’’بخارا کی حکومت اپنے ایک افسر کو سونپنے کے بعد میں سمرقند کی جانب روانہ ہوگیا۔ ابھی مجھے سمرقند پہنچے چند ہی دن گزرے تھے کہ میں نے ایک حیرت انگیز خواب دیکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بہت ہی اونچی سیڑھی میرے سامنے کھڑی ہے۔ اگرچہ اس کا نچلا حصہ زمین پر ہے لیکن بالائی حصہ کہیں ٹیک لگائے نظر نہیں آتا۔ مجھے یہ سیڑھی دیکھ کر بہت حیرت ہوئی اور اپنے آپ سے کہنے لگا کہ یہ سیڑھی جس کا بالائی حصہ کہیں ٹیک لگائے ہوئے نہیں تو یہ کیسے ہوا میں کھڑی ہوئی ہے اور زمین پر گرتی کیوں نہیں؟ ابھی میں اس ادھیڑ بن میں تھا کہ اچانک ایک اونچی آواز گونجی جو کہہ رہی تھی: ’’اے تیمور اس سیڑھی پر قدم رکھ اور اوپر چڑھنا شروع کردے۔‘‘ میں نے ادھر ادھر نظر دوڑائی لیکن کوئی نظر نہیں آیا تاہم میں نے جواب دیا: ’’میں اس سیڑھی پر نہیں چڑھ سکتا کیونکہ یہ ہوا میں معلق ہے اور ممکن ہے کسی لمحے گر پڑے۔‘‘ نظر نہ آنے والی آواز گونجی: ’’کیا تو نہیں دیکھ رہا کہ یہ سیڑھی اگرچہ ہوا میں معلق ہے لیکن گرتی نہیں اور اگر تو اس پر قدم رکھے گا تو بھی یہ گرنے والی نہیں!‘‘ لیکن میں سیڑھی پر چڑھنے سے ہچکچا رہا تھا۔ وہ آواز پھر سنائی دی: ’’تیمور کیا تو ڈر رہا ہے؟‘‘ ’’جو عقل سے کام لے وہ ڈرپوک نہیں ہوتا‘‘ میں نے صفائی پیش کی۔ گوکہ میں بہت نڈر ہوں لیکن جان بوجھ کر آگ میں نہیں کودتا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ آگ مجھے بھون کر رکھ دے گی۔‘‘ اس بار وہ آواز قدرے کرخت اور تحکمانہ لہجے میں گونجی: ’’میں تجھے کہتا ہوں کہ سیڑھی پر قدم رکھ اور اوپر چڑھنا شروع کردے۔‘‘ میں نے بے ارادہ سیدھا پائوں سیڑھی کے پہلے پلے پر رکھا اور دونوں ہاتھوں سے سیڑھی کو پکڑ کر جھنجھوڑنا شروع کردیا۔ جب میں نے یہ دیکھا کہ سیڑھی اپنی جگہ سے ہلی تک نہیں تو مجھے مزید حیرت ہوئی۔ بہرحال میں نے سیڑھی پر چڑھنا شروع کردیا اور رفتہ رفتہ اوپر کی طرف بڑھنے گا۔ کچھ اوپر جانے کے بعد یک لخت میرا بایاں پائوں شل ہوگیا۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ وہ میرا ساتھ چھوڑ گیا ہو۔ گوکہ مجھے درد کا احساس نہیں تھا لیکن میں بایاں پائوں اٹھا بھی نہیں سکتا تھا لہٰذا میںآگے نہ بڑھا اور اپنی جگہ پر کھڑا رہ گیا۔ اس لمحہ وہ غیبی آواز دوبارہ گونجی: ’’رک کیوں گیا۔ آگے بڑھ۔‘‘ میں نے کہا کہ میرا بایاں پائوں بے حس ہو چکا ہے اور میں اسے اٹھا نہیں سکتا۔ آواز آئی: ’’چڑھتا رہ۔ ایک پیرکانہ ہونا تیرے راستے کی رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔‘‘ میں نے آواز کے کہے پر عمل کیا اور مجھے معلوم ہوا کہ اگرچہ میرا بایاں پیر میرا ساتھ نہیں دے رہا لیکن میں اسے اپنے ساتھ گھسیٹ سکتا ہوں۔ میں اوپر چڑھتا رہا لیکن کچھ دیر بعد میرا سیدھا ہاتھ بھی دفعتاً سست پڑ گیا اور میری انگلیاں میرا کہا ماننے سے منکر ہوگئیں۔ البتہ میرا دایاں ہاتھ مکمل طور پر بے حس نہیں ہوا تھا اور میں سیڑھی کے ڈنڈوں کو تھام سکتا تھا لیکن میری انگلیوں میں پہلی جیسی جان نہیں رہی تھی۔ پھر بھی میں سیڑھی چڑھتا گیا اور آخر کار ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں سیڑھی ختم ہو گئی اور اس کے بعد کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا۔ یہاں وہی آواز ایک بار پھر سنائی دی جو مجھ سے پوچھ رہی تھی: آیا تو جانتا ہے کہ تونے کتنے زینے طے کرلیے ہیں؟ میں نے جواب دیا: نہیں۔ ’’یہی بہتر تھا کہ نہ جانو۔‘‘ وہ آواز پھر سنائی دی۔ کیونکہ تو جتنے زینے چڑھ آیا ہے وہ تیری زندگی کے شب و روز ہیں۔ یعنی تیری زندگی کے ایام کی تعداد۔ البتہ تو جب تک زندہ رہے تو اوپر ہی جائے گا کبھی نیچے نہیں آئے گا لہٰذا ایک نصیحت یاد رکھ کہ ہمیشہ دانشوروں‘ علمائ‘ صنعتکاروں اور شاعروں کا لحاظ رکھنا۔ انہیں عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھنا‘ چاہے وہ تیرے مخالف ہی کیوں نہ ہوں اور ایسے لوگوں کو ہرگز تکلیف نہ پہنچانا خواہ وہ تیرے دین کو نہ مانتے ہوں۔ یہ کہنے کے بعد وہ آواز خاموش ہو گئی اور میری بھی آنکھ کھل گئی۔ آج وہ خواب دیکھے اڑتالیس سال بیت چکے ہیں لیکن اس کی تعبیر ہو بہو میرے سامنے ہے۔ میں نے گزشتہ اڑتالیس سالوں میںایک بار بھی پسپائی اختیار نہیں کی اور نہ ہی میری دولت میں ذرہ بھر کمی واقع ہوئی اور اب جبکہ میں یہ سرگزشت لکھنے میں مصروف ہوں تو میرا ارادہ چین جانے کا ہے تاکہ اس عظیم مملکت کو بھی اپنی قلمرو میں شامل کرلوں۔ البتہ خواب میں سیڑھی چڑھتے ہوئے بائیں پیر کے بے حس ہو جانے کی تعبیر یہ نکلی کہ ایک جنگ کے دوران میرے بائیں پائوں پر ایسی ضرب لگی کہ وہ دن اور آج کا دن میں الٹے پائوں کو گھسیٹ کر چلنے پر مجبور ہوں۔ دائیں ہاتھ کے کام نہ کرنے کی تعبیر یہ نکلی کہ جنوبی روس میں ایک معرکہ آرائی کے دوران میرا سیدھا ہاتھ بری طرح مجروح ہو گیا اور اس دن سے آج تک میرے سیدھے ہاتھ کی انگلیاں میرے ارادے کے مطابق کام نہیں کرتیں یہی وجہ ہے کہ میں اپنی یہ آپ بیتی الٹے ہاتھ سے تحریر کر رہا ہوں۔ میں نے اس نصیحت کے مطابق جو مذکورہ خواب میں مجھے کی گئی تھی ہمیشہ علماء ‘ صنعتکاروں‘ شاعروں اور دانشوروں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا ہے‘ چاہے ان کا تعلق غیر مسلموں سے کیوں نہ ہوا اور خواہ وہ شمس الدین محمد شیرازی (حافظ) کی طرح مرتد ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں۔ جب میں نے شیراز فتح کیا تو دوسرے علما سے ملاقات کرنے سے پہلے یہ حکم دیا کہ شمس الدین محمد کو میرے سامنے پیش کیا جائے۔ کچھ ہی دیر میں ایک عمر رسیدہ کمر خمیدہ شخص کو میرے سامنے لایا گیا جس کی ایک آنکھ سے پانی بہہ رہا تھا۔ میں نے پوچھا: شمس الدین تم ہو؟ بوڑھے شخص نے جواب دیا: جی ہاں امیر جہانگیر شمس الدین میں ہی ہوں۔ میں نے پوچھا: آیا یہ شعر تیرا ہے: خدایا محتسب مارا باآواز دف و نے بخش کہ ساز شرع زین افسانہ بے قانون نخواہد شد (خداوندا ہمارے محتسب کو بھی سازو و آواز کا سلیقہ بخش دے اگر ایسا ہو جائے تو تیرے دین کا کچھ نہیں بگڑے گا) بوڑھا شاعر بولا: جی ہاں اے امیر والا۔ یہ شعر میں نے ہی عرض کیا تھا۔ ڈھٹائی کی بھی حد ہوتی ہے۔ اچانک مجھے غصہ آ گیا اور میں نے جواب طلبی کرتے ہوئے پوچھا: کیا تو نہیں جانتا کہ تیرا یہ شعر دین و مذہب کے بارے میں بڑی اہانت ہے؟ بوڑھا شاعر پرسکون لہجے میں بولا: میرا مقصد توہین کرنا ہرگز نہیں تھا بلکہ اس شعر میں ’’افسانہ‘‘ سے میری مراد وہی ’’دف ونے‘‘ ہے اور میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ دف ونے کی آواز اتنی بے وقعت ہے کہ اس سے ارکان دین میں خلل نہیں پڑ سکتا۔ لیکن میں نے اس کی صفائی مسترد کردی اور طیش میں آ کر بولا۔ ایسا ہرگز نہیں ہے شمس الدین! بلکہ اس شعر میں دین و مذہب کے بارے میں تیری اہانت بالکل آشکارا ہے لہٰذا… لیکن اچانک مجھے اپنا خواب اور اس خواب کی نصیحت یاد آ گئی۔ میں نے اپنے آپ پر قابو پایا اور بات کا رخ بدلتے ہوئے نرم لہجے میں شمس الدین محمد سے پوچھا: اچھا یہ بتائو۔ میں نے مزید گفتگو کا بہانہ ڈھونڈا۔ کیا یہ شعر بھی تمہارا ہے: اگر آن ترک شیرازی بدست آرد دل مارا بخال ہندوش بخشم‘ سمرقند و بخارا را (اگر وہ ترک شیرازی ہمارا دل لبھا جائے۔ تو بخشوں خال ہندو پر سمرقند و بخارا کو…’’خال ہندو چہرے کے سیاہ تل کو کہتے ہیں‘‘) حد ہو گئی۔ میں نے تیور بدل کر کہا: میں ہزاروں جانوں کی قربانی دے کر اور خون کی ندیاں بہا کر سمر قند و بخارا حاصل کروں گا اور تم یہاں بیٹھے بیٹھے صرف ایک خال پر یہ دونوں شہر نچھاور کئے جا رہے ہو! جواب میں شمس الدین شیروانی کے بٹن کھولے اور اپنی بوسیدہ بلکہ چیتھڑا نما قمیض کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا: ’’ہماری اسی بخشش نے تو ہمیں یہ دن دکھایا ہے سرکار!‘‘ شمس الدین کی حاضر جوابی دیکھ کر میں اپنی ہنسی ضبط نہ کرسکا اور خوش ہو کر اسے ایک ہزار سونے کے سکے بخش دیئے تاکہ اس کی باقی زندگی چین و آرام سے بسر ہو۔ لیکن چلتے چلتے ایک بار پھر سمر قند و بخارا کا ذکر کیا اور اسے دعوت دی کہ سمر قند ضرور دیکھے۔ یہ دنیا کا خوبصورت ترین اور آباد ترین شہر ہے۔ میں نے کہا اے شمس الدین تیرے شیراز میں صرف سات مسجدیں ہیں اور ان میں سے بھی صرف ایک مسجد بڑی ہے جبکہ سمر قند میں دو سو سے زیادہ عالی شان مسجدیں موجود ہیں۔ اگر تو شہر کے نزدیکی ٹیلے سے باغوں میں گھرے ہوئے سمر قند پر نظر ڈالے تو تجھے یوں محسوس ہو گا جیسے بہشت بریں کا نظارہ کررہا ہو لیکن شمس الدین محمد پر ان باتوں کا اثر نہ ہوا اور وہ بولا کہ میں زندگی کا آخری حصہ شیراز ہی میں گزارنا چاہتا ہوں۔ اے میری کہانی پڑھنے والو! جان لو کہ میں نے جس دن سے وہ خواب دیکھا تو وہ دن اور آج کا دن کوئی دانشور‘ کوئی صنعت کار‘ کوئی شاعر کوئی عالم میرے ہاتھوں تکلیف میں مبتلا نہیں ہوا بلکہ میں نے ہمیشہ ان لوگوں کو عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا اور ان کی بھلائی کا خیال رکھا۔ میری نظر میں عالموں‘ دانشوروں‘ صنعتکاروں اور شاعروں کا احترام اتنا زیادہ ہے کہ جب سلطانیہ کے مسیحی رہنما یعنی اسقف اعظم نے مجھے برا بھلا کہا تو میں نے اسے سزا نہیں دی بلکہ اسے یہ پیشکش کی کہ وہ سمرقند میں آ کر آرام دہ زندگی بسر کرسکتا ہے۔ (امیر تیمور گرگانی کی خودنوشت کا ایک ورق)