مکرمی! آئی ایم ایف نے پاکستان کے لئے چھ ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی منظوری دے دی ہے،جن میں سے دو ارب ڈالر اِسی سال ملیں گے یہ پیکیج39 ماہ پر محیط ہو گاآئی ایم ایف سے بالآخر منظور ہونے والے اس قرض کے لئے پاکستان نے کتنے پاپڑ بیلے اورکیا کیا قربانیاں پیش کیں۔سب سے پہلے تو وزیراعظم کو اپنے اس ببانگ دہل اعلان سے "یوٹرن" لینا پڑا ۔ مخالف جماعتیں اِسے آئی ایم ایف کا بجٹ کہہ رہی ہیں وہ نہ بھی کہیں تو بھی صاف نظر آتا ہے کہ بجٹ میں بہت سی شرائط آئی ایم ایف کے کہنے پر رکھی گئی ہیں، ٹیکس ریونیو کا ہدف بھی اْن میں سے ایک ہے، ورنہ پچھلے سال کی نسبت ٹیکس ریونیو40 فیصد بڑھا دینا کوئی حکیمانہ سوچ نہیں،لیکن5555 ارب روپے کا ہدف رکھ دیا گیا ہے، یہ اور ایسی دوسری شرائط نہ مانی جاتیں تو شاید قرض کی منظوری مزید دو چار مہینے آگے جا پڑتی، یاسرے ہی سے انکار ہو جاتا-بجلی، گیس اور دوسری یوٹیلیٹی سروسز کے نرخ بھی آئی ایم ایف کے حکم پر ہی بڑھائے گئے ہیں- بہت سے دوسرے اقدام بھی چغلی کھاتے ہیں کہ اْن کے پیچھے بھی آئی ایم ایف کی دانش و حکمت ہی پوشیدہ ہے،لیکن حکومت یہ تسلیم کرنے کے لئے تیار ہی نہیں-اس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ وہ شرائط سامنے لائی جائیں جو قرض کے حصول کے لئے مانی گئی ہیں۔اگر ایسا ہو جائے تو پتہ چل جائے گا کہ آئی ایم ایف نے کیا منوایا اورہم نے کہاں کہاں سرِتسلیم خَم کیا۔ (اظفرصدّیقی، لاہور)