میرے آرکیٹیکٹ دوست نے دو تصویریں سامنے رکھیں۔ دونوں مکان ایک جیسے ،ایک ہی سائز کے تھے‘ پہلو بہ پہلو کھڑے۔ ایک کے سامنے درخت کا ہرا بھرا وجود نظر کو لبھاتا تھا۔ دوسرا ہر لحاظ سے مکمل،رنگ و روغن ،تعمیر ،نقشہ ،سب پہلے والے جیسا مگر ویرانی کا تاثر دیتا ہوا۔ دونوں کی قیمت ایک تھی‘ پوچھا کون سا خریدنا پسند کرو گے‘میں نے درخت والے مکان پر انگلی رکھ دی۔ کوئی بھی ہوتا‘ ایسا ہی کرتا۔ اب ایک دوسرا اندازہ لگاتے ہیں۔ دو امیدوار ہیں۔ اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے ہیں۔ دونوں کے ساتھ آپ کے مراسم ایک جتنے ہیں۔ ایک کے ڈیرے چائے‘ بریانی ‘ قورمہ‘ بوتل بند مشروبات میسر ہیں۔ فلمیں دکھائی جا رہی ہیں‘ علاقے کے ٹیڑھے اور بدمعاش آپ کو جھک جھک کر ملتے ہیں۔ دوسرے امیدوار نے سادہ پانی کا ایک کولر رکھا ہے۔ چند کرسیاں اور ووٹر لسٹیں۔ آپ اگر ایک عام آدمی ہیں جو ریاست کی سرپرستی سے محروم ہے تو آپ اس ویران کیمپ کا شاید رخ نہ کریں۔وہ امیدوار کتنا بھی لائق ،ذمہ دار اور قومی مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو آپ لچھے دار باتیں اور آباد ڈیرے والے کو ووٹ دے دیتے ہیں۔یہ کبھی نہیں سوچتے کہ یہ ڈیرہ کس پیسے سے چل رہا ہے ۔کوئی خیر خواہ بتا بھی دے کہ یہ لوگوں کی جائیدادوں پر قبضہ ، سرکاری اراضی میں ہیر پھیر،ٹھیکوں میں گھپلوں اور رشوت سے کمایا گیا ہے ، آپ پرواہ نہیں کرتے ۔ لاہور کے لوگ عشروں سے ریاست کی بجائے سیاسی افراد کی سرپرستی میں جیتے رہے ہیں۔کسی کے ساتھ دھوکہ ہو جائے تو وہ بڑے دھوکے باز کی مدد طلب کرتا ہے، کسی کا مکان ہتھیا لیا جائے تو وہ بڑے قبضہ گروپ سے مدد لیتا ہے،کسی کو بدمعاش پریشان کریں تو وہ اس سے بڑے بدمعاش کے پاوں پڑ کر مدد مانگتا ہے ۔یہ وہ نظام ہے جس میں ریاست کی کوئی حیثیت نہیں،ریاست کے ہاتھ پولیس،پٹوار اور بلدیہ ہیں وہاں جائیں آپ کو اتنا مایوس کیا جائے گا کہ گھوم پھر کر اسی نمائندے کے پاس مسئلہ لے کر آ جائیں گے جس کا ڈیرہ آپ جیسے پریشان حال لوگوں سے بھرا رہتا ہے ،جو اپنے حکم سے رو گردانی کرنے والے پولیس اہلکاروں کو ڈانٹ کر ،گالیاں دے کر آپ کا کام کروا لیتا ہے ۔ ایف آئی اے نے لاہور کے کھوکھر برادران کو نوٹس بھیجے ہیں۔ رکن قومی اسمبلی افضل کھوکھر، ان کے بھائی رکن صوبائی اسمبلی سیف الملوک کھوکھر اور ملک شفیع کھوکھر پر الزام ہے کہ انہوں نے منی لانڈرنگ کا ارتکاب کیا‘ سرکاری و غیر سرکاری زمینوں پر قبضے کئے۔ تینوں بھائیوں سے کہا گیا ہے کہ 7دسمبر کو خود پیش ہو کر الزامات کا جواب دیں۔ الزامات کی فائل میں ایک بڑا معاملہ بھی ہے‘80کنال اراضی کو جعل سازی سے کھوکھر برادران نے اپنے فرنٹ مینوں کے نام منتقل کرایا۔بتایا جارہا ہے کہ لاہور کے مہنگے علاقے میں ایک پارسی ڈنشا رہا کرتے تھے، مسٹر ڈنشا بے اولاد غلام تھے۔2014 میں ان کا انتقال ہوا تو کھوکھر برادران نے یہ اراضی اپنے قریبی لوگوں کے نام منتقل کروا لی،ظاہر ہے اس عمل میں متعلقہ پٹواری اور دیگر عملہ بھی شامل ہو گا۔ کھوکھر برادران کا نام جاتی امرا کے ڈیرہ داری اخراجات اٹھانے والوں کے طور پر لیا جاتا رہا ہے‘ عام انتخابات میں ملک سیف الملوک کے بیٹے کو ٹکٹ نہ دینے پر قیادت پر دبائو تھا لیکن مریم نواز نے یہ ٹکٹ فیصل کھوکھر کو دینے کی ہدایت کی۔ کھوکھر خاندان کے بہت سے کاروبار ہو سکتے ہیں لیکن علاقے میں ان کا سب سے بڑا نیٹ ورک پراپرٹی ڈیلر ہیں۔ یہ ڈیلر ان کے سیاسی ساتھی اور کاروباری شراکت دار ہیں۔آپ سمجھیں پراپرٹی ڈیلرز کو کھوکھر برادران سب سے زیادہ عزت دیتے ہیں ۔ کوئی جھگڑے والی جائیداد ہو تو فیصلہ کھوکھر برادران کے پاس ہی گھوم پھر کر آ جاتا ہے۔سیاسی دھڑے والے ہیں اور رکھ رکھاو کا خیال کرتے ہیںَ ۔چند روز قبل جب پی ڈی ایم کے لاہور جلسہ کے لئے مریم نواز نے فنڈز جمع کرنے کی مہم شروع کی تو کھوکھر خاندان نے سب سے زیادہ چندہ دیا۔ مسئلہ یہ پیدا ہو رہا ہے کہ ان کے خلاف کارروائی ایسے وقت شروع کی گئی جب اپوزیشن کو یہ کہنے کا موقع مل گیا کہ یہ جلسہ روکنے اور مسلم لیگ کی مقامی قیادت پر دبائو ڈالنے کا حربہ ہے۔ جنوبی لاہور کے اسی علاقے میں مسلم لیگ ن کے ایم این اے رانا مبشر اقبال ہیں۔ مبشر اقبال کا معلوم ذریعہ روزگار بھی پراپرٹی کا بزنس ہے‘شریف خاندان کی زرعی زمینوں کے غیر اعلانیہ مینجر مرزا جاوید ایم پی اے ہیں اور ان کا روزگار بھی پراپرٹی کی خرید وفروخت ہے۔ رانا مبشر ہی نہیں سابق ایم پی اے وحید گل اور دیگر کئی مقامی رہنما بھی زمینوں پر قبضے اور بدعنوانی کے معاملات میں ملوث بتائے جا رہے ہیں۔ یہ لاہور کے معاملات ہیں‘ لاہو کے قریبی شہر شیخو پورہ میں زمینوں پر قبضے کے الزام میں ن لیگی رکن قومی اسمبلی جاوید لطیف کے خلاف گزشتہ ایک سال سے قانونی کارروائی ہو رہی ہے۔ اوکاڑہ اور قصور میں بھی ایسے معاملات کی بھر مار ہے۔ گزشتہ دنوں میرے ایک وکیل دوست کے پاس قصور کے اہم ن لیگی سیاستدان کی جانب سے ایک بیوہ کی کئی مربع اراضی پر قبضہ کا معاملہ آیا ہے۔ کوئی ادارہ اگر سیاست کا ایندھن بنانے کی بجائے ملکیت کی دستاویزات سے بیوہ کی مدد کرنا چاہے تو اس سے تعاون کیا جا سکتا ہے۔ جن لوگوں کے خلاف یہ ثبوت اور الزامات سامنے آ رہے ہیں ان کے ڈیروں پر ہر وقت رونق رہتی ہے۔ ریاست کی عام آدمی کے ساتھ کوئی ہمدردی نہیں رہی ، کرپشن نے ہر وہ ذریعہ خرید رکھا ہے جو عام آدمی کو ریاست سے ملوا سکتا ہے ۔تھانہ اور پٹوار کی سیاست اسی لئے مضبوط ہے ، ریاست اگر شہریوں کی سگی ماں ہوتی تو ایسا نہ ہوتا، یہ ماں سوئی رہی تو عام آدمی ریاستی اداروں کی شکل تک بھول جائے گا اور معاشرہ شخصیات کا غلام بن کر جمہوری آزادی کا مطالبہ کرتا نظر آئے گا۔