مکرمی ۔انسان میں اگر غور و فکر کامادہ ہو تو کائنات کی ہر چیز اپنے اندر کئی راز چھپائے بیٹھی ہے۔ پھر بھلے جیتا جاگتا انسان ہو کہ رینگنے والا کیڑا۔ دیو ہیکل پہاڑ ہوں یاکناروں کی سرحدوں سے پرے پھیلے سمندر۔ آسمان کی لامتناہی پھیلی چادر ہو کہ تہہ در تہہ جڑی زمین کی پرتیں۔ نظام شمسی ہو کہ قمر کا اتار چڑھاو ہر شے ایک مخصوص مدار میں ایک خاص نسبت سے اپنے سفر کی منازل طے کر رہی ہے۔ اللہ نے ہر شے میں ایک خاص نسبت رکھی ہے پھر بھلے وہ موسموں کا بدلنا ہو پھولوں کاکھلنا ہو یا فصلوں کی تیاری سب میں ایک خاص نسبت ہے۔ کبھی دیکھیں تو انسان کا سفر زندگی بھی اسی سے ملتا جلتا۔ بچپن خوبصورت ٹھنڈی صبح جیسا روشن جس کے طلوع پر ہر طرف زندگی کی لہر دوڑ جاتی۔ ہر زی روح خوشیاں مناتا۔۔کڑیل جوانی دوپہر کے آگ برساتے سورج جیسی جہاں سایہ بھی سمٹ کے پاوں تلے دب جاتا اپنے سوا کچھ نظرہی نہیں آتا۔ اور ڈھلتا سورج ڈھلتی جوانی جیسا بس سبکو اپنے کام کی پڑی ہوتی کہ غروب سے پہلے یہ بھی ہو جائے وہ بھی ہو جائے اور پھر آتا بڑھاپا غروب آفتاب جیسا دن بھر کی تلخیاں سمیٹے غصے سے لال ہوتا لیکن اسکی لالی میں وہ تپش نہیں ہوتی جیسے بوڑھوں کی آواز میں رعب و دبدبہ کم اور بے بسی زیادہ ہوتی بالکل ویسا خوف ہوت شاید ڈوبنے کا خوف۔ انسان کی موت جیسا خوف۔ کبھی غور کریں تو شام کے وقت کا خوف اتنا بھیانک ہوتا کہ سنسان جگہ پر ڈوبتے سورج کو دیکھنے کاحوصلہ کسی جوان کے پاس نہیں ہوتا کبھی بھولے سے بھی نظر پڑ جائے تو اندر تک کنپ جاتا۔ ہر زی روح پر اس خوف غلبہ ہوتا ہر ایک کو جلدی ہوتی بہت جلدی گاڑیوں کاہارن ایک دوسرے کوپیچھے چھوڑتے دھواں پھیلاتے انجن ایک ریس میں ہوتے۔ ماں بیٹی کو نصیحتیں کرتی نہیں تھکتی کے مغرب سے پہلے گھر آجانا۔ اولاد والدین کو کالز کر کر ہانپ جاتی کہ مغرب ہو گئی آپ گھر نہیں پہنچے سب خیر تو ہے؟ شام کا ڈوبتا سورج اہل زمیں پر باالکل ویسا ہی سوگ طاری کر دیتا جیسا کسی مرنے والے کے گھر والوں پہ ہو۔ ایک دن کی سورج کی زندگی انسان کی سو سال کی زندگی کا پتہ دیتی۔ پھر بھی ہم غور کیوں نہیں کرتے۔ (مصباح چوہدری پاکپتن)