وحضرات اوربوڑھے اوربچے شامل تھے شہیدہو گئے تھے۔ ڈاکٹر مرسی کی منتخب حکومت پرشب خون مارنے کے بعد چار ماہ تک محمد مرسی کو نامعلوم مقامات پر قید رکھا گیا اور پھر ستمبر2013ء میں فوجی حکومت نے اعلان کیا کہ اب ان پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے گا۔محمد مرسی اور اخوان المسلمین کے 14دیگر سرکردہ راہنمائوں پر قائم کیے جانے والے ان مقدمات کی سماعت نومبر 2013 ء میں شروع ہوئی۔مقدمے کی پہلی سماعت پر کٹہرے میں کھڑے ڈاکٹر محمد مرسی نے نہ صرف بارباریہ کہا کہ انھیں فوجی بغاوت کا شکار کیا گیا ہے اور انھوں نے السیسی کی قائم کردہ اس عدالت کو ماننے سے انکار کر دیا تھاجس میں ان کاجھوٹاٹرائل چل رہاتھا۔ہرپیشی کے موقع پروہ ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ میںملک کے آئین کے مطابق میں جمہوریہ کا صدر ہوں اور مجھے زبردستی قید کیا گیا ہے لیکن حق کی یہ صدا بلندکرنے کے باوجود اپریل 2015ء میں محمد مرسی اور ان کے دیگر ساتھیوں کو 20، 20سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ دنیامیںڈھول خوب پیٹاجارہاہے کہ رائج الوقت جمہوریت ایک حسین نظام ہے اورچاردانگ عالم اس کے حسن کی بڑی تعریفیں کی جارہی ہیں۔کہاجاتاہے کہ یہ ایک ایسا طرزِ حکومت جس کے بارے میں عالمی سطح پر ایک متفقہ بیانیہ طے پاتا ہے اور یہ ایسا طرزِ حکومت ہے جس میں لوگ اپناحکمران چن لیتے ہیںاس طرح بغیرکسی جبرکے وہ اپنی مرضی کے مطابق وہ اپناحکمران منتخب کرتے ہیں ۔آج اس نام نہادجمہوریت اورنام نہادجمہوری نظام کے منہ پرتھپڑرسیدہوا، اورطمانچہ پڑاکہ جب جمہوری طریقے سے منتخب ہونے والے مصرکے صدر اورجمہوری طرزپرمنصب اقتدارپرپہنچنے والے ڈاکٹرمرسی کاحراستی قتل کیاگیا۔اس میں کوئی ابہام نہیں کہ جناب مرسی کی شہادت دراصل ایک حراستی قتل ہے ۔یہ المیہ ہے کہ سات برس تک ڈاکٹر مرسی کومصری عقوبت خانوں میں رکھا گیا۔دوران حراست انکی عمراورانکے منصب کاکوئی لحاظ نہیں کیاگیااور ان کے ساتھ جانوروں جیساسلوک روارکھاگیا۔عصرحاضرکے فرعون مصرکاتعذیب سہہ سہہ کر وہ نڈھال ہوگئے تھے اوربقول عدالتی اہلکارکہ وہ پیشی کے دوران گرپڑے اورانکی موت واقع ہوئی۔