چینی کا معاملہ طے ہو گیا ہے۔ حکومتی اعلان ہے‘ قیمت کم نہیں ہو گی اور سکینڈل نیب وغیرہ دیکھیں گے۔ چلیے رات گئی بات گئی۔ اب مٹی پائو چلئے کوئی اور قصہ چھیڑتے ہیں۔ مرزا نوشہ ابھی غالب تخلص نہیں کرتے تھے بلکہ اسداللہ اسد کہلاتے تھے کہ ان کی شاعری کی دھوم ادھر نواح دہلی سے ادھر ادھر،یو پی میں دور تک پھیل گئی۔ پھر ایک دن ایسا سانحہ ہوا کہ آپ نے تخلص بدل دیا اور اسداللہ خاں اسد سے اسداللہ خاں غالب ہو گئے۔ سانحہ یہ ہوا کہ ایک عقیدت مند آپ کی شاعری کی داد دینے کہیں دور سے غالباً لکھنؤ سے چل کر دہلی پہنچا اور مرزا کے دولت خانے پر حاضر ہوا۔ قدم بوسی کی۔ مصافحہ کیا اور آداب عرض کرتے ہوئے آپ کی شاعری کی خوب تعریفیں کرنے لگا۔ بولا اجی حضرت‘ ہم تو آپ کے ایک شعر کے دیوانے ہیں۔واللہ کیا غضب کا شعر کہا ہے ؎ بتوں کی جفا پر اسد نے وفا کی میرے شیر شاباش رحمت خدا کی اسداللہ خاں یہ سن کر بری طرح بھنائے اور برہم ہوئے کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ اس متبذل شعر کو ان کے سرمنڈھنے والے اس ناہنجار کا کیا کریں۔ آخر اور کچھ نہ سوجھا تو یہ فرما کر ’’مداح‘‘کو بھگا دیا کہ واللہ اگر یہ شعر میرا ہے تو مجھ پر لعنت خدا کی۔ ٭٭٭٭٭ خدا جانے یہ کس کا شعر تھا۔ اس زمانے میں رکشے ٹیکسیاں ہوتے تھے۔ نہ ٹرک کہ انہی کا کارنامہ مان لیتے۔بہرحال جو کوئی بھی تھا‘تخلص اس کا بھی اسد تھا اور جو اس اسد کی بدنامی میں اضافے کا سبب بن سکتا تھا۔ چنانچہ مرزا نے تخلص بدل کر اپنی بچت کر لی اور دیکھئے ان کی قسمت کہ ان کے دور میں ہی نہیں ‘ ان کے بعد بھی کسی شاعر نے اپنا تخلص غالب نہیں کیا۔یہ کہانی اس تازہ ’’سانحے‘‘پر یاد آئی جس میں وزیر اعظم نے کسی کے کلام کو علامہ اقبال کا کلام قرار دے کر ٹویٹ کر دیا۔ کوئی انوکھا ماجرا تو بہرحال یہ نہیں تھا۔ ماضی میں بھی وہ نہ جانے کس کس کے کلام کو کس کس سے منسوب کر چکے ہیں۔ خصوصیت سے رابندر ناتھ ٹیگور کو شیکسپئر بنانے والا کارنامہ تو خوب مشہور ہوا لیکن یہ علامہ اقبال والا سانحہ تو سب پر بازی لے گیا۔ جو کلام انہوں نے پیش کیا‘ اپنی تھیم کے اعتبار سے ایک دعا ہے لیکن کلام بہرحال کلام نہیں‘تک بندی ہے جو کسی روڈ سائیڈورکشاپ میں ڈھلی لگتی ہے۔ مرزا نوشہ نے تو تخلص بدل لیا‘ علامہ اقبال زندہ ہوتے تو کیا بدلتے؟ ٭٭٭٭٭ بہرحال اب وزیر اعظم کم از کم علامہ اقبال کی حد تک تو محتاط ہو رہیں گے۔ ان کی پارٹی میں فرزند اقبال کے فرزند بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ ان سے تصدیق کرا سکتے ہیں۔ سنا ہے کہ حکومتی ایوانوں میں آج کل جس شاعر کی فکری رہنمائی کی دھوم ہے‘ ان کا نام خدائے سخن‘ شہنشاہ الفاظ علامہ امام الدین گجراتی ہے۔ ٭٭٭٭٭ رکشے اور ٹرک ہمارے ’’شاہراتی ادب‘‘کے اہم تخلیق کار ہیں۔ ادب اس لئے کہ محض شاعری ہی نہیں‘ طرح طرح کے محاورے اور ضرب الامثال بھی ان کے پیچھے لکھے ملتے ہیں۔ انہیں جمع کیا جائے تو ایک اچھا خاصہ ’’سنتھیارس‘‘ بن سکتا ہے۔ ہر موقع محل کا شعر‘ مصرعہ‘ محاورہ اور مثال اس میں سے مل جائے گی اور نوآموز لکھنے والوں کے لئے رہنمائی کا کام کرے گی۔ کتاب کا نام ’’رہنمائے کالم نویساں‘‘یا جدید اینکر پرسن گائیڈ رکھا جا سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ بہت سے شاعر اسی طرح کے رواں دواں ادب کو حفظ کر کے شاعر بنے۔ ماضی میں البتہ نوآموز شاعر مناسب ہدیہ دے کر کسی استاد سے اس کا کلام خرید لیتے تھے اور مشاعروں میں اپنے نام سے پڑھ دیتے تھے۔ بہت برس گزرے‘ کراچی کے عالمی ڈائجسٹ میں مشہور صاحب طرز صوفی شاعر بہزاد لکھنوی اپنی سرگزشت ’’حکیم بڈھن کے کارنامے‘‘ کے عنوان سے شائع کرتے تھے۔ خدا معلوم سوفیصد سچ تھا یا کچھ مبالغہ بھی لیکن کہانی یہ تھی کہ بہزاد اور حکیم صاحبان نے ایک فیکٹری لگا رکھی تھی جس میں حسب فرمائش’’شاعری‘‘ کی پروڈکشن ہوئی تھی۔ نوآموز شاعروں کا کام‘ ان کی دکان چل نکلی تھی۔ ردیف قافیے کا انتخاب یہ ہر دو حضرات شاعر کے تخلص کو پیش نظر رکھ کر کرتے تھے۔ اب وہ دور گزر گیا’’’ٹک ٹاک‘‘کو دیکھ لیجیے‘ ایک سے ایک بے استادا دانشور اور شاعر اور کلاکار ملے گا اور ان میں سے بہت سے تو اتنے مقبول ہیں کہ انہیں دیکھنے اور داد دینے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ٭٭٭٭٭ اس شاہراتی ادب کو آپ اتنا معمولی بھی نہ سمجھئے ان کے بعض تخلیقی شہ پارے تو اتنے مقبول ہوئے کہ زبان زدخاص و عام ہو گئے۔مثال کے طور پر ایک ٹرک ڈرائیور نے یہ مصرعہ خوشخط لکھوا کر پیچھے لٹکا دیا کہ ؎ ھن گھنّ مزے تبدیلی دے یعنی اب آیا تبدیلی کا مزا بتانے کی ضرورت نہیں کہ اس مصرے نے کیسی مقبولیت حاصل کی۔ ویسے دراصل یہ مصرعہ نہیں‘طرح مصرعہ ہے اور اس طرح مصرعے پر عوامی شاعری کے پلیٹ فارم سے انگنت غزلے دو غزلے لکھے گئے ۔ افسوس کہ ان میں سے ایک بھی خوف فساد خلق سے شائع کرنے کی جرأت نہیں کی جا سکتی ہے۔ ہر طرح کا بانقط اور بانقط کلام وافر مقدار میں دستیاب ہے‘شائقین کسی بھی گلی محلے بازار منڈی چوک چوپال تھڑے چوبارے پر دن رات یہ کلام سن سکتے ہیں۔ زبان خلق بنے اس کلام کی افسوس کہ میڈیا پر ذرا بھی نمائندگی نہیں‘ اسے نقارہ خدا ماننے کو تیار نہیں۔ اسے ناقدری عالم نہ کہیے تو کیا کہیے؟بہرحال گمان غالب ہے کہ حکومت والے اور حکومت لانے والے اس ’’پاپولر شاعری‘‘ سے بے خبر نہیں ہوں گے جس کا ڈنکا رات دن گلی کوچوں میں بج رہا ہے۔