یہ5اکتوبر2007ء کا واقعہ ہے ، ملک میں جنرل پرویزمشرف کا طوطی بول رہا تھا،امریکا ان پر ایسے مہربان تھا کہ جیسے وہ پاکستان میں امریکی وائسرائے ہوں اور انہیں کوئی آئینی مینڈیٹ نہ ہونے کے باوجود سارے مینڈیٹ حاصل تھے جن کا وہ بے دریغ استعمال کررہے تھے ، یہ دیکھے بغیر کے یہ ملک اور عوام کے حق میں بھی ہیں کہ نہیں؟ اس دور میں ان کے اشارہ ابرو پہ منظر در منظر بدل جایا کرتے تھے،گویا جنرل پرویز مشرف ملک میں سیاہ سفید کے مالک تھے ۔ ملک کی مقبول سیاسی قیادت ایک طرح سے جلاوطنی پر مجبور تھی،شریف خاندان کوقطری اور سعودی حکومتیں ایک پروانے کی بنیاد پر اڑاکر لے گئیں۔ پارلیمانی سیاست کے لئے اس ناموزوں دور میںمحترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے بھی خودساختہ جلاوطنی اختیار کر لی، اگر وہ جنرل پرویزمشرف کے ابتدائی دور میں پاکستان میں ہوتیں توشاید انہیں شدید سیاسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا، انہوں نے اس عالم بے نوائی میں جلاوطنی کوترجیح دی ۔جنرل پرویز مشرف کے ابتدائی تین سالوں عمران خان کی حمایت،ریفرنڈم میں کامیابی اور پھر مسلم لیگ ق کی سیاسی پشت پناہی کے باوجود ملک میں سیاسی بے چینی اپنے انجام کو پہنچ سکی اورنا ملک کا سیاسی بحران ٹل سکا۔ جنرل پرویز مشرف کی مسلسل سیاسی ناکامیوں اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی طول پکڑتی جلاوطنی نے دونوں قوتوں کو ایک میز پر بیٹھنے اور کسی ڈیل تک پہنچنے کا موقع فراہم کر دیا۔ یوں5اکتوبر2007ء کو سیاسی گدی پر قابض ایک فوجی آمر اور مقبول سیاسی قیادت محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے مابین ایک غیر معمولی سیاسی این آراووجود میں آیا ۔ اس سیاسی ڈیل کے نتیجے میں زیرعتاب 8041افراد کے سیاسی اور اخلاقی جرائم کی پردہ پوشی کی گئی۔ ان میں بیگم نصرت بھٹو ، ایم کیوایم کے لندن میں مقیم قائد،ڈاکٹر فاروق ستار سمیت کئی نامور34سیاستدان، سول بیورو کریسی کے نمایاں افراد اور ایم کیو ایم کے تقریباًسات ہزار سیاسی کارکن بھی شامل تھے جو یا تو سنگین مقدمات میں مطلوب تھے یا روپوش تھے۔ یوں اسے 2000کی دہائی کا ہی نہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا این آر او قراردیاگیا، اس بہتی گنگا میں پیپلزپارٹی سے زیادہ جنرل پرویز مشرف کے منظور نظر سیاسی دھڑوں کے متاثرین نے زیادہ فائدہ اٹھایا لیکن اس سیاسی ڈیل کی ساری کالک صرف پیپلز پارٹی کے منہ پر مل دی گئی جو بظاہر اشرافیہ سے سمجھوتوں کی بجائے سیاسی جدوجہد میں مشہور تھی۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے پرویز مشرف سے مایوسی کے بعد اکیلے پرواز کی ٹھانی اور بائیس برس تک عوام کو ،خاص طور پر نئی نسل کو آمرانہ مداخلت سے آزاد سیاسی نظام، منصفانہ سماج کے قیام اور کرپشن سے پاک پاکستان کے نعرے بلند کر کے تبدیلی کے خواب دکھائے۔نئی نسل نے اپنے خواب عمران خان کے نعروں پر قربان کر دیئے اور تبدیلی کی آس میں اپنا مستقبل تحریک انصاف سے جوڑ لیا ۔2018ء کے انتخابات کے نتیجے میں ایک کنٹرولڈ جمہوریت اور پارلیمان عمران خان کی جھولی میں ڈال دی گئی۔جب عمران خان میدان عمل میں کودے تو صورت حال ان کی امنگوں کے برعکس تھی، وہ مشکلات سے دوچار ہوئے تو آہستہ آہستہ اپنے تبدیلی کے بیانیئے اور خوابوں سے دور ہوتے چلے گئے اور اپنی سیاست کا محور محض احتساب کے ایک نقطے اورنعرے پر مرکوز کردیا۔انہوں نے سابق حکمرانوں کو احتساب کے نام پر نیب اور عدالتوں میں خوب گھسیٹا لیکن نوجوان نسل کو وہ نیا پاکستان نہ دے سکے جس کا وعدہ وہ ان سے پچھلے دوعشروں سے کر رہے تھے۔ ان چودہ مہینوں میں انہوں نے سیاست دانوں کو ہی نہیں، سول بیوروکریسی ،تاجروں اور صنعت کاروں کو اتنا خوف زدہ کیا کہ ملک کی آدھی معیشت ان کی معاشی ٹیم کی نالائقیوں سے بیٹھ گئی اور آدھی معیشت تاجر اور صنعت کار مٹھی میں بھینچ کر بیٹھ گئے جس سے ان کی حکومت میں معیشت کا پہیہ پھنس پھنس کر چلنے لگا۔مسلسل سیاسی اور معاشی ناکامیوں نے وزیراعظم عمران خان کو ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے معاشی این آراو کی تشکیل پر مجبور کر دیا ہے۔ چندروز قبل کراچی میںکاروباری شخصیات کو یقین دلایا ہے کہ ایک نئے آرڈیننس کے ذریعے ’’بزنس کمیونٹی کو نیب سے محفوظ کر دیا گیا ہے۔‘‘نئے نیشنل اکاؤنٹیبیلیٹی ترمیمی آرڈیننس 2019 ء کی بات کرتے ہوئے وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ’ ’مجھے پتا ہے کہ میرے کئی دوست بھی بیٹھے ہیں جنھیں یہ سن کر کافی خوشی ہو گی کیونکہ ان کے اوپر بھی نیب کے کیسز چل رہے تھے۔ ہمارا یہ ماننا ہے کہ نیب کو صرف پبلک آفس ہولڈرز کی ا سکروٹنی کرنی چاہیے، بزنس کمیونٹی کی اسکروٹنی کے لیے اور فورمز موجود ہیں، جیسا کہ ایف بی آر اور عدالتیں ہیں جو احتساب کا عمل جاری رکھیں گی۔وفاقی کابینہ کو بھیجی جانے والی سمری میں کہا گیا ہے کہ نیب نے ایک متوازی عملداری اختیار کر لی ہے اور یہ ٹیکس سے متعلقہ معاملات کی انکوائری کر رہا ہے جو کہ ٹیکس کے نگران اداروں کے دائرہ کار میں مداخلت جیسا ہے۔ لہٰذا اس ضمن میں نیب کے عملی دائرہ کار کی وضاحت ان ترامیم کے ذریعے کرنی ضروری ہے۔اس حوالے سے نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق کا کہنا ہے کہ اس نئے آرڈیننس کے تحت اب ٹیکس اور سرکاری بقایا جات وغیرہ کے ریفرینسز اب نیب کے دائرہ کار میں نہیں ہوں گے، اس طرح کے جو بھی ریفرینس نیب میں جاری ہیں، وہ عام عدالتوں میں چلے جائیں گے اور یہ خاصی بڑی تعداد میں ہیں اور زیادہ تر کاروباری افراد کے ہوں گے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں نے نیب قوانین سے متعلق صدارتی آرڈیننس کو مسترد کرتے ہوئے تمام معاملات پارلیمنٹ میں لانے کا مطالبہ کیا ہے اورنیب ترمیمی آرڈیننس کو ’’مدرآف این اور اوز‘‘قراردیا ہے۔ نیب ترمیمی آرڈیننس کو بدنیتی پر مبنی قرار دیا ہے۔ عمران حکومت یہ آرڈیننس اس وقت لائی ہے کہ جب سیاسی اور معاشی نظام کو گہرے کچوکے لگ چکے ہیں، اگر سیاسی انااور نفرت کی سیاست کو بالائے طاق رکھا جاتا اور زیادہ توجہ اپنے تبدیلی کے منشور پر مرکوز کی گئی ہوتی تونہ آج ملک کا یہ حال نہ ہوتا ، عمران خان کونئے نیشنل اکاؤنٹیبیلیٹی ترمیمی آرڈینینس 2019 ء کی صورت میں اپنی سیاسی زندگی کا سب سے بڑا یوٹرن نہ لینا پڑتا اور ان کی پالیسیوں کی جگ ہنسائی بھی نہ ہوتی۔