وزیراعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں کہا ہے کہ اوورسیز پاکستانیوں نے کرونا وائرس کے باجود 10 مہینوں کے دوران 2 بلین ڈالرز بھیج کر ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔اپنی ٹویٹ میں وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کی ترسیلات زر مارچ میں بڑھ کر 2.7 بلین ہوگئیں، جو گذشتہ سال کے مقابلے میں 43فیصد زیادہ ہیں۔رواں مالی سال میں اب تک ترسیلات زر میں 26فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔وزیر خزانہ حماد اظہر نے بھی ٹویٹ میں لکھا کہ 9ماہ میں ترسیلات زر 21.5 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ جولائی تا مارچ ترسیلات زر 26.2 فیصد بڑھ گئیں۔گورنر اسٹیٹ بینک نے بھی کہا ہے کہ معیشت کے مختلف شعبوں میں بہتریآرہی ہے۔رضا باقر نے کہا کہ ابھی عید آنے والی ہے اس پر ترسیلات زر میں مزید اضافہ ہوگا۔رضا باقر نے کہا کہ سالانہ بنیاد پر ایل ایس ایم میں 9 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ وائرس کی تیسری لہر کے دوران ہم مضبوط معاشی شرح نمو کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں۔ یہ سب خوش آئند ہے لیکن دوسری جانب مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے بجلی مہنگی ہو رہی ہے حکومت نے آئی ایم ایف کو یقین دہانی کرائی ہے کہ نئے ٹیکس لگائے جائینگے،بجلی مہنگی کی جائے گی ،پٹرولیم لیوی میں بھی مزید اضافہ کیا جائے گا،ماہرین کے مطابق بجلی کے ٹیرف میں 5 روپے اضافہ ہو سکتا ہے اس کا مطلب ہے کہ اس اضافے سے حکومت 900 ارب روپے حاصل کرے گی جس کا مطلب یہ ہے کہ اوسطاً ہر پاکستانی جو بجلی کا صارف ہے اس کو اضافی بل آئے گا ،جو تقریباً 30 ہزار روپے سالانہ کی بنیاد پر ویسے بھی ابھی تک تین سالوں میں بجلی کے بل 300 فیصد بڑھ چکے ہیں۔اس کے علاوہ 1300 ارب روپے کے اضافی ٹیکس آ رہے ہیں اس کا مطلب ہر پاکستانی خاندان پر 30 سے 40 ہزار روپئے سالانہ کا اضافی ٹیکس لگے گا۔پاکستانی حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ جو معاہدہ کیا ہے وہ اس کو پورا نہیں کر پائے گی،بجلی مہنگی کرنے اور نئے ٹیکس لگانے سے مہنگائی میں بھی اضافہ ہوگا اور سیاسی طور پر حکومت کو بہت بڑا دھچکہ لگے گا ۔حکومت عوام میں اپنی مقبولیت کھو سکتی ہے ،بجلی کا بل دینا عوام کی پہنچ سے باہر ہو جائے گا، ابھی تک تو حکومت نے آئی ایم کی تمام شرائط مان لی ہیں اور اس کے عوض 500 ملین ڈالر کی قسط مل گئی ہے ،یعنی اتنی شرائط مان کر ہمیں پیسے ملے ہیں لیکن ممکن ہے حکومت آئی ایم کی شرط پوری نہ کر سکے کیونکہ عوام پر اتنا بوجھ ڈالنا حکومت کیلئے مشکل ہو جائے گا اپوزیشن حکومت کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہے ،ابھی تک تو حکومت عوام کو یہ کہ رہی ہے کہ اپوزیشن اپنے کیس ختم کرانے کیلئے شور مچا رہی ہے لیکن مہنگائی کا جب طوفان آئے گا اور اپوزیشن کو کھل کر بولنے کا موقع ملے گا تو حکومت کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہو گا حکومت کو تین سال ہو گئے ،یہ ایک سال ہے اپنی کار کردگی دکھانے گا، اس کے بعد جو سال ہوگا، وہ الیکشن کا سال ہو گا۔اتنی مہنگائی کر کے حکومت الیکشن میں کیسے جائے گی، کیسے ووٹ مانگے گی،لگتا یہ ہے کہ حکومت کو کسی اسٹیج پر آئی ایم ایف سے دوبارہ معاملہ کرنا پڑے گا یا آئی ایم ایف پرو گرام چھوڑنا پڑے گا ،ماہرین کے مطابق جو معاہدہ ہوا ہے ،وہ قابل عمل نہیں۔عالمی مالیاتی ادارے کسی بھی ملک کی معاشی سمت درست کرنے نہیں آتے معیشت کو درست کرنا سیاست دانوں اور عوام کام ہے،آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کی 75 سالہ تاریخ دیکھ لیں ان اداروں نے کبھی بھی اور کہیں بھی کسی ملک کی سمت درست نہیں کی، آئی ایم ایف کبھی یہ نہیں کہتا کہ آپ بجلی کے نرخ بڑھادیں، بلکہ وہ کہتا ہے کہ آپ 1000ارب روپے کا بجلی کا خسارہ کر رہے ہیں ،وہ خسارہ ختم کردیں، اب وہ خسارہ ختم کرنے کا طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت جو بجلی چوری ہو رہی ہے، وہ چوری روکے جو وصولی ہو رہی ہے ،وہ وصولی بڑھائیں لیکن چونکہ حکومت بجلی چوری نہیں روک پاتی، وصولی بہتر نہیں بناتی، اس لئے بجلی کے نرخ بڑھا دیتی ہے اور اسی طرح کئی سالوں سے بجلی کے نرخ بڑھائے جا رہے ہیں اور امید کرتے ہیں کہ بجلی بڑھانے سے خسارہ کم ہو جائے ،ایسا ممکن نہیں ہو سکتا ،حکومتیں ایک ہی تجربہ کرتے جا رہی ہیںاور امید کرتی ہیں کہ نتیجہ مختلف ہو گا نہیں ہو سکتا۔ عام آدمی کی معیشت اس کے کچن سے شروع ہوتی ہے اور کچن پر ہی ختم ہو جاتی اسے ملکی معیشت سے کوئی سروکار نہیں عام آدمی کو آلو،ٹماٹر، پیاز، اندے،چینی ،آٹا اور دیگر چیزوں کے ریٹ سمجھ آتے ہیں اب ویسے بھی رمضان شروع ہو چکا ہے اور رمضان میں کھانے پینے کی اشیا ویسے ہی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں،پھل سبزی مزید مہنگی ہو گئیں۔پاکستان کی معیشت بارے آئی ایم ایف کچھ پیش گوئی کر رہا ہے ۔اسٹیٹ بنک کے اعدادو شمار کچھ کہ رہے ہیں۔آئی ایم ایف کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں رواں برس بے روز گاری مزید بڑھے گی گزشتہ برس ملک میں بے روز گاری کی شرح4.5فیصد تھی ،آئی ایم ایف نے 5 فیصد تک جانے کی پیش گوئی کی ہے ،جو 2022ء میں کم ہو کر 4.8 فیصد ہو گی۔ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے کہ مہنگائی بھی آگے جا کر کم ہو گی گزشتہ برس مہنگائی 10 فیصد تھی جو اب 8.7 فیصد تک ہو جائے گی اور 2022 ء میں مزید کم ہو کر 8فیصد ہو جائے گی۔ ماہرین کے مطابق جب عالمی ادارے کچھ تخمینے لگاتے ہیں، تو ان کے پیچھے کچھ مفروضے ہو تے ہیں ،اب ضروری نہیں کہ مفروضے وہی رہیں ،حالات بدل بھی سکتے ہیں ،کوویڈ کی وجہ سے ہر ملک کی صورتحال تبدیل ہو رہی ہے کچھ ملکوں میں دوبارہ لاک ڈائون لگا ،پاکستان میں بھی کچھ علاقوں میں لاک ڈائون کی بات کی جا رہی ہے، لاک ڈائون لگا تو حالات کچھ اور ہونگے نہ لگا تو حالات کچھ اور ان عالمی اداروں میں جو ماہر معاشیات بیٹھتے ہیں وہ کچھ ڈیٹا اکٹھا کرتے ہیں اور اس ڈیٹا کی بیس پر اپنے حالات بتاتے ہیں۔ عالمی اداروں کی نسبت پاکستانی ادار وں میں جو لوگ بیٹھے ہوتے ہیں ،ان کی بات زیادہ قابل بھروسہ ہوتی ہے کیونکہ وہ براہ راست پاکستان کے حالات سے آ گاہ ہیں، ان کے تجزیے زیادہ بہتر ہوتے ہیں لیکن عالمی ادارے جیسے آئی ایم ایف ورلڈ بنک یا ایشین ڈویلپمنٹ بنک یا اور ادارے کوئی رپورٹ دیں ،تو وہ ہیڈ لائن بن جاتی ہے ،یہی ادارے تھے جنہوں نے پچھلی حکومت میں کہا تھا کہ پاکستان 2025 ء میں اتنی بڑی امرجنگ اکانومی ہو گا۔ پہلے 10 ملکوں میں شمار ہو گا جیسے ہی وہ حکومت گئی تو ہمیں پتہ چلا کہ ہمار تو کرنٹ اکائونٹ خسارہ ہی اتنا زیادہ ہے کہ لینے کے دینے پڑ گئے ہیں ۔ہماری فنانس منسٹری اسٹیٹ بنک کے معاملات میں بہت زیادہ مداخلت کرتی ہے، جس پر اسٹیٹ بنک اگر کچھ خود مختاری مانگ رہا ہے، تو اسے کہا جاتا ہے کہ پتہ نہیں اسٹیٹ بنک کوئی ملک کے اوپر کوئی ادارہ بننے جا رہا ہے جو کسی کی بات نہیں سنے گا۔ ماہرین کے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ اگر کچھ اعداد شما ر ادھر ادھر ہوں برآمدات بڑھیں اور در آمدات کم ہوں تو سمجھا جاتا ہے کہ معیشت بہتر ہو گئی ،ذرا سی مہنگائی میں کمی آ جائے تو کہا جاتا ہے کہ معیشت بہتر ہو گئی لیکن کوئی ایسی پالیسی نہیں بنائی جا رہی جو دور رس ہو عارضی طور پر کام چلایا جا رہا ہے وزیر اعظم نے حفیظ شیخ کو مہنگائی کم نہ کرنے کی وجہ سے ہٹایا ان کی جگہ حماد اظہر کو لایا گیا لیکن حماد اظہر کوئی ایسا فارمولا نہیں دے سکے جس سے مہنگائی کم ہو۔