پنبہ کجا کجا نہم۔ ایک زخم ہو تو اس کی مرہم پٹی کر لیں۔ یہاں تو سارے کا سارا بدن زخموں سے چور ہے۔ رات گئے تک ٹی وی پر نواز شریف کی ریلی دیکھتا رہا چند دنوں سے مسلم لیگ نے اپنی تنظیم نو کی تھی۔ کئی سوال سر اٹھا رہے تھے‘ لیکن ہمارے مسخرے پن کی نذر ہو رہے تھے۔ مجھے اس پر بھی اعتراض نہیں۔ شیکسپئر کے ہاں ایک Clownمسخرے کا کردار ہوتا ہے جس کے بارے میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ اس کی حماقتوں سے بھی عقل کی باتیں جھلکتی ہیں۔ حماقتوں کی عقل مندی اور عقل مادی کی حماقت کا فلسفہ ہم نے یہیں سے سمجھا تھا۔ سوچا تھا کہ اس پر ذرا بات کرتے ہیں کہ صبح سویرے ایک بہت ہی دل خراش خبر سننے کو ملی اور وہ یہ کہ داتا دربار کے سامنے ایک خودکش دھماکہ ہوا ہے۔ اس دھماکے کا نشانہ اگرچہ ایک پولیس وین تھی۔ مگر وہ خانقاہ کے حفاظتی بندوبست کا حصہ تھی۔ میرے لئے یہ صرف عقیدت کی بنیاد پر تکلیف دہ واقعہ نہ تھا بلکہ ملک میں اس تکفیری اور خارجی فکر کا متشددانہ اظہار بھی تھا جو ہمارے ملک میں پہلے بالکل اجنبی تھی ‘ہو سکتا ہے خانقاہ یا مزار کے تقدس پر آپ ناک بھوں چڑھائیں‘ مگر یہ اس بات کی نشانی ہے کہ وہ کون سی فکرہے جو مساجد اور عبادت گاہوں تک کو نشانہ بناتی ہے۔ ایک دوسرے کا تسلسل ہی تو ہے۔ ان دو خبروں کے علاوہ مرے لئے سوہان روح وہ ناسور ہے جو معیشت کے گلنے سڑنے سے پیدا ہو رہا ہے۔ اقبال نے ایک بار کمال کا مصرع کہا تھا۔ انگریز مسلمانوں کی چارہ جوئی کے لئے حجاز میں ہسپتال کھولنا چاہتا تھا مسلمان قیادت اسے روکنا چاہتی تھی کہ اس ہسپتال کی آڑ میں یہاں سامراج اپنا ایک اڈہ کھول دے گا انگریز نے اس شفاخانے کے جواز میں اقبال کے الفاظ میں دلیل کیا شاندار دی تھی دست مریض پنجہ عیسیٰ میں چاہیے۔ اب بھی یہ لوگ ہماری معاشی مسیحائی کرنے آئے ہیں اور ہمارے کلیدی اداروں میں بیٹھ گئے ہیں۔ ہماری حساس ترین معلومات اس شخص کے پاس ہوں گی جس نے امریکہ کی یا کسی اور ملک کی وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے ایسی معلومات جو ہمارے منتخب اداروں کے اراکین کے پاس بھی نہیں ہوتیں۔ ہمارا دفاعی پروگرام‘ ہمارے سلامتی کے معاملات سب ان کے قابو میں ہوں گے۔ وہی ہمارا بجٹ بنائیں گے وہی ہماری ترجیحات طے کریں گے آج ہی فیصلہ آ گیا کہ سٹیل ملز کی نجکاری کی جائے گی۔ کون ہوتا ہے اسد عمر جو اسے اور پی آئی اے کو نجکاری کے جال سے نکال کر اپنے پائوں پر کھڑے کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا یا دکھا رہا تھا۔ ان میں ایک معاملہ بھی ایسا نہیں ہے جسے نظر انداز کیا جا سکے۔ ہمیں بتلایا جاتا تھا کہ سی پیک کی صورت میں نئی ایسٹ انڈیا کمپنی آ رہی ہے۔ وقت نے بتا دیا کہ نئی کمپنی سی پیک کی شکل میں نہیں آئی ایم ایف کی شکل میں آئی جو ہمیشہ آیا کرتی تھی۔ یہی وہ اکنامک ہٹ مین ہے جس کا تذکرہ آج کل ہمارے وزیر اعظم بھی کرتے پھرتے ہیں۔ پانامہ اور لاطینی امریکہ کی ریاستوں میں اس عالمی اقتصادی سامراج نے کیسے نفوذ کیا یہ سب اس کی تو کہانی ہے۔ ہماری یہ حکومت جانے کس تناظر میں اس تناسب کا حوالہ دیتی رہی ہے۔ شاید مطلب رعب جمانا ہے کہ ہم نے پڑھ رکھاہے جیسے ہماری سپریم کورٹ نے بھی گاڈ فادر کا حوالے دے ڈالا تھا۔ یہ سوچے سمجھے بغیر کہ صرف اس ایک حوالے نے پورے فیصلے کو سیاسی بنا ڈالا ہے۔ اکنامک ہٹ مین آ گئے ہیں وہ بنک دولت پاکستان کے نگہبان ہوں گے۔ اب وہ یہ معاشی فیصلہ کریں گے۔ یہ ایک فرد کی بات نہیں۔ پورا سسٹم آ رہا ہے جو یہ طے کرے گا کتنا ٹیکس لگانا ہے۔ بجٹ کیسے بنانا ہے اس بار ہم آئی ایم ایف کا بنایا ہوا بجٹ جھیلیں گے اور بددعائیں عمران خاں کو دیں گے۔ مجھے اس بات کا علم ہے کہ جب ہمارا ایٹمی پروگرام چل رہا تھا تو اس کی کامیابی کے لئے ہمارے بنکاری نظام نے کیا کردار ادا کیا تھا۔مجھے جمیل الدین عالی نے بڑی تفصیل سے بتایا تھا کہ انہیں غلام اسحق خاں نے کیا کا تفویض کیا تھا۔ عالی شاعر ہی نہیں بنکار بھی تھے اور شاید انہیں یہ کام سونپنے کی ذمہ داری اس لئے دی گئی کہ اسحق خاں کو عالی کی حب الوطنی پر اعتماد تھا اس وقت یہ نظام اپنے پورے کروف کے ساتھ ہماری شہ رگ پر آ بیٹھا ہے۔ مجھے یاد ہے کہ مشرف کے زمانے میں پہلی بار خبر آئی تھی کہ آئی ایم ایف کے نمائندے سٹیٹ بنک میں بیٹھے ہمارا بجٹ تیار کر رہے ہیں اور وزارت خزانہ کو بھی اس کی نزاکتوں کا علم نہیں ہے۔ اگر آپ سچ پوچھیں تو یہ جتنے لوگ ماہرین معیشت کے طور پر آتے ہیں‘ وہ نہ صرف مغرب کی یونیورسٹیوں کے پڑھے ہوتے ہیں‘ بلکہ ان میں خال خال ایسے ہوتے ہیں جن کی فکر انڈی پینڈنٹ ہوتی ہے۔ ایک کو پکڑ لیں یا دوسرے کو‘ ان کے سوچنے کا انداز ایک ہی ہو گا۔ یہ نہیں کہ دوسری سوچ ہوتی ہیں نہیں‘ بلکہ یہ کہ انہوں نے جب نوکریاں بھی وہیں کی ہوتی ہیں تو وہ وہیں کے آتشی انگار لے کر آتے ہیں اور ہمارے جنت نظیر ملک کو جہنم بنا ڈالتے ہیں۔ ہم بہت لعن طعن کرتے ہیں خاص طور پر ملک غلام محمد کو بحیثیت گورنر جنرل کے اور نہیں جانتے انہوں نے ملک کے پہلے وزیر خزانہ کے طور پر کیسے ملک چلایا تھا۔ ان کے بعد چودھری محمد علی وزیر خزانہ بنے جو بعد میں ملک کے وزیر اعظم بھی ہوئے اور 56ء کے آئین ان کی قیادت میںتیار ہوا۔یہی وہ دو افراد تھے کہ جب قیام پاکستان سے پہلے دلی میں مشترکہ وفاقی حکومت بنی تو کانگرس نے وزارت خزانہ مسلم لیگ کو سونپ دی کہ مسلمان حساب میں کمزور ہے مار کھا جائے گا۔ یہ دونوں قائد اعظم کے پاس گئے اور مشورہ دیا کہ لیاقت علی یہ وزارت لے لیں۔ پھر باقی تاریخ کا حصہ ہے‘ بنئیے کی چیخیں نکل گئیں اور اسے چھٹی کا دودھ یاد آ گیا۔ پاکستان کے اولیں وزیر خزانہ کے طور پر انہوں نے اس نوزائیدہ ملک کے لئے فاضل بجٹ پیش کئے۔ خسارے کے بجٹ تو تب شروع ہوئے جب ماہرین معیشت ہم نے باہرسے منگوانا شروع کئے۔ ہمارے ہاں شعیب اور ایم ایم احمد کا بڑا چرچا رہا ہے۔ ایم ایم احمد ہماری مصنوبہ بندی کے سربراہ تھے اور شعیب وزیر خزانہ‘ ان کی موجودگی میں کابینہ میں جب کوئی نظام خفیہ بات ہوتی تو ایوب خاں مسکرا کر کہتے‘ فکر نہ کرو امریکہ تک پہنچ جائے گی ہم ان ماہرین سے کام لیتے تھے‘ مگر جانتے تھے کہ یہ کن کے بندے ہیں اور انہیں صرف اس بات کی خبر ہونے دیتے تھے جو واشنگٹن پہنچائی مقصود ہو۔ سنا ہے بھٹو صاحب بھی اس آرٹ کی نزاکتوں سے بخوبی واقف تھے۔ میں نہیں کہہ سکتا ہمارے موجودہ حکمران اس معاملہ فہمی کی استطاعت رکھتے ہیں۔ اس لئے یہ واویلا بے جا نہیں کہ سامراج ہمارے گھر آنگن میں آن بیٹھا ہے اور اس کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سی پیک کے ذریعے چین کے قریب نہ ہو جائیں۔ یہ ہمیں زنجیروں میں جکڑنا چاہتے ہیں اور ہمارے حکمرانوں کو ایک بات آتی ہے کہ این آر نہیں دیں گے۔ لاحول ولا قوۃ۔ مسئلہ یہ نہیں‘ مسئلہ یہ ہے کہ آپ کہیں سامراج کو این آر او اور این او سی تو نہیں دے رہے۔ غیر ملکی سامراجی ہمارے ہاں تاجروں کے روپ میں آتے تھے اور ایسے ہی چھوٹے چھوٹے این آر او اور این او سی مانگتے تھے۔ پھر وہ وقت آیا کہ نہ سراج الدولہ کی جدوجہد ہمیں بچا سکی نہ ٹیپو سلطان کی جرأت اور بصیرت حتیٰ کہ بخت خاں بھی بے کار گیا۔ یہ مسئلہ اتنا اہم ہے کہ میں دوسرے دو مسئلے چھوڑ کر ادھر چل پڑا ہوں۔ داتا دربار پر حملہ ہمارے اندر کے بہت سے فسادات کو ظاہر کرتا ہے۔ جن سے ہمیں نپٹنا ہے اور نواز شریف کی ریلی خاصی معنی خیز ہو سکتی ہے۔ میں نے عرض کیا ‘ ہو سکتی ہے۔ مرے ملک کی سیاست بہت مشکل میں گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں۔ اب طوائف کا لفظ نہیں بولا جاتا‘ کال گرل کہا جاتا۔ جانتے ہیں نہ آپ! ہم معاشی کال گرل تو نہیں بنتے جا رہے اور توقع رکھتے ہیں کہ مغرب کے نواب صاحب ہمارے کوٹھے پر آنے کے بعد خریداروں کی لائنوں پر لائنیں لگ جائیں گے۔ نام بن جائے گا نا۔ شہرت ہو جائے گی۔ سچ مچ کہیں ہم ایک اقتصادی کال گرل تو نہیں بن گئے۔ اکنامک ہٹ مین دوبارہ پڑھ لیجیے۔ مگر اس بار ذرا غورسے۔