وہ مزار شریف میں پیدا ہوا کابل میں پروان چڑھا۔ کیا کیا باتیں یاد آ رہی ہیں۔ آج وہ امریکہ کی طرف سے اپنے آبائی وطن میں امن کا پیام لے کر آیا ہے۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ اس اپنی ہی سرزمین کو جنگ کی بھٹی میں جھونکنے میں اس کا بھی ہاتھ تھا۔ یہ ایک سچی کہانی ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ میں نے اسے افغانستان کا حسین حقانی کا کہا تھا۔ میں اسے ایک کامیاب حسین حقانی بھی کہہ سکتا ہوں‘ کیونکہ حقانی تو ابھی ٹامک ٹوئیاں مار رہا ہے۔ مگر یہ شخص اپنے جائے پیدائش افغانستان میں بھی امریکہ کا سفیر رہا اور عراق میں بھی اس نے یہ کردار نبھایا۔ عراق کی جنگ شروع کرانے والوں میں تو اس کا نام نمایاں ہے۔ یہی نہیں یہ اقوام متحدہ میں بھی امریکہ کا مندوب رہ چکا ہے۔ ٹرمپ حکومت میں تو اسے وزارت خارجہ کا محکمہ سونپنے کا بھی سوچا گیا تھا۔ یہ کہانی ہے زلمے خلیل زاد کی جو ان دنوں پاکستان میں تھا ‘اصل میں مجھے اس سے چڑ اس وقت پیدا ہوئی تھی جب یہ نو قدامت پسندوں کے سرخیلوں میں گنا گیا۔ یہ پچیس افراد کا ٹولہ تھا جس نے ایک بنیادی دستاویز پر دستخط کئے تھے۔ اس میں کیا کیا نام شامل تھے۔ یہ کوئی 1998ء کی بات ہے مجھے یاد پڑتا ہے‘1998ء کے آخری دنوں میں بھی ان میں سے 18لوگوں نے کلنٹن کے نام ایک خط لکھا تھا۔ یہ ایک تھنک ٹینک کا آغاز تھا جس نے عراق پر حملے کی راہ ہموار کی اور کھلم کھلا صدام حسین کا تختہ الٹنے کی بات کی۔ ان میں سے نویا غالباًدس لوگ ایسے تھے ‘جو بش انتظامیہ میں اہم عہدں پر جا بیٹھے تھے۔ کیا کیا لوگ تھے۔ ان کے درمیان یہی ایک نام ایسا تھا جو گوروں کے ناموں جیسا نہیں اس لئے مجھے کھٹکا تھا۔ باقی لوگوں میں ڈک چینی تھے‘ جو امریکہ کے نائب صدر تھے ‘کہا جاتا تھا کہ صدر کے بھی گرو تھے۔ تباہی کے اس منصوبے کی پشت پر اصل قوت انہی کی تھی۔ رمز فیلڈ تھے جو وزیر خارجہ تھے‘ ان کے ایک نائب وولفروڈز ہوا کرتے تھے جو عراق جنگ کے اصل موئد تھے۔ افغانستان میں جنگ کے بعد تو انہوں نے بڑھک ماری تھی کہ اب امریکہ کے فوجیوں کو کسی سرزمین پر بوٹ جمانے کی ضرورت نہیں۔ ہمارا طیارہ امریکہ سے اڑے گا۔ راستے میں فضائوں ہی میں پٹرول لے گا اور دنیا میں جہاں چاہے گا بمباری کر کے چلا آئے گا۔ بمباری کا لفظ تو گویا میں نے محاورے کے طور پر استعمال کیا ہے۔ وگرنہ افغانستان کے سنگلاخ پہاڑوں پر ان کے کیا کیا ڈیزی کٹر تباہی مچاتے رہے۔ عراق کو انہوں نے کیسے روند ڈالا۔ ان افراد میں کیا کیا نام تھے۔ سربراہ تو غالباًکرسٹان نام کا ایک نظریہ ساز تھا۔ اس کا ساتھی کاٹان تھا۔ انہوں نے پروجیکٹ فار نیو امریکن سنچری یعنی امریکہ کی نئی صدی کے نام پر ایک تنظیم بنائی تھی۔ یہ تنظیم 2006ء میں ختم کر دی گئی کہ اپنے مقاصد پورے کر چکی تھی۔ مگر ان دونوں کی تسلی نہیں ہوئی۔ انہوں نے 2009ء میںایک اور تنظیم بنا ڈالی۔ رچرڈ پرل‘ لیوسی‘تسکوٹر‘ لبی‘ ایلیٹ کوہن‘ جیب بش کیا کیا لوگ تھے۔ جو امریکہ پر چھاگئے تھے۔ ہاں ان میں تاریخ کے خاتمے والا خوکوہان بھی تھا۔ زلمے خلیل زادہ ان چیدہ لوگوں میں تھا اس لئے مجھے اس سے چڑ سی پیدا ہو گئی تھی اور آج میں نے اسے افغانستان کا حسین حقانی کہہ ڈالا ہے۔ اس وقت نہ میں زلمے خلیل زادہ پر لکھ رہا ہوں ۔نہ ان کو قدامت پسندوں یعنی نیوکون پر گفتگو کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں‘ ان دنوں یہ لوگ مرے دماغ پر چھائے ہوئے تھے۔ مرے ہی کیا‘دنیاکا ہر سوچنے سمجھنے والا شخص ایک عجیب تشویش میں تھا۔ دعویٰ تو ان کا یہ تھا کہ یہ جمہوریت کا دنیا فروغ چاہتے ہیں۔ مگر اس کے لئے طاقت کے استعمال کہ نہ صرف جائزسمجھتے تھے بلکہ ضروری بھی۔ میں نے ایک بار کراچی میں امریکی قونصل جنرل سے کہا کہ یہ لوگ بنیاد پرست بھی ہیں۔ استعماری (امپریلسٹ) بھی ہیں۔ اور فاشسٹ (فسطائی) بھی۔ اس نے فوراً پوچھا باقی دونوں تو ٹھیک ہے۔ مگر یہ تم انہیں فاشسٹ کیسے کہہ رہے ہو۔ عرض کیا کہ یہ کہتے ہیں امریکی اقدار اور اصول دنیا میں اعلیٰ ترین ہیں سب سے افضل و بالا ہیں۔ انہیں دنیا میں نافذ کرنے کے لئے اگر طاقت کا استعمال بھی کرنا پڑے تو ہمیں کرنا چاہیے۔ ہٹلر اور میسولینی اور کیا کہتے تھے۔ انہیں اپنی قوم یا نسل پر فخر تھا۔ دنیا پر حکومت کرنا وہ ان کا حق سمجھتے تھے۔ یہ نیوکون یہی کچھ تو کر رہے ہیں۔میں نے بتایا یہ تنظیم تو ختم ہو گئی‘ مگر یہ تحریک اندر ہی اندر زہر گھولتی رہی۔ ٹرمپ ازم اچانک تو آسمانوں سے آفت کی طرح نازل نہیں ہو گئی تھی۔ اس کی ایک یہی تاریخ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کے اندر یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ صدی امریکہ کی صدی ہے‘ جس طرح 1815ء سے 1914ء کو برطانیہ کی امپریل صدی کہا جاتا تھا۔ پوری دنیا میں برطانیہ کا سورج غروب نہ ہوتا تھا۔ ہر جگہ اس کے جھنڈے گھڑے ہوئے تھے‘ سمندروں میں اس کا راج تھا۔یہ تو پہلی جنگ عظیم سے اس کی طاقت کا خاتمہ شروع ہوا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کی باگیں اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئیں۔ اس میں کوئی شک نہیں دنیا میں ایک نئے عالمی نظام کا ظہور ہوا کچھ عرصہ سرد جنگ میں گزرا۔ مگر جب 1991ء میں سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا‘ تو اس خیال نے تقویت پکڑی کہ اب دنیا میں طاقت ایک ہی ہے اور دنیا پر حکمرانی کرنا اس کا حق ہے۔ ریگن کے زمانے میں جہاں روس سے مذاکرات ہو رہے تھے‘ وہاں ریگن اس تصور کو عام کر رہے تھے کہ امریکہ کی فوجی طاقت اور نظریاتی عمدگی اصلی حقیقت ہے۔ اسی لئے تو قدامت پسندوں کو پہلے نیوریگنائٹ کہا گیا۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ امریکی قیادت امریکہ اور دنیا کے لئے اچھائی اور بھلائی کا پیام ہے۔ پھر ان لوگوں نے کیا کیا نہ سوچا۔ دلچسپ بات ہے یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر سوچا گیا۔ یا ان شہری اصولوں کو پیش نظر رکھ کر ان پر غور کیا گیا۔ جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ امریکہ ان کی وجہ سے امریکہ ہے۔وہ آزاد دنیا کا قائد ہے۔ اس کی اس قیادت کو قائم رکھنا گویا دنیا کے مفاد میں ہے۔ اس سلسلے میں ان نیوکون نے یہ بھی اعلان کیا کہ چین دنیا کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ وہ ترقی کی منزلیں مارتا ہوا آگے بڑھتا ہی آ رہا ہے۔ اس کی یہ پیش رفت کم از کم پچیس(بعض کے خیال میں 50سال تک) سال تک روکے رکھنا امریکہ کی ذمہ داری ہے۔ غور کیا جائے تو اس پر عمل کیا گیا یہی وہ زمانہ تھا جب ہنگٹن نے تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ پیش کیا جسے پہلے پہلے کوئی پذیرائی نہ ملی‘ پھر امریکہ کے دفتر خارجہ پر انہی لوگوں کا قبضہ ہو گیا جو اس طرح سوچتے تھے۔ تاریخ کے خاتمے والے فوکوہاما تو ان افراد میں شامل تھے جنہوں نے نیوکون کی بنیادی دستاویز پر دستخط کئے تھے۔ یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر ہوا۔ آزادی کے اعلیٰ ترین اصولوں کو فروغ دینے کے عزم کی خاطر ہوا۔ مگر ان میں سختی اتنی تھی کہ ان کے فروغ کے لئے طاقت کے استعمال کو بھی جائز سمجھا گیا۔ ان دنوں کے امریکہ کا مطالبہ بہت دلچسپ ہے۔ کیسے بحث چلی کہ امریکہ جمہوری یا ریپبلکن ہے یا امپریلزم؟ کیا پوچھتے ہیں‘ کیسی کیسی بحثیں ہوئیں۔ امریکہ برطانیہ کی طرح نوآبادیاں نہیں بنانا چاہتا تھا کہ اس کا زمانہ گزر گیا تھا۔ مگر اس نے حکمرانی کے کیا کیا طریقے اختیار کئے۔ امپریلزم کا لفظ استعمال کئے بغیر اپنی استعماری موجودگی کو مضبوط کیا۔ اس نے امریکہ کی سوچ بدل کر رکھ دی۔ آج امریکہ میں جھگڑا کیا ہے۔ یہی نا کہ اگر امریکہ وہ ساری باتیں مان لے جو ٹرمپ ازم نے چلا رکھی ہیں تو امریکہ‘ امریکہ نہیں رہتا۔ ایسی ہی بات ہے نا جیسے ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم پاکستان کے نظریے کو ختم کر دیں تو پاکستان‘ پاکستان نہیں رہتا بہت سے ممالک کی طرح ایک ملک بن کر رہ جاتا ہے۔ امریکہ مگر دنیا دار ہو گئے ہیں کوئی ستر سال کی نظریاتی بحثوں کے ان کے سارے لبرل‘ لیفٹ اور ہر طرح کے کشادہ دل کے نظریات کو ختم کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کے ذہین لوگوں نے خود کو کیموفلاج کر لیا ہے۔ اب وہ امریکہ کی اجتماعی سوچ میں گھل مل گئے ہیں۔ نہ امریکہ ‘ امریکہ رہا ہے اور نہ یہ دنیا وہ دنیا رہی ہے جس کے خواب دیکھے جاتے تھے۔ ہمارے اشفاق صاحب ٹھیک کہتے تھے کہ اس ملک کو اتنا نقصان ان پڑھ لوگوں نے نہیں پہنچایا جتنا پڑھے لکھے لوگوں نے پہنچایا ہے۔ یہاں پاکستان کی جگہ آپ دنیا لکھ لیں۔ یقینا دنیا کو جتنا نقصان ان پڑھے لکھے لوگوں نے پہنچایا کسی اور نے نہیں پہنچایا۔ نائن الیون کے ایک سال بعد جب امریکہ کے سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دعوت پر ہم چند پاکستانی امریکہ گئے تو وہاں ہمیں دنیا کے جن تین چار مسائل کے بارے میں بریف کیا گیا۔ ان میں مڈل ایسٹ اور عراق کا تذکرہ الگ الگ تھا۔ ایک جگہ میں نے پوچھ لیا کہ آیا عراق اور مشرق وسطیٰ الگ الگ ہیں۔ جواب ملا جی ہاں۔ اگرچہ عقل نہ مانتی تھی‘ مگر یقین سا آ گیا تھا کہ عراق کے خلاف امریکہ کارروائی کرنے والا ہے۔ یہ وہی کارروائی ہے جس کی آگ اب تک افغانستان میں سلگ رہی ہے۔ اور یہ آگ لگانے والا اسے بجھانے کے لئے آیا ہے۔ خوش آمدید زلمے خلیل زاد‘ افغانستان تمہارا اپنا ملک ہے اور ہم پاکستانیوں کے لئے ہی بھی اجنبی نہیں ہو۔ ہم تو اس جنگ کا ادنیٰ سا مہرہ ہیں۔ ابھی یہ آگ بجھنے میں بہت وقت لگے گا۔ امریکہ کی وہ پندرہ منزلہ عمارت جس کی آخری منزل پر امریکہ کی نئی صدی کا دفتر ہے‘ اسے جانے کتنے مناظر یاد ہوں۔ یہیں اس عمارت میں امریکن انٹر پرائز انسٹی ٹیوٹ میں آ کر بش نے عراق کے خلاف اعلان جنگ کیا تھا۔ یہ سب ادارے جس تباہی کے ذمہ دار تھے اس نے دنیا میں تو قیامت برپا کی مگر خود امریکہ کو بھی تباہ کر دیا۔ اب امریکہ وہ امریکہ نہیں رہا جو یہ ہوا کرتا تھا اور جس پر امریکیوں کو فخر تھا۔