آج کل ہڑتالوں کا موسم چل رہا ہے کہ یہ موسم بھی تو تحریک انصاف کی ہی ایجاد ہے۔ شٹر بندی ‘ شہر بندی‘ تالہ بندی سوائے نس بندی کے وہ کون سے بندی تھی جس کا سبق تحریک انصاف نے 2014ء میں 126دن کے دھرنے میں عوام کو نہیں پڑھایا؟عوام نے سبق یاد کر لیا اور آج خود اپنے دام میں صیاد آ گیا ہے فرق صرف اتنا ہے کہ 2014ء میں جملہ اقسام کی بندیوں کا بوجھ صرف تحریک انصاف نے اٹھا رکھا تھا جبکہ 2019ء میں حشر کا سماں یوں ہے کہ ہر کوئی اپنا اپنا تالا ہاتھ میں لئے دھرنے پر آمادہ ہے۔ مولانا کا معاملہ سیاسی ہے اس لئے ابھی تک باتوں دعوئوں اور دھمکیوں سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ تحریک انصاف کی حکومت کا کمال مگر یہ ہے کہ آج غیر سیاسی سیاستدانوں سے دو ہاتھ آگے نکل چکے۔ ہر کوئی مرنے مارنے پر تلا ہے۔ تاجر آزمائشی ہڑتال کے بعد 28‘29اکتوبر کو فل ڈریس ریہرسل کا اعلان کر چکے ہیں۔ تاجروں کی یلغار سے پہلے ہی مولانا 26اکتوبر سے کمک لے کر اسلام آباد کی طرف نکل چکے ہوں گے اور شنید ہے 30 اکتوبرسے سیاست اور کاروبار اک مک ہونے کا باضابطہ مظاہرہ کریں گے۔ یہ تو جب ہو گا تب کی بات۔ کپ اور ہونٹوں کے درمیان بہت کچھ باقی ہوتا ہے۔ مجید امجد نے د نیا ئے بے طریق میں جس سمت بھی چلو رستے میں اک سلام رفیقانہ چاہیے کی بات کی تھی ۔یہ سلام رفیقانہ ہمارے مسیحا خلوص دل سے گزشتہ 11روز تھیٹر اور وارڈ بندی کی صورت میں پیش کر رہے ہیں: ہر وقت فکر مرگ غریبانہ چاہیے صحت کا ایک پہلو مریضانہ چاہیے پنجاب اور کے پی کے میں شعبہ صحت کی چھوٹی بڑی تنظیموں کو ایم ٹی آئی کی صورت میں اپنی من مانیوں سے دستبرداری قبول نہیں۔ ینگ ڈاکٹرز بقول حکومتی حلقوں کے تاجروں کی طرح سیاستدانوں کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیں۔ یہ کھیل نیا نہیں ماضی میں خادم اعلیٰ بھی معاشرے کے بہترین دماغوں کو ماتھے کا تاج کہہ کر رام کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ مسئلہ معاشرے کے ماتھے کے تاج کا نہیں ہر کوئی آئین نو سے ڈرتا اور طرز کہن پر اڑتا ہے۔ تاجروں کو نئی معاشی پالیسیاں جن میںدیانتداری سے منصفانہ ٹیکس ادائیگی کا نظام ہو، قبول نہیں ۔دکاندار خریدار سے شناختی کارڈ وصول کر کے فروخت کو ریکارڈ پر اس لئے نہیں لانا چاہتا کیونکہ اس کو خریدار سے وصول کئے گئے منافع میں حکومت کی شراکت داری منظور نہیں۔ ینگ ڈاکٹر بھی ایم ٹی آئی (میڈیکل ٹیچنگ انسٹی ٹیوٹ )ایکٹ کے تحت کلاس ون آفیسر سے دوگنی تنخواہ کی چوری تو کھانا چاہتے ہیں مگر مریضوں کی بہتری کے لئے اپنی من مانیوںسے دستبرداری کے لئے تیار نہیں۔ ہر کوئی حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے۔ کوئی یہ بات تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ کوئی نظام انفرادی سطح پر لاگو کیا جا سکتا ہے نا ہی استثنیٰ پر مبنی قوانین سے بہتری ممکن ہو سکتی ہے۔ انگریز نے برصغیر کے عوام کو غلام رکھنے کے لئے افسر شاہی کی تربیت کی اور قوانین بنائے تھے۔ انگریز سے آزادی مل گئی لیکن آزادی کے ساتھ جہیز میں ملنے والی افسر شاہی اور غاصبانہ نظام آج بھی عوام پر حکمران ہے۔1947ء سے تمام شعبوں کی طرح صحت کا محکمہ بھی مالی اور انتظامی اختیارات کے لئے سیکرٹری کا غلام تھا۔ ایک سیکرٹری پورے صوبے کو عوام نہیں حکومت کی ضروریات کے مطابق چلاتا تھا۔ تحریک انصاف نے 2013ء میں ایم ٹی آئی ریفارمز ایکٹ متعارف کروایا تو ڈاکٹر اس وقت بھی ہڑتالیں اور تالہ بندی پر اتر آئے لیکن ایم ٹی آئی ایکٹ کے تحت 45سے 50ہزار تنخواہ ایک لاکھ 5ہزار ہوتی دیکھی تو نظام کی مشروط قبولیت پر آمادگی ظاہرکر دی۔ پس ماندہ علاقوں کے کوٹہ سسٹم کے تحت ہزاروں طلباء وطالبات کو ہر سال میڈیکل میں داخلہ دیا جاتا ہے مگر ڈاکٹر بننے کے بعد کوئی اپنے علاقے میں جانا نہیں چاہتا۔ دیہی علاقوں میں 73فیصد ڈاکٹروں کی خالی آسامیوں کو پر کرنے کے لئے حکومت نے ایم ٹی آئی ایکٹ میں ہر ڈاکٹر کو اس کے ڈومیسائل کے ضلع میں ملازمت کا پابند ہی نہیں کیا بلکہ دیہی علاقوں میں ڈاکٹرز کی تنخواہ 175000تک مقرر کی گئی ہے ۔ینگ ڈاکٹر مراعات تو لینا چاہتے ہیں مگر احتساب اور ذمہ داری قبول کرنے کے لئے تیار نہیں۔ ہسپتالوں کی تالہ بندی اور ہڑتال صرف اس لئے ہے کہ ایم ٹی آئی میں مراعات تو چاہئیں مگر شفافیت اور میرٹ کے نام کی کوئی چیزقبول نہیں۔ کوئی بھی نظام ایک دن میں تشکیل پاتا ہے نا ہی راتوں رات ختم کیا جا سکتا ہے۔ ایم ٹی آئی ایکٹ کی تشکیل کے لئے متعلقہ سٹیک ہولڈرز کے ساتھ 32میٹنگز ہوئیں ینگ ڈاکٹرز، میڈیکل کالجز کے وی سی حضرات، ہسپتالوں کے ایم ایس صاحبان ،پروفیسرز ،میڈیکل شعبہ سے وابستہ تنظیموں سے چھ ماہ مشاورت کی گئی ۔ان کے جائز تحفظات کو دور کیا گیا۔ ڈاکٹر حضرات کو یہ یقین دھانی کروائی گئی کہ ایم ٹی آئی ایکٹ کا مقصد ڈاکٹروں کو نظم کا پابند کرنے سے زیادہ ہسپتالوں کو انتظامی خود مختاری دے کر مریضوں کو بہتر سہولیات فراہم کرنا ہے۔ ایم ٹی آئی کے نفاذ کے بعد ہسپتال انتظامیہ کو اپنی ضروریات کی مشینری اور ادویات خریدنے کے لئے سرخ فیتے کی مزاحمت کا سامنا نہ ہو گا۔ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کی اس سے بہتر مثال اور کیا ہو سکتی ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہسپتالوںکو قومی خزانہ سے وسائل استعمال کرنے کی تو آزادی ہو مگر کرپشن اور اختیار کے ناجائز استعمال کے تدارک کے لئے احتساب کا موثر سسٹم نہ بنایا جائے۔ احتساب شفافیت تاجروں کو قبول ہے ناہی ڈاکٹروں کو‘ سیاستدان تو کرپشن کے بہتے دریائوں کے وہ مگرمچھ ہیں جو صرف کرپشن کے حقوق کے تحفظ کے لئے آنسو بہاتے ہیں اور خوش کن نعروں کا نشہ عوام کی رگوں میں اتارنے میں طاق ہیں۔ایم ٹی آئی ایکٹ کے بارے میں پراپیگنڈا کیا جا رہا ہے کہ ہسپتال گورننگ باڈی کے زیر انتظام آنے سے ڈاکٹر بے روزگار اور عوام مفت طبی سہولیات سے محروم ہو جائیں گے۔ اس پراپیگنڈے کو سیاست کی فریب کاری ہی کہا جا سکتا ہے کیونکہ یہ تو ممکن نہیں کہ ہسپتال ہوں مگر ڈاکٹرز نہ ہوں ‘ ڈاکٹرز تو ہوں گے البتہ ان کی موجودگی صرف کاغذی اور نمائشی نہ ہو گی۔ بہترین تنخواہوں کے ساتھ کام اور احتساب کا مربوط نظام بھی ہو گا ۔جہاں تک مفت سہولت کا تعلق ہے تو ایم ٹی آئی نظام کے تحت حکومت اس وقت تک عوام کو مفت طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے گی جب تک پوری آبادی کو صحت کارڈ کی صورت میں ہیلتھ انشورنس ممکن نہیں ہو جاتی۔ صحت کارڈ کے ذریعے اربوں روپے کا بجٹ مہنگے پرائیویٹ ہسپتالوں کی لوٹ مار کا شکار ہو رہا ہے۔ ایم ٹی آئی کے نفاذ کے بعد عوام سرکاری ہسپتالوں میں صحت کارڈکے ذریعے ادائیگی کی صورت میں پرائیویٹ علاج کروا سکیںگے مگر ایسا اسی صورت ممکن ہو گا جب طرز کہن پر اڑنے والا مفاداتی ٹولہ آئین نو کی حقیقت تسلیم کرے گا۔ آج کل تو ہڑتالوں کا موسم چل رہا ہے کہ یہ موسم بھی تحریک انصاف کے گزرے کل کی ایجاد ہے جوآج گلے کی ہڈی بنا ہوا ہے۔