آج ہماری کابینہ یہ فیصلہ کرنے بیٹھی ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات کیسے ہونے چاہئیں۔ یہ وہ سوال ہے جو اس دن پیدا ہوا تھا جب پہلے مسلمان نے اس سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ویسے تو ہمارے قائد اعظم نے بڑے مدبرانہ استدلال کے ساتھ فرمایا تھا کہ جب برصغیر میں پہلا شخص مسلمان ہوا تھا تو پاکستان کی بنیاد رکھ دی گئی تھی۔ میں ہمیشہ کہا کرتا ہوں کہ اس میں مسلمان ہونے کی بات ہے۔ یہ نہیں کہ جب پہلے مسلمان نے اس سرزمین پر قدم رکھا تھا۔ یہ تسخیر ارضی کا مسئلہ نہ تھا، دلوں کی تسخیر کا معاملہ تھا۔ تاہم اس سے پہلے ایک اور بنیادی سوال پیدا ہو چکا تھا کہ یہاں کے مقامی لوگوں سے کیا سلوک کیا جائے جنہیں ہندو کہتے تھے۔ یہ گویا اس سوال کی ابتدا تھی کہ پاک بھارت تعلقات کیسے ہوں۔ محمد بن قاسم اور ان کے مجاہدوں نے اس سوال کا جواب خود نہ دیا۔ وہ ہماری قومی اقتصادی کونسل نہ تھی‘ نہ فاتح سندھ محمد بن قاسم کوئی حماد اظہر تھے کہ پریس کانفرنس میں اپنا فیصلہ سنا دیتے۔ فوراً حجاج بن یوسف کو لکھ بھیجا۔ ہر شخص تاریخ میں بہت سخت گیر گنا جاتا ہے مگر اس نے بھی فیصلہ خود نہ کیا بلکہ دمشق میں خلیفہ کو لکھ بھیجا۔خلیفہ نے علمائے وقت کے سامنے یہ سوال رکھ دیا۔ان کا جو جواب آیا وہ واپس سندھ میں اپنے لشکر کو بھجوا دیا۔جواب یہ تھا کہ انہیں شاید اہل کتاب تصور کیا جائے یعنی مشرکین مکہ کی طرح تصور نہ کیا جائے ان کی عبادت گاہوں کا احترام کیا جائے مگر ان سے شادی بیاہ کے رشتے نہ کئے جائیں۔ سو یہ پہلا سوال تھا جو اس مسئلے کے بارے میں پوچھا گیا اور اس کا جواب علمائے کرام کی مشترکہ رائے سے آیا اور نافذ العمل ہوا۔ میں کہا کرتا ہوں بلکہ گزشتہ 45سال سے بار بار لکھ چکا ہوں کہ تاریخ کے ہرمرحلے پر مسلمانوں کے سامنے یہ سوال سر اٹھائے کھڑا رہا اور وہ حالات کے مطابق اس کا جواب دیتے رہے۔ وہ جواب حالات کے تقاضوں اور مصلحتوں کے مطابق ہوتاتھا۔ یہاں میں نے مصلحت کا لفظ استعمال کیا۔ مبادا اس کا کوئی غلط مطلب لے لے۔ اس سے مراد آپ یوں سمجھ لیں کہ مصلحت دینی ہے۔ عرض کیا مسلمان فاتح کی حیثیت سے آئے تھے‘ مگر اصل میں وہ دلوں کو فتح کرنے والے تھے۔ اجمیر میں بیٹھ کر سلطان الہند نے قوالی کے ذریعے ہی ہزاروں لوگوں کو مشرف بہ اسلام کیا۔ انہیں کوئی خطرہ نہ تھا کہ مقامی کلچر میں موسیقی ایک غالب عنصر ہے۔ان کے بعد انہی کے سلسلے کے عظیم المرتبت عارف وقت حضرت نظام الدین اولیا نے اپنے چہیتے مرید حضرت امیر خسرو کو یہ نصیحت کی کہ دیکھو ‘ہندیوں کا مزاج بت پرستانہ ہے۔ اس لئے عارفانہ کلام کہنے کے بجائے عاشقانہ اشعار کہو۔ حضرت نظام الدین سے نہ صرف ہند میں خانقاہی نظام وجود میں آیا بلکہ جب وہ اپنے مرشد فرید الدین گنج شکر کے پاس گئے تھے تو اس وقت وہ مولوی نظام الدین تھے۔ایک مستند عالم دین۔ اس لئے یہ نہ سمجھے کہ یہ کوئی صوفیوں کی ذہنی اپچ تھی۔ یہ لوگ جینئس تھے۔ انہوں نے بادشاہوں کے متبادل تربیت کا ایسا نظام قائم کیا تھا جس نے ہندوستان کی شکل بدل کر رکھ دی۔ صرف امیر خسرو کو جو نصیحت کی گئی اس سے میں کہا کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں غزل کی وہ روایت محکم ہوئی جو ہم تک پہنچی‘سچی بات ہے ہند میں اسلامی تہذیب کی بنیاد رکھی۔ ہمارے شاہ ولی اللہ نے بڑی شان سے فرمایا تھا کہ اسلام جس سرزمین پر جاتا ہے وہاں کے مقامی اداروں کے ذریعے نفوذ کرتا ہے ۔میں اس بحث کو بہت حد تک لے جا سکتا ہوں مگر فی الحال اس کی ضرورت نہیں ہے یہاں مجھے ایک نازک موڑ کا ذکر کرنا ہے۔ وہ یہ کہ جب رام اور رحیم کو ایک کہنے والے پیدا ہو گئے تو مشیت ایزدی نے مجدد الف ثانی کا نزول کیا۔ میں کہا کرتا ہوں کہ جب ہماری مابعد الطبیعات میں فتور پیدا ہو گیااور رام اور رحیم کو ایک کہنے والے پیدا ہوئے تو اس کی اصلاح کے لئے یہ مرد جلیل آیا۔ اس نے کہا رک جائو‘ ایسا نہیں ہے۔ اس کے بعد کسی نے وحدت الوجود کی وہ تعبیر نے کی جو اس سے پہلے بہت سے غلط فہمیاں پید کر رہی تھی۔ پھر کوئی عبدالرحمن لکھنوی بھی پیدا نہ ہوا جس نے یہ ثابت کیا تھا کہ وحدت الوجود کلمہ طیبہ سے ثابت ہے ۔ بیسویں صدی کی نابغہ روزگارشخصیت حضرت مہر علی شاہ نے اس پر کیا خوبصورت کلام فرمایا ہے۔دوبارہ عرض کرتا ہوں کہ اس کی تفصیل کا بھی یہ محل نہیں ہے۔تاہم نظری طور پر ہماری اصلاح ہو گئی اور عملی طور پر طے ہو گیا کہ اسلامیان ہند بلکہ اسلامیان عالم سن لو ،مسلمان اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں یہ نظریہ شاہ ولی اللہ‘ سرسید اور اقبال سے ہوتا ہوا ہم تک پہنچا اور دنیا کے نقشے پر ایک نیا ملک وجود میں آیا جس کا نام پاکستان ہے۔ یہ اس سوال کا آخری جواب تھا۔ جو وقت کے تناظر میں کروٹیں لیتا ہوا یہاں تک پہنچا۔ میں تو یہ بھی کہتا ہوں کہ قائد اعظم کی مختصر زندگی میں اس سوال نے یونہی کروٹیں لی ہیں اور آخر میں اعلان کر دیا ہے کہ ہم الگ الگ قومیں ہیں اور پاکستان ایک حقیقت ہے۔ اس کا لیکن یہ مطلب تو نہیں کہ ہم ہمیشہ کے لئے ہی ہندوستان کے دشمن ہو جائیں۔ سب جانتے ہیں قائد اعظم کا بھی یہ مقصد نہ تھا۔ وہ اچھے ہمسایوں کی طرح مل جل کر رہنا چاہتے تھے۔تاہم اس وقت کابینہ کے سامنے جو جواب تھا اس تاریخی پس منظر میں اس کا بھی وہی جواب آنا چاہیے جو تاریخ کے مختلف مرحلوں میں حالات کے عین مطابق آتا رہا ہے۔اس بات سے ہٹ کر کہ مودی کو ہم ہٹلر کہتے ہیں یا یہ کہ کشمیر کو ہندوستان نے غصب کر لیا ہے اور ہم نے پوری دنیا کو بتایا کہ ہمارے اصولوں کی روشنی میں یہ ممکن نہیں۔ ہم نے سفارت کاری کا درجہ کم کیا اور دونوں ممالک کے درمیان تجارت بند کر دی۔ اب ہم یہ تجارت کھولنا چاہتے ہیں۔ ہم لمبے عرصے سے لائن آف کنٹرول پر لڑتے آئے ہیں۔ ہم نے پلک جھپکتے ہی ایک فون کال پر جنگ بندی کر دی۔ بہت اچھا کیا۔ ہم نے بتایا کہ ترکی میں ہندوستان نے ہمیں برا بھلا نہیں کہا بلکہ یہ کہ اس کے مندوب نے کشمیر کا نام نہیں لیا۔ ہم تعلقات معمول پر لانا چاہتے ہیں۔ پھر اچانک ہم پر انکشاف ہوا کہ ہمارے ہاں چینی ‘ کپاس کی کمی ہے‘ بھارت سے سستی مل سکتی ہے۔چلو یہ کام کر ڈالو۔بس اتنا تو بتا دیجئے یہ اچانک کون سی تبدیلی آئی کہ ہم نے یہ فیصلہ صادر کر دیا۔اب کی بار ہم نے کسی دمشق سے نہیں پوچھا بلکہ شاید امریکہ سے پوچھ ڈالا ہو۔ جو بھی وجہ ہو۔ بتا ڈالئے۔ میں پاک بھارت تعلقات کا مخالف نہیں۔ دیکھیے اتنی لمبی چوڑی تاریخ گنوا ڈالی ہے۔ مگر اتنا تو بتا دیجیے کہ موجودہ تناظر میں اس فیصلے کی شان نزول کیا تھی کیا ہم نے کشمیر پر ہندوستان کے غاصبانہ قبضے کے بعد جو فیصلہ کیا تھا اسے ختم کرنے کا وقت آ گیا تھا آ گیا ہے تو کیسے آیا ہے۔ کیا رام اور رحیم پھر ایک ہو گئے ہیں بتا دیجیے‘ ہم بھی ایمان لے آتے ہیں مگر کھل کر بتا دیجیے! کھل کر بتا دیجئے،ورنہ یہ کپڑا ہمارے تن کا لباس نہیں،ہم پر عذاب ہو گا اور چینی مٹھاس نہیں کڑوا زہر ہو گا۔